نئی آٹو پالیسی کی توجہ سستی گاڑیوں پر مرکوز.

گاڑیوں کی صنعت کے متعدد ذرائع کے مطابق نئی پالیسی کے تحت ڈیوٹیز اور ٹیکسز کی شکل میں گاڑی کی قیمت کی تقریباً 45 فیصد رقم حکومت کو حاصل ہوگی کیونکہ حکومت گاڑیوں کی اسمبلنگ کے لیے استعمال ہونے والے درآمد شدہ آٹو پارٹس پر ڈیوٹیز چارج کرتی ہے۔

اس وقت مقامی پارٹس (جو پاکستان میں بننے کے باوجود باہر سے منگوائے جاتے ہیں) پر کسٹم ڈیوٹی 45 فیصد جبکہ غیر مقامی پارٹس ( جو پاکستان میں نہیں بنتے) پر 30 فیصد ہے۔ اس طرح پارٹس کی درآمد پر 7 فیصد اضافی چارجز دینے پڑتے ہیں۔ ہزار سی سی والی گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ڈھائی فیصد، ہزار سی سی سے 2ہزار سی سی والی گاڑیوں پر 5 فیصد اور 2ہزار سے زائد سی سی والی گاڑیوں پر ساڑھے 7 فیصد ہے۔ اسکے علاوہ سیلز ٹیکس 17 فیصد ہے۔

آٹو انڈسٹری ڈویلپمنٹ کمیٹی (اے آئی ڈی سی) کی حالیہ میٹنگ کے بعد تیار کردہ ایک مسودے کے مطابق ’’ماضی میں چھوٹی گاڑیاں نظر انداز ہوئیں جس کے باعث خریداروں کے پاس مواقع کم تھے۔ لیکن نئی پالیسی میں چھوٹی گاڑیوں پر توجہ دینا ہوگی‘‘۔

ذرائع کے مطابق حکومت نئی پالیسی میں ٹیکسز اور ڈیوٹیز چارجز کم کرکے گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی لا سکتی ہے۔

ایک اورر ذرائع کے مطابق ’’اس وقت کوئی بھی شخص جب گاڑی خریدتا ہے تو اس گاڑی کی کل قیمت کا تقریباً 45 فیصد حکومت کو ادا کرتا ہے۔ یہ رقم بڑی گاڑیوں کے لیے بہت زیادہ ہے۔‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کے پاس گاڑیوں کی قیمت کم کرنے کے لیے نمایاں جگہ ہے


اے ڈی پی پالیسی 2016-21 رواں سال جون میں ختم ہوجائے گی۔ اس سلسلے میں انجینئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ (ای ڈی پی) اور وزارت صنعت و پیداوار نے اگلے پانچ سالوں کے لیے نئی آٹوموٹو انڈسٹری ڈویلپمنٹ اینڈ ایکسپورٹ پلان (اے آئی ڈی ای پی) پر کام کرنا شروع کر دیا ہے۔

کمیٹی اجلاس میں یہ بات زیر غور آئی کہ پاکستان میں گاڑیوں کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں۔ حکومت آئندہ (اے آئی ڈی ای پی) میں پورے آٹو سیکٹر کے لیے کسٹمز ڈیوٹی، ایڈیشنل کسٹم ڈیوٹی (اے سی ڈی) اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (ایف ای ڈی) پر کمی لاسکتی ہے۔

لیکن اس کے بدلے میں ’’حکومت یہ توقع رکھتی ہے کہ (او ای ایم ایس) اصل ساز و سامان تیار کرنے والی کار ساز کمپنیوں کے ذریعے قیمتوں میں کمی کی جائے گی جبکہ لوکلائزیشن میں اضافہ اور برآمدات میں اضافے کے لیے ٹھوس کوشش کی جائے گی‘‘۔

مسودے کے مطابق ’’مقامی گاڑی تیار کرنے والی کمپنیوں کو لوکلائزیشن میں اضافے کے لیے مقامی سطح پر آٹو پارٹس تیار کرنے والوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو مستحکم کرنا چاہیئے تاکہ قیمت میں کمی، استحکام اور روزگار پیدا ہو‘‘۔

ہنڈائی، کییا، چنگن اور یونائیٹڈ موٹرز جیسی چند نئی کمپنیوں کو گرین فیلڈ کا درجہ مل گیا ہے، جس کی مدد سے وہ سی کے ڈی کی درآمد پر کم ڈیوٹی ادا کرسکتے ہیں۔ گرین فیلڈ درجے کی حامل کمپنیوں کو مقامی پارٹس (جو پاکستان میں بننے کے باوجود باہر سے منگوائے جاتے ہیں) پر ڈیوٹی 25 فیصد جبکہ غیر مقامی پارٹس (جو پاکستان میں نہیں بنتے) پر 10 فیصد دینا ہوگی۔

ایک کمپنی کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ ایسا لگ رہا ہے کہ پرانی اور نئی گاڑیوں کی قیمت میں تقریباً 20 فیصد فرق آئے گا لیکن کام کرنے والی پرانی کمپنیاں اس فرق کو 15 فیصد تک بھی لاسکتی ہیں



 

No comments:

Post a Comment