عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 12.

  طاہر نے قاسم کو اٹھتے دیکھا تو سوال کیا۔ ”کیا بات ہے ؟ کیا تم کہیں جا نا چاہتے ہو؟“

جی ہاں ! مجھے ضروری جانا ہے۔ آپ نے سلسلہءمعلومات جہاں پر چھوڑا ہے یہیں سے آگے میں آپ سے پھر سنوں گا۔ آپ کی بتائی ہوئی تفصیل بہت دلچسپ اور جامع ہے اچھا !اب میں اجازت چاہتا ہوں۔“

کھانا کھا کر بچے اونگھتے ہوئے سونے کے لیے چلے گئے۔ قاسم نے اپنا گھوڑا نکالا اور گھر سے باہر نکل آیا۔ رات ہوچکی تھی۔ فضا میں خنکی بڑھتی جارہی تھی۔ اور آسمان پر جھلملاتے تارے ٹھٹھر تے ہوئے دکھائی دے رہے تھے ۔ قاسم کا گھوڑا دلکی چال سے ”ادرنہ “ کی گلیوں میں مٹر گشت کرنے لگا۔ اسے زیادہ جلدی نہیں تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ زیادہ سے زیادہ وقت گزر جائے۔ سردیوں کی آمد آمد تھی اور خزاں اپنے پورے عروج پر تھی ۔ادرنہ کے بازار بند ہوچکے تھے اور گلیوں میں اکا دکا لوگ آ جا رہے تھے۔ قاسم کا گھوڑا قیصر سلطانی کے عقبی محلے میں داخل ہوا۔ یہاں دو دو اور تین تین منزلہ مکانات تھے۔ یہاں شہر کے اشرافیہ ، امراء،وزراء، سالار اور غیر ملکی سفیروں کی قیام گاہیں تھیں

قاسم ، شہزادہ محمد کے بتائے ہوئے مکان کی تلاش میں تھا۔ وہ ایک گلی مڑا تو اسے اپنی مطلوبہ نشانی نظر آگئی۔ اور پھر چند لمحوں بعد وہ مارسی کے مکان کے سامنے تھا۔ تجسس اور سنسنی کی وجہ سے اس کے اعصاب تن گئے اور دل کی دھڑکن کسی قدر تیز ہوگئی۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر دروازے کی زنجیر کھٹکھٹائی اور پھر کسی کے آنے کا انتظار کرنے لگا۔

چند لمحے بعد اندر سے دروازہ کھولنے کی آواز آئی تو قاسم کی سنسنی اور بڑھ گئی۔ دروازہ کھلا اور ایک ادھیڑ عمر خادمہ نے سر باہر نکا ل کر گلی میں جھانکا ۔ قاسم فوراً دو قدم آگے بڑھا اور خادمہ کے سامنے آتے ہوئے کہا

”جی ............مجھے محترمہ مارسی سے ملنا ہے۔“

قاسم نے جھجکتے ہوئے مارسی کا نام لیا تو خادمہ کے چہرے پر حیرت کی لہر نظر آئی۔ اب وہ مکمل طور پر دروازے سے باہر نکل آئی تھی۔

”مارسی؟؟................جی، کیا کہا آپ نے ، میں سمجھی نہیں ؟“

”مجھے مارسی صاحبہ سے ملنا ہے۔ “ قاسم نے اپنی بات دہرائی ۔ اب ادھیڑ عمر خادمہ قاسم کو گھور رہی تھی۔

”آپ کی تعریف ؟.............تاکہ میں مارسی کو بتاسکوں ۔“ خادمہ نے استفہامیہ لہجے میں کہا

بس آپ ان سے کہہ دیجیے............شہزادہ محمد کا دوست آیا ہے۔ “ قاسم نے گول مول تعارف کروایا۔

ادھیڑ عمر خادمہ چند ثانیے کچھ سوچتی رہی، پھر گھر میں داخل ہوکر دروازہ بند کر دیا۔ قاسم حیرت کے عالم میں کھڑا رہا۔ ابھی وہ کچھ سمجھ نہ پایا تھا کہ دوبارہ دروازہ کھلنے کی آواز آئی ۔ اس مرتبہ ادھیڑ عمر خادمہ کے ساتھ ایک ادھیڑ عمر معزز خاتون تھی۔ یہ مارتھا تھی۔ مارتھا نے قاسم کو سلام کا جواب دینے کے بعد اندر آنے کے لیے کہا اور خود اس کے آگے آگے چل دی۔

