موذنِ اوّل حضرت بلالِ حبشیؓ کی حیات مبارکہ۔۔۔


اسلام کے موذنِ اوّل حضرت بلالِ حبشیؓ کی حیات مبارکہ۔۔۔
ابو عبداللہ حضرت بلال حبشی ؓ، افریقی نسل کے اوّلین مسلمانوں میں سے ہیں جومحسن انسانیت کے دست مبارک پرمشرف بہ اسلام ہوئے اور سابقون الاولون اصحاب ؓمیں ان کا شمارہوا۔آپؓ کے والدکا نام رباح اور والدہ محترمہ حمامہ تھیں۔ آپؓ کے والدین بنیادی طور پرافریقہ کے خطے حبشہ جسے آج کل ایتھوپیاکا ملک کہا جاتا ہے وہاں کے رہنے والے تھے۔ حضرت بلال ؓ کی پیدائش مکہ مکرمہ میں ہی ہوئی۔ امت مسلمہ میں موذن اسلام ان کی اول وآخر شناخت ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے خریدکر آزاد کیا اور پھر ساری عمر جوار نبوی میں بسرکی۔ حضرت بلال ؓ کو محسن انسانیت کا اس قدر قرب میسر آیا کہ جملہ ضروریات نبوی حضرت بلال ؓ کی ہی ذمہ داری تھی۔ آپ ؓکا شمار اصحاب صفہ میں بھی ہوتا ہے، محسن انسانیت نے حضرت بلال ؓکو اوّلین موذن اسلام بنایا، انہیں اذان سکھائی، الفاظ و حروف کی صحیح ادائیگی کا طریقہ سمجھایا اور پھر انہیں سیرالموذنین کا لقب بھی مرحمت فرمایا۔
قریش کا ایک نامور سردار امیہ بن خلف اسلام کا بدترین دشمن تھا، اس کے غلاموں میں سے حضرت بلال ؓ نے جب اسلام کی تعلیمات سے آگاہی حاصل کی اوردولت ایمان سے قلب مبارک منور ہوا۔ تاہم ایک مختصر مدت تک اپنے ایمان کو پردہ اخفا میں رکھا، لیکن آخرکب تک؟ نور ایمان کی روشنی نے ان کے آقا امیہ بن خلف کی آنکھوں کو اندھا کردیا اور مصائب و آلام اور ابتلاءوآزمائش کا ایک پہاڑ ان پر ٹوٹ گرا۔ صحرائے عرب کی تپتی ریت روزانہ کی بنیاد پر ان کی میزبان تھی، عشق نبی سے بھر پور سینے پر بھاری بھرکم پتھرکا وزن اس آزمائش کی بھٹی میں حضرت بلال ؓ کوکندن بناتا تھا اور زنجیروں میں جکڑی ہوئی رات ’احد، احد‘ کے سبق کو پختہ ترکرتی چلی جاتی تھی۔کوڑے مارنے والے تھک جاتے اور باریاں بدل لیتے تھے،کبھی امیہ بن خلف اور ابوجہل اور پھرکوئی اور لیکن حضرت بلال ؓ کی پشت سے دروں کی آشنائی دم توڑنے والے نہ تھی، خون اور پسینہ باہم اختلاط سے جذب ریگزار ہوتے گئے یہاں تک کہ محسن انسانیت تک کسی مہربان نے داستان عزم وہمت روایت کرڈالی۔ محسن انسانیت نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو روانہ کیا، آپؓ نے امیہ بن خلف کو شرم دلانے کی ناکام کوشش کی اور پھر ایک مشرک حبشی لیکن صحت مند غلام کے عوض حضرت بلال ؓکو خرید کر آزادکردیا۔
