ہونیاڈے کی شاندار کامیابی اور ہمارے دستوں کی پے در پے شکست نے پورے یورپ میں خوش فہمی کی لہر ڈوڑا دی۔ اس وقت یورپ سے ترکوں کو نکالنے کے لیے ایک زبردست اتحاد قائم ہوچکاہے۔
’’شاہ لارڈ سلاس‘‘ جو اس وقت ہنگری اور پولینڈ دونوں مملکتوں کا فرمانروا ہے ، اس تحریک کا روح رواں ہے۔ اس اتحاد میں ہنگری ، پولینڈ،لاچیا اور بوسنیا کی حکومتیں اپنی پوری قوت کے ساتھ شریک ہیں۔ سربیا بھی جو لارڈ سٹیفن کے عہد میں عثمانیوں کا نہایت وفادار حلیف تھا اب اس کے جانشین ’’جارج برنیک وچ‘‘ کی سرکردگی میں اتحادیوں کی صف میں شامل ہوگیا ہے ۔ فرانس اور جرمنی نے بھی مبارزین کی ایک کثیر فوج بھیجی ہے۔ ان کے علاوہ عیسائی لشکر میں یورپ کے ہر ملک سے سپاہیوں کی ایک بڑی تعداد خود آکر شریک ہوئی ہے ۔ اور اہم بات یہ ہے کہ عیسائی اس لشکر کو مقدس صلیبی لشکر قراردے رہے ہیں۔ روما کے پوپ نے سب سے زیادہ جوش دکھا دیا ہے۔ اس نے اپنے نمائندہ کارڈ نیل ’’جولین سیزراینی‘‘ کو ایک مسلح فوج کے ساتھ روانہ کیا ہے۔ اور یورپ کے ہر حصہ سے اس جنگ کے لیے ایک کثیر رقم فراہم کر کے بھیجی ہے ۔ حقیقتاً یہ ایک صلیبی جنگ ہے اور یاد رکھیئے ! یہ جنگ عیسائیت کے مذہبی جوش نے اسلام کے خلاف چھیڑی ہے ۔ جمہوریہ وینس اور جمہوریہ جنیوا کے بحری طاقت نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس لیے ہونیاڈے کا خیال ہے کہ ہمارے سلطان کی فوجیں ایشیائے کوچک سے جہاں وہ قونیا کے مقام پر امیر کرمانیاسے جنگ میں مصروف ہوں گی، یوریپ میں منتقل نہ کی جاسکیں گی..... اتحادی افواج بظاہر شاہ لارڈ سلاس کے زیر کمان ہیں۔ لیکن درحقیقت ان کا سردار ہنگری کے سابقہ بادشاہ ’’سجمنڈ‘‘ کا ناجائز بیٹا’’ہونیاڈے‘‘ ہے۔ جو اس وقت مسیحی دنیا کا سب سے بڑا ہیرو خیال کیا جاتا ہے
محمد چلپی کی زبان میں ایسی تاثیر تھی کہ کمرے میں موجود تمام سالار گم صم ہوگئے۔ محمد چلپی نے ہونیاڈے کے لشکر کا ایسا نقشہ کھینچا تھا کہ قاسم کو اس کی عسکری مہارت اور قابلیت کا قائل ہونا پڑا۔ اس دوران اسے معلوم ہوچکا تھا کہ جنگ کے موضوع پر گفتگو کرنے والا یہ جہاندیدہ اور باوقار شخص سلطان کا بہنوئی ہے۔
قاسم نے مؤدب لہجے میں محمد چلپی سے سوال کیا۔
’’سالار محترم ! اگر محاذ کی صورتحال اس قدر سنگین ہے تو سلطان معظم کو اسلامی افواج کی قیادت خود کرنا چاہیے تھی
محمد چلپی نے چونک کر قاسم کی جانب دیکھا اور مشفقانہ انداز میں مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’آپ غالباً قاسم بن ہشام ہیں۔ آپ کی ذہانت اور شجاعت کا شہرہ قصر سلطانی میں پھیلا ہوا ہے۔ خیر بہر حال!آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ سلطان معظم خود لڑائی کی قیادت کریں گے۔ ہمارا اسی ہزار کا لشکر تو محض ہراول دستے کی صورت میں آگے جارہا ہے۔‘‘