مکان میں داخل ہو کر قاسم نے دیکھا کہ مارتھا کے ساتھ ساتھ ایک حبشی غلام بھی بڑی مستعدی سے چلتا ہوا آرہا تھا جس کی دو دھاری تلوار نیام سے باہر تھی

قاسم بے پرواہی سے چلتا ہوا مارتھا کے مہمان خانے میں داخل ہوا۔ مہمان خانہ سادہ لیکن عمدہ سامان سے آراستہ تھا۔ اس کمرے میں مسلمانوں کی روایات کے خلاف لکڑی کی کرسیاں رکھی تھی۔ سامنے کی دیوار پر حضرت عیسیٰؑ کا مجسمہ صلیب کے ساتھ لٹکا ہواتھا

مارتھا قاسم کے ساتھ کرسی پر بیٹھنے کی بجائے کھڑی رہی اور کھڑے کھڑے قاسم سے سوال کیا ۔”محترم نوجوان ! کیا تم بتاسکتے ہو کہ تم میری بیٹی سے کیوں ملنا چاہتے ہو؟“اس کے لہجے میں ہلکی سی چبھن تھی۔

قاسم نے شرمیلے انداز میں سرجھکا کر جواب دیا۔ ” میں محترمہ مارسی کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں ............... کیونکہ انہوں نے میری جان بچا کر مجھے ممنون احسان کیا ہے۔“

قاسم نے جواب دیا تو مارتھا کی پیشانی پر شکنیں پڑ گئیں۔

”جان؟..مارسی نے تمہاری جان بچائی.. ....کب ؟ کیسے ؟ کہاں؟“ مارتھا کے لہجے میں حیرت تھی

قاسم نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔”دراصل میر اسکندر بیگ کے ساتھ شمشیر زنی کا مقابلہ ہوا تھا اور عین اس وقت جب بے خبری میں سکندر مجھ پر وار کرنے لگا تھا ، مارسی نے با آواز بلند مجھے پکارا اور.....“

جملہ ابھی قاسم کی زبان پر تھا کہ اچانک مارسی کمرے میں داخل ہوئی۔ اس کی آنکھوں میں حیرت کے سفینے تیر رہے تھے ۔ اس کا ملکوتی چہرہ اعصابی دباﺅ کی وجہ سے تن کر چٹختے ہوئے غنچے جیسا لگ رہا تھا ۔ مارسی غالباً کمرے میں داخل ہونے سے پہلے قاسم کی باتیں سنتی رہی تھی۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھیں لیے اندر داخل ہوئی اور قاسم کے سامنے آکر کھڑی ہو گئی۔ قاسم بھی مارسی کے احترام میں اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ مارسی نے پلکیں پٹپٹاتے ہوئے قاسم سے کہا۔

”آآآ ..........غالباً! وہی نوجوان ہیں جنہوں نے تہوار والے روز سکندر بیگ کو شکست دی تھی.. .. میں نے آپ کو وہاں دیکھا تھا۔“

مارسی نے اپنی ماں اور غلام کی موجودگی میں قاسم کو نہ پہچاننے کی اداکاری کی۔ قاسم بھی مارسی کا مدعا سمجھ چکا تھا ، چنانچہ کسی قدر مسکراتے ہوئے انتہائی شائستہ لہجے میں کہنے لگا۔

”جی ہاں! میں اسی روز کے احسان کا شکریہ ادا کرنے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ آپ نے اس روز مجھے بروقت خبردار کر کے اور میری جان بچا کر مجھے دوسری زندگی بخشی ہے جس کے لیے میں آپ کا ممنون احسان ہوں اور آپ کے لیے کوئی بھی خدمت بجالانا سعادت سمجھتا ہوں۔“

قاسم کی بات سن کر مارسی کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ ”اجی واہ!. ...کیا بات ہے۔ آپ اتنی طویل مدت بعد میرے احسان کا شکریہ ادا کرنے آئے ہیں.. ..بہت خوب۔“

مارسی نے کہا تو قاسم خفیف سا ہوگیا۔ ”جی دراصل مجھے آپ کے نام اور رہائش کا پتہ آج ہی مل سکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں اتنی دیر کے بعد حاضر ہوا ہوں۔“

اس اثناءمیں مارتھا وہیں کھڑی قاسم کے حدود اربعہ کا جائزہ لیتی رہی۔ لیکن اب اس کا ہر طرح سے وہم دور ہونے لگا۔ گویا قاسم اور مارسی کی کامیاب اداکاری نے رنگ دکھانا شروع کر دیا تھا۔ مارتھا نے جب دیکھا کہ قاسم سچ مچ سیدھا سادھا سپاہی ہے تو مسکرا کر بولی۔

”ٹھیک ہے، کوئی بات نہیں ۔ ہم اتنی دیر بعد بھی آپ کا شکریہ قبول کرتے ہیں۔آپ تشریف رکھیے ، میں آپ کی تواضع کے لیے پھل اور مشروب بھیجتی ہوں۔“

مارتھا نے اطمینان بھرے لہجے میں قاسم سے کہا۔ اور پھر حبشی غلام کو ساتھ لے کر کمرے سے نکل گئی۔ مارتھا چلی تو گئی لیکن قاسم کو تسلی نہ ہوئی۔ چنانچہ اس نے اپنی اداکاری برقرار رکھی اور مارسی سے مخاطب ہوا۔

”دیکھیے! آپ مجھے اپنا خادم سمجھیے ۔ میں اگر زندگی میں کسی موقع پر آپ کے کام آسکوں تو مجھے فخر ہوگا۔“

مارسی نے زیرلب مسکراتے ہوئے قاسم کی بات سنی اور پھر انتہائی مدھم آواز میں قاسم سے کہا۔

”آپ نے وعدہ خلافی کی ہے۔ کیونکہ آپ نے میرے منع کرنے کے باوجود میرا کھوج لگایا ہے۔لیکن میں حیران ہوں کہ آپ کو میرا پتہ کس نے بتایا؟“

”میں آپ کی والدہ کو بتا چکا ہوں کہ میں شہزادہ محمد کا دوست ہوں ۔ اور شہزادے سے ہی میں نے آپ کا پتہ حاصل کیا۔ دراصل ایک مرتبہ آپ کے گھر آنا ضروری تھا۔ میں آپ کی والدہ سے ملنا اور انہیں دیکھنا چاہتا تھا۔“

قاسم نے مارسی کے نزدیک چہرہ لاتے ہوئے اس کے کان میں سرگوشی کی۔ قاسم کے الفاظ مارسی کے رخساروں پر گدگدی کرتے ہوئے اس کے کان میں اتر گئے۔ قاسم کے لیے مارسی کے اس قدر قریب آنا انوکھی بات تھی۔ مارسی نے بھی اپنے بدن میں سردی کی لہر دوڑتی ہوئی محسوس کی۔ اس کی لانبی پلکیں جھک گئیں اور چہرہ سرخ ہونے لگا۔ قاسم نے ایک مرتبہ پھر کہا۔

”اور آپ سے ملاقات بھی ضروری ہے۔ آپ کسی طرح کل دن میں مجھے تھوڑا سا وقت عنایت کریں..........کچھ ضروری باتیں ہیں جن کا تذکرہ آپ کے ساتھ ناگزیر ہے۔“

”وقت ؟.............دن میں ؟.............. لیکن کہاں؟“ مارسی نے موم کی طرح پگھلتے ہوئے پوچھا۔

وہ دونوں کسی حد تک سرگوشیوں میں بات کر رہے تھے ۔ قاسم نے جواب دیا۔ ”میرے خیال میں آپ لالہ شاہین کی یادگار پر آجائیے۔ وہیں پرانا قبرستان بھی ہے۔ میں لالہ شاہین کی یادگار پر شہتوت کے ایک بڑے درخت کے نیچے آپ کا انتظار کروں گا۔“

اتنے میں باہر آہٹ سنائی دی اور قاسم نے بات بدل لی۔ اب وہ بلند آواز میں بول رہاتھا۔ ”آپ کی والدہ خاصی سلیقہ مند خاتون دکھائی دیتے ہیں۔ میں آپ کی والدہ سے بہت متاثر ہواہوں۔“

قاسم کی بات مکمل ہوتے ہی خادمہ مہمان خانے میں داخل ہوئی۔ اس کے ہاتھ میں سامان مدارت کی طشتری تھی۔ خادمہ کے پیچھے کچھ ہی دیر بعد مارتھا بھی کمرے میں آگئی۔ اب قاسم کا کام یہاں مکمل ہوچکا تھااور اسے مزید رکنے کی ضرورت نہ تھی کیونکہ اس نے مارسی کی ماں کو بغور دیکھ لیا تھا ور وہ صرف اسی کو دیکھنے کے لیے مارسی کے گھر آیا تھا۔ وہ شاہی سراغ رساں تھا اور سکندر بیگ کو پرورش دینے والی البانوی کنیز مارتھا کو نظر انداز نہیں کرسکتاتھا۔ اب اس نے مارتھا کا گھر اور اس کے اطوار کا بغور جائزہ لے لیا تھا۔ اور اب وہ مارتھا کے بارے میں کسی حد تک رائے قائم کرسکتا تھا


 

No comments:

Post a Comment