مدنی زندگی کے آغاز میں ہی جب ایک موذن کی ضرورت پیش آئی تو محسن انسانیتکی نگاہ انتخاب سیاہ رنگت کی حامل اس ہستی پر پڑی جس کے چہرے سے پھوٹنے والی حب نبوی کی کرنوں سے آفتاب بھی ماند پڑجاتا تھا۔ حضرت بلال ؓ فجرکی اذان سے پہلے ہی مسجد نبوی کے پڑوسی مکان، جو بنی نجارکی ایک خاتون کی ملکیت تھا، کی چھت پر بیٹھ جاتے اور وقت کے آغاز پر اذان دیتے، جس کے بعد سب مسلمان مسجد میں جمع ہوجاتے تھے۔ حضرت بلال ؓ کا سارا دن رسول کریم کے ساتھ ہی گزرتا تھا، خاص طور پر جب مسجد قبا جانا ہوتا تو وہاں بھی حضرت بلال ؓ ہی اذان دیتے جس قبا کے مکینوں کو رسول کریم کی آمدکی اطلاع ہوجاتی تھی۔ قربت نبوی کے فیض نے حضرت بلال ؓ کو خازن نبوی بھی بنادیا تھا چنانچہ جب کبھی کوئی سائل دست سوال درازکرتا تو اس کو موذن اسلام ؓ کی طرف بھیج دیا جاتا اور حضرت بلال ؓ رسول اللہ کے ایما پر حسب ضرورت و حسب توفیق سائل کی معاونت فرمادیتے تھے۔ کچھ لوگوں نے حضرت بلال ؓ کے تلفظ پر اعتراض کیاکہ وہ ”شین“ کو ”سین“ کہ کر ادا کرتے ہیں لیکن ان کا اعتراض بارگاہ رسالت کی جانب سے مستردکردیا گیا۔ ایک بار رسول اللہ نے پوچھا ”بلال ایسا کیا عمل کرتے ہوکہ میں نے جنت میں تمہارے قدموں کی چاپ سنی ہے؟“ حضرت بلال ؓ نے جواب دیاکہ جب بھی وضوکرتا ہوں دو رکعت ”تحیةالوضو“ کے ضرور پڑھ لیتا ہوں۔
ہجرت کے بعد حضرت بلال ؓ نے رفاقت نبوی کا حق ادا کیا اور ہرغزوہ میں شامل رہے خاص طور پرغزوہ بدر میں اپنے سابق آقا امیہ بن خلف کو قتل کیا۔ دربار رسالت میں اس سے بڑھ کر اورکیا پذیرائی ہوسکتی ہے کہ فتح مکہ کے موقع پرکبار اصحاب رسول اور سرداران قریش کے درمیان سے آپ ؓکو ہی حکم اذان ملا اورآپ ؓ نے خانہ کعبہ کی چت پر چڑھ کر اذان دی جو اس شہر اور اس گھر میں طلوع اسلام کے بعد پہلی اذان ہی نہ تھی بلکہ اعلان فتح تھا۔ ایک پسے ہوئے طبقے کے فردکی محض تقوی کی بنیاد پر اس قدر عزت افزائی صرف دین اسلام کاہی خاصہ ہے۔
وصال نبوی کا سانحہ کل اصحابؓ کے لیے بالعموم جبکہ حضرت بلال ؓ کے لیے بالخصوص جاں بہ لب تھا۔ مدینہ شہرکا گوشہ گوشہ آپؓ کو رسول کریم کی یاد لاتا تھا چنانچہ آپؓ اسلامی لشکرکے ساتھ ملک شام کی طرف سدھارگئے اور اذان دینا بندکردی۔ ایک بار جب حضرت عمر ؓ نے بیت المقدس فتح کیا تو ساتھیوں کے بے حد اسرار پر امیرالمومنین ؓنے حضرت بلال ؓسے اذان کی درخواست کی جس کو آپؓ نے قبول فرمایا۔ ایک بارآپ ؓدمشق میں محو استراحت تھے کہ خواب میں زیارت رسول ہوئی، استفسارکیا کہ بلال ہمیں ملنے کیوں نہیں آتے! بیدار ہوتے ہی آقائے دو جہاں کے شہر کا قصد کیا اور روضہ رسول کی زیارت کی ۔ مدینہ طیبہ میں حسنین کریمینؓ سے ملاقات ہوئی تو انہیں بے حد پیارکیا۔ حسنین کریمین ؓ نے اذان کی فرمائش کی تو یہ کیسے ممکن تھاکہ آقا کے نور نظرلخت جگرکی فرمائش کو حضرت بلال ؓ جیسے عاشق رسول پوری نہ کرتے۔ جب اذان کی دوسری شہادت پر پہنچے اور حسب عادت ممبر کی طرف نظر اٹھائی تو رسول اللہ عنقا تھے، روتے روتے بے ہوش ہوگئے۔ دوسری جانب جس جس کے کانوں میں بلال ؓ کی اذان کی صدا پہنچی ، مسلمان ٹرپ اٹھے اور مرد و زن اپنے گھروں سے نکل نکل کر آنسوئوں کی لڑیوں کے ساتھ مسجد کی طرف ایسے کھچے چلے آئے چلے مقناطیس کی طرف لوہے کے ذرات چلے آتے ہیں۔ یہ حضرت بلال ؓ کی زندگی کی آخری اذان تھی۔
20 محرم، ہجرت کے بیسویں سال ماہتاب عشق نبوی غروب ہوگیا۔
دمشق کے محلہ باب الصغیر میں آپ ؓ نے وفات پائی، اس وقت عمر عزیز، بمطابق سنت، خاص تریسٹھ برس تھی۔ دو مزارات آپؓ سے منسوب ہیں، ایک تو دمشق میں ہے اورایک اردن کے بدر نامی گائوں میں ہے۔ آقائے دوجہاں ؓ کے اعلان نبوت کے وقت حضرت بلالؓ تیس برس کے تھے، بقیہ تینتیس برس کچھ نہ کیا سوائے صحبت نبوی کے ۔ رسول کریم کے ساتھ چلتے رہتے تھے اورجب آپ اپنے گھر تشریف لے جاتے توحضرت بلال ؓ باہر بیٹھ جاتے۔ انتظارکے لمحات طویل ہوتے یا مختصر، آپ جب گھر سے باہر نکلتے تو حضرت بلال ؓآپ کی معیت میں پھر پیچھے پیچھے چل پڑتے۔
حضرت بلال ؓ قرآن مجیدکی اس آیت کی عملی تصویر ہیں”اللہ تعالی کے نزدیک زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ تقوی والا ہے“۔کہنے کو سب مذاہب انسانیت کے مذاہب ہیں لیکن ہندئوں نے انسانیت کو چار ذاتوں میں تقسیم کر رکھا ہے، یہودی کسی دوسرے کو اپنے مذاہب میں داخل نہیں ہونے دیتے، عیسائیت دنیا کا سب سے بڑا مذہب ہے اور اس مذہب کے ماننے والوں کی اکثریت افریقہ اور ایشیا سے تعلق رکھتی ہے لیکن گزشتہ دو ہزار سالوں میں عیسائیوں کے سب فرقوں کے پوپ صرف یورپ سے ہی وارد ہوئے ہیں، ان کے نزدیک صرف گورے ہی اس منصب کے اہل ہیں جب کہ انسانیت کا دین صرف اسلام ہی ہے جس کے پہلے موذن افریقہ جیسے پسماندہ خطہ اراضی کے بھی انتہائی غربت وافلاس اور قحط زدہ علاقے ایتھوپیا سے تعلق رکھتے تھے اور مروجہ معیارات شرف و برتری کو بالائے طاق رکھتے ہوئے رسول اللہ نے آپ ؓ کی عزت افزائی کی انتہا میں انسانوں کو درس انسانیت یاد دلایا ہے کہ کل انسان ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں۔


 

No comments:

Post a Comment