لیکن قاسم نے ایک خیال کے تحت پھر کہا۔’’سالار محترم ! اگر سلطان معظم کی واپسی سے پہلے ہمارے لشکر کی ہونیاڈے کی افواج کے ساتھ مڈبھیڑ ہوگئی تو کیا ہماری افواج سلطانی لشکر کا انتظار کریں گی
اتنے میں آغا حسن نے سوال کیا۔ ’’سالارمحترم ! سنا ہے ادرنہ میں قیصر کے خطرناک جاسوس موجود ہیں جو سلطان معظم کے خلاف سازش کر رہے ہیں۔‘‘
آغاحسن نے کہا تو سب سالار ہمہ تن گوش ہوگئے ۔ محمد چلپی نے جواب دیا ۔ ’’ا س قسم کی اطلاعات میرے پاس بھی ہیں۔ لیکن ابھی کسی شخص پر گرفت نہیں کی جاسکتی ۔ جہاں تک قیصر کا تعلق ہے تو قیصر قسطنطنیہ کو شروع دن سے مینڈھے لڑانے ، ریچھ کتے اور تیتر بٹیر لڑانے کا بڑا شوق ہے۔ ظاہر ہے اس قسم کا شخص میدان جنگ میں سامنے آنے کی بجائے سازشوں کا سہارا ہی لے سکتا ہے.... ہم افواہوں پر قابو پارہے ہیں۔ اور سلطان معظم نے اس کی چھان بین کے لیے ماہر افراد مقرر کر دیئے ہیں
غالباً محمد چلپی ، قاسم کا فرض منصبی جانتا تھا۔ لیکن اس نے سر محفل ذکر کرنا مناسب نہ سمجھا۔
آغا حسن کے کمرے میں دیر تک مختلف موضوعات پر باتیں ہوتی رہیں۔ یہاں تک کہ نماز ظہر کا وقت ہوگیا۔ سلطان کا بہنوئی محمد چلپی اپنے سالاروں سے اجازت لے کر کسی جانب چل دیا۔ اور آغا حسن کے کمرے میں موجود تمام سالار نماز کی تیاری کے لیے نکل گئے۔ اب کمرے میں صرف آغا حسن اور قاسم موجود تھے۔ قاسم نے سالاروں کے نکل جانے کے بعد کچھ دیر توقف کیا اور پھر اٹھ کر کمرے کے دروازے کواندر سے بند کر کے کنڈی لگادی۔ آغا حسن نے حیرت سے قاسم کو دروازہ بند کرتے دیکھا اور متجسسانہ انداز میں پوچھا۔
’’کیا بات ہے قاسم !کافی سنجیدہ دکھائی دے رہے ہو؟‘‘
قاسم نے آغا حسن کو اپنے قریب بیٹھنے کا اشارہ کیا اور کسی قدر مدہم آواز میں اس کے ساتھ مخاطب ہوا۔ ’’آغا حسن ...........تمہیں اندازہ ہوا، کماندار اسلم نے میری تنخواہ والی بات پر کس قسم کا تبصرہ کیا تھا؟‘‘
آغاحسن نے جواب دیا۔ ’’کیسا اندازہ ؟ مجھے تو وہ بات بہت بری لگی تھی۔ ینی چری کے تمام سپاہی سلطان کے بیٹے ہیں۔ ہمیں تنخواہوں اور مال و دولت سے کچھ غرض نہیں۔ اسلم خان نے گھٹیا بات کی تھی جو میرے خیال میں سب کو بری لگی ہوگی۔ لیکن تم کیا کہنا چاہتے ہو؟‘‘
آغا حسن صرف سپاہی تھا، سراغ رساں نہ تھا۔ ا س نے اسلم خان کی بات کو صرف ظاہری طور پر لیا تھا۔ جبکہ قاسم ، اسلم خان سے متعلق شک میں مبتلا تھا۔ اسے ینی چری میں غلط افواہیں پھیلانے والوں کی تلاش تھی۔ سلطان مراد خان ثانی واقعی ایک تجربہ کار سلطان تھا۔ اس نے شاہی سراغ رساں کے لیے قاسم بن ہشام کا انتخاب کر کے دانشمندی کا ثبوت دیا تھا ۔ قاسم پہلے دن سے ہی ہر کسی شخص کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگا۔ اس نے آغا حسن کی بات سنی اور منہ بسورلیا۔ اور تادیبی انداز میں کہنے لگا۔
