عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا۔۔۔ قسط نمبر 6.

آج قاسم کو اپنے بھائی کے گھر آئے پانچواں دن تھا ۔ تین دن پہلے شمشیر زنی کے مقابلے میں اس نے جو کارنامہ سرانجام دیا تھا ، اس پر اس کا بھائی طاہر اور اس کی بھابھی ’’سکینہ‘‘ بہت خوش تھے۔ اس کے دونو ں کم سن بھتیجے ’’عمر‘‘اور ’’علی‘‘ خاص طور پر تیسرے دن سے اس کے ساتھ چپکے پھر رہے تھے۔ وہ آج مکتب میں سارا دن اپنے ہم عمر دوستوں کو اپنے چاچوں کے کارنامے بتاتے رہے۔ 

کل علی الصبح قاسم کو اپنی ڈیوٹی پر حاضر ہوناتھا ۔ اس کی بھابھی نے آج اس کے لیے زیتون کے تیل میں آلوؤں کا حلوہ بنایا تھا۔ ادھر شام کو طاہر گھر لوٹا تو اس کے ہاتھ میں سمندری مچھلی کے پارچے تھے۔ گویا آج قاسم کی خاص دعوت تھی۔ رات کو دسترخوان پر بھابھی نے قاسم کو چھیڑتے ہوئے کہا

بس اب یہ وقت تمہاری شادی کے لیے بھی مناسب ہے۔ میں کوئی اچھی سی ترک لڑکی دیکھ کر تمہارے رشے کی بات چلاتی ہوں۔‘‘

اتنا سنناتھا کہ بچے خوشی سے اچھلنے لگے۔ ’’چاچو کی شادی ہوگی................چاچو کی شادی ہوگی۔‘‘

طاہر زیرلب مسکرایا تھا۔ قاسم نے احتجاج کرتے ہوئے کہا ۔’’ نہیں بھابھی نہیں !! ابھی سے یہ ظلم مت کیجیے ۔ ابھی تو میں نے دنیا دیکھنی ہے۔ سلطان ’’قیصر ‘‘ کو سبق سکھانے کے لیے قسطنطنیہ کا محاصرہ کرنا چاہتا ہے۔ ادھر مغربی یورپ کا خطر ناک سپہ سالار ’’ہونیاڈے‘‘(ہنی ڈیز) صلیبی افواج کی قیادت سنبھالنے کے لیے لوٹ آیا ہے۔ سلطنت عثمانیہ چاروں طرف سے خطرات میں گھری ہوئی ہے۔ ایسے عالم میں ینی چری کا ایک پنج ہزاری سالار شادی جیسے جھنجھٹ نہیں پال سکتا۔‘

قاسم نے سنجیدگی سے شادی نہ کرنے کی معقول وجہ بتائی۔ سکینہ، قاسم کے جواب سے حیران رہ گئی۔ ’’ارے ! .........ارے.............ارے!! تم تو سنجیدہ ