اللہ والوں کے قصّے......قسط نمبر 3.

ربیع کا قول ہے کہ میں حضرت اویسؓ کی تلاش میں روانہ ہوا۔ چنانچہ جب میں اُن کے پاس پہنچا۔ وہ صبح کی نما زمیں مشغول تھا۔ نماز سے فارغ ہو کر تسبیح شروع کی۔ یہاں تک کہ ظہر کی نماز کا وقت آگیا۔

اس طرح دو نمازوں کے درمیان تسبیح پڑھتے اور وقت پر نماز ادا فرماتے رہے۔ یہاں تک کہ تین دن کا مل گزر گئے نہ کچھ کھایا نہ پیا اور نہ آرام کیا۔ چوتھی رات میں نے دیکھا کہ یوں ہی ذرا سی آنکھ لگی مگر فوراً ہی بیدار ہو کر منا جات کرنے لگے کہ ’’ خدا وندا! میں ایسی آنکھ سے جو زیادہ سوئے اور ایسے پیٹ سے جو زیادہ کھائے ، تیری پناہ چاہتا ہوں

میں نے یہ حال دیکھ کر اپنے دل میں کہا۔’’ میرے لیے اتنی ہی بات کافی ہے اور میں واپس چلاآیا

ایک مرتبہ حضرت جعفر صادقؓ نے امام ابو حنیفہؒ سے سوال کیا کہ دانش مند کی کیا تعریف ہے ۔‘‘ امام ابو حنیفہ نے جواب دیا ۔ ’’ جو بھلائی اور برائی میں امتیاز کر سکے۔‘‘

آپؓ نے فرمایا۔’’ یہ امتیاز تو جانور بھی کر لیتے ہیں۔ کیونکہ جو ان کی خدمت کرتا ہے وہ ان کو ایذا نہیں پہنچاتے اور جو تکلیف دیتا ہے اس کو کاٹ کھاتے ہیں

اس پر حضرت ابو حنیفہؒ نے پوچھا۔ ’’ پھر آپؓ کے نزدیک دانش مندی کی کیا علامت ہے؟‘‘

جواب دیا۔’’ کہ جو بھلائیوں میں سے بہتر بھلائی کو اختیار کرے اور دو برائیوں میں سے مصلحتاً کم بُرائی پر عمل کرے

ایک دفعہ حجاج بن یوسف نے حضرت خالد ابنِ صفوانؒ سے پوچھا۔

’’ تمہاری نظر میں بصرہ کا سردار کون ہے؟‘‘

خالد ابنِ صفوانؒ نے جواب دیا۔ ’’ حضرت حسن بصریؒ ۔‘‘

اس پر حجاج سے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا

یہ کیسے ممکن ہے؟ حسنؒ تو غلاموں کی اولاد ہیں۔‘‘

ابنِ صفوانؒ بولے۔ ’’ حضرت حسنؒ ہی بصرہ کے سردار ہیں۔ آپ دیکھتے نہیں بصرہ کے سب چھوٹے بڑے دین میں ان کے محتاج ہیں اور حسنؒ کا حال یہ ہے کہ وہ دنیا کے کسی معاملے میں بھی ان کے محتاج نہیں ہیں۔ بصرہ میں جس کو دیکھو، ان کی باتیں اور نصیحتیں سُننے کا خواہش مند ہے۔ ان کی مجلس علم میں پہنچنے کے لیے بے چین ہے اور ان سے کچھ سیکھنے کا مشتاق ہے۔‘‘

حجاج بن یوسف یہ سُن کر بولا۔ ’’ خدا کی قسم اسی کو سرداری کہتے ہیں

ایک مرتبہ حضرت داؤد طائی نے حضرت صادق ؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا۔ کہ آپ چونکہ اہل بیت میں سے ہیں اس لیے مجھ کو کوئی نصیحت فرمائیں۔‘‘

لیکن آپؓ خاموش رہے اور جب دوبارہ داؤد طائیؓ نے کہا کہ اہلِ بیت ہونے کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو فضیلت بخشی ہے اس لیے نصیحت کرنا ان پر بمنزلہ فرض کیا ہے۔

یہ سُن کر آپؓ نے فرمایا کہ مجھے تو یہی خوف لگا ہوا ہے کہ روزِ محشر کہیں میرے جدا اعلیٰ ہاتھ پکڑ کر یہ سوال نہ کر بیٹھیں کہ تونے خود میرے اتباع کیوں نہیں کی؟ اس لیے کہ نجات کا تعلق نسب سے نہیں بلکہ اعمال صالح پر موقوف ہے

یہ سُن کر داؤد طائی کو بہت غیرت ہوئی اور اللہ تعالیٰ سے عرض کیا’’ جب اہلِ بیت پر خوف کے غلبہ کا یہ عالم ہے تو میں کس گنتی میں آتا ہوں اور کسی چیز پر فخر کر سکتا ہوں




 

No comments:

Post a Comment