’’آغا !عقل کے ناخن لو۔ یہ بھی تو دیکھو کہ اسلم خان نے لشکروں کیساتھ روانہ ہونے سے معذرت کرلی ہے۔ جبکہ سلطان کے خفیہ محکمے کا یہ کہنا ہے کہ سلطنت کے غدار سلطان کی عدم موجودگی میں ادرنہ کے اندر دنگا فساد کر نا چاہتے ہیں۔ یہ بھی خبر یں ہیں کہ ینی چری کے بعض سالار غداروں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔‘‘
قاسم نے آغا حسن کو سوچنے پر مجبور کردیا۔ آغا حسن نے پرتجسس نگاہوں سے قاسم کی جانب دیکھا اور کہا۔
’’یہ تو مجھے معلوم ہے کہ ہماری فوج میں کالی بھیڑیں موجود ہیں ۔ لیکن اسلم خان کے بارے میں اس سے پہلے میں نے کبھی نہ سوچا تھا۔ تمہاری بات دل کو لگتی ہے۔ کیونکہ جہاں تک میرے علم میں ہے، اسلم خان کے گھر میں ابھی بچہ ہونے میں دیر ہے۔ وہ میرا دوست ہے۔ چند دن پہلے تک اس نے مجھے بتایا تھا کہ اللہ رب العزت اسے ماہ شوال میں پہلے بچے کا باپ بنانے والا ہے۔ آج جب اس نے اپنا عذر بتایا تو مجھے بھی قدرے حیرت ہوئی۔ اور پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ایک سپاہی کو میدان جنگ کی طرف روانہ ہونے سے کبھی معذور نہ ہونا چاہیے ، چاہے وجہ کچھ بھی ہو۔‘‘
قاسم نے اطمینان کا سانس لیا۔ گویا اسلم خان پر اس کا شک درست تھا۔ اس نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا لیکن یکلخت کسی وجہ سے خاموش ہوگیا۔ اس کی نگاہیں تیزی سے کمرے کے بند دروازے کی طرف اٹھیں۔ اس کی چھٹی حس بیدار ہوچکی تھی۔ قاسم کی نگاہوں کی چمک دیکھ کر آغاحسن بھی متجسس ہوگیا۔ قاسم نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر آغا حسن کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور خود اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔ اب وہ دبے پاؤں دروازے کی طرف بڑھ رہاتھا۔ وہ دروازے کے قریب پہنچا اور اس نے بے آواز طریقے سے دروازے کی کنڈی ہٹادی۔ اگلے لمحے اس نے یکلخت دروازے کے دونوں پٹ ایک جھٹکے سے کھول دیئے۔ دروازہ کھلنے کے ساتھ ہی دھڑام کی آواز سنائی دی اور ینی چری کا ایک نوجوان سپاہی اندر کمرے میں آگرا۔ وہ غالباً دروازے کے ساتھ کان ٹکا کر آغاحسن اور قاسم کی باتیں سننے کی کوشش کر رہاتھا۔
قاسم اور آغاحسن نے بجلی کی تیزی سے اپنی شمشیریں بے نیام کرلیں۔ قاسم نے تلوار ہوا میں لہرائی اور آگے بڑھ کر دروازے کی کنڈی پھر لگادی۔ یہ ایک سراغ رساں کی حیثیت سے اس کا پہلا معرکہ تھا۔ ینی چری کا نوجوان سپاہی قاسم اور آغاحسن کی تلواریں دیکھ کر بوکھلا گیاتھا ۔ اس کے چہرے پر موت کی زردی چھانے لگی اور وہ گڑگڑانے لگا۔ قاسم نے تلوار کی نوک اس کی گردن پر رکھ دی اور اسے پیچھے کی طرف دھکیل کر دیوار کے ساتھ لگا دیا۔ قاسم نے شیش ناگ کی طرح پھنکارتے ہوئے اس نوجوان سے سوال کیا۔
’’تم ہماری باتیں کیوں سن رہے تھے؟...............کون ہو تم؟ اور کس کے کہنے پر جاسوسی کر رہے ہو؟‘‘
نوجوان کا حلق خشک ہوچکا تھا۔ اس نے ایک خشک گھونٹ لے کر زبان تر کرنے کی کوشش کی۔ اتنے میں آغاحسن جو نوجوان کو غورسے دیکھ رہاتھا۔بو ل اٹھا ۔ ’’یہ ینی چری کے بائیسویں دستے کا ایک نیا سپاہی ہے۔ اور اسلم خان کی کمان میں لڑتا ہے۔‘‘
آغاحسن کی بات پر قاسم نے معنی خیز نظروں سے آغاحسن کی جانب دیکھا اور پھر نوجوان سے سوال کیا ۔ ’’کیا نام ہے تمہارا؟‘‘
’’تت .....تر.......ترک با.........ترکباز....‘‘ نوجوان نے خوف سے ہکلاتے ہوئے نام بتایا۔
’’تمہیں ہماری باتیں سننے کے لیے کس نے بھیجا ہے؟‘‘ قاسم نے پوچھا۔
لیکن وہ خاموش رہا۔ قاسم نے تلوار کا دباؤ بڑھا دیا۔ ترک باز کی آنکھیں ابلنے لگیں۔ اس کی نرغٹ سے ذبح ہوتے بکرے جیسی آوازیں بلند ہو رہی تھی۔
قاسم نے اپنا سوال دہرایا۔ ’’بتاؤ، تمہیں کس نے بھیجا ہے؟ اگر نہیں بتاؤ گے تو یاد رکھو! میں تمہارے ہاتھ پیر کاٹ کر تمہیں شہر کے چوراہے پر پھینک دوں گا۔‘‘
مارے دہشت کے ترک باز کا رنگ خزاں رسیدہ پتے جیسا ہوچکا تھا۔ و ہ پھر بھی کچھ نہ بولا۔ وہ شاید کسی کا نام نہ لینا چاہتا تھا ۔ قاسم نے جب دیکھا کہ ترک باز سیدھی طرح نہیں بتائے گا تو اس نے آغا حسن کو ترک باز کے ہاتھ پیر باندھنے کے لیے کہا۔
آغا حسن نے اپنی تلوار رکھی اور کمرے میں رکھے صندوق سے رسی نکال لایا۔ کچھ دیر بعد ترک باز ہاتھوں پیروں سے بندھا کمرے کے فرش پر پڑا کانپ رہاتھا۔ اب آغاحسن اور قاسم اس کے قریب بیٹھے تھے اور قاسم نے کہا۔
’’دیکھو ، تم سیدھی طرح سے بتادو کہ تمہیں کس نے بھیجا ہے، ورنہ تم جانتے ہو کہ ہم تمہاری ایک ایک بوٹی الگ کردیں گے۔‘‘
اتنا کہنے کیساتھ ہی قاسم نے اپنی تلوار سے اس کے کندھے پر چرکہ لگایا۔ اس کی قمیض پھٹ گئی اور اس کے کندھے سے فر فر خون بہنے لگا۔ اب وہ پوری طرح خوفزدہ ہو چکا تھا ۔ ا س نے موت کے خوف سے گڑ گڑاتے ہوئے کہا۔
مم ..........مجھے .......اس ........اس .....ودی.............اس ودی نے بھے.....بھے بھیجا ہے، اور میں .
اچانک کمرے کے روشندان سے ایک تیر آیا اور ترکباز کے حلق میں اتر گیا...!
کچھ لمحے تو آغا حسن اور قاسم کو سمجھ نہ آئی کہ کیا ہوا۔ ترک باز خون میں لت پت تڑپ رہا تھا۔ اس کے ہاتھ پیر بندھے ہوئے تھے اور آنکھیں اپنے حلقوں سے ابھر رہی تھیں..... وہ مر رہاتھا ۔ تیر اس کی گردن پر حلق کے مقام پر پیوست ہواتھا۔
جونہی معاملہ قاسم کی سمجھ میں آیا، اس نے بجلی کی رفتار سے جست لگائی اور کمرے کا دروازہ کھول کر باہر نکلتا چلا گیا۔ اب وہ بیرکوں کے آگے بنے برآمدے میں دوڑ رہاتھا ۔ اس کا رخ عمارت کے آخری کونے کی جانب تھا جہاں چھت پر جانے کے لیے مٹی سے زینے بنائے گئے تھے ۔ قاسم برق رفتاری سے زینے پھلانگتا چلا گیا۔ اس کے عقب میں آغا حسن کے دوڑنے کی آواز بھی آرہی تھی۔ لیکن اس نے پیچھے مڑکر نہ دیکھا
No comments:
Post a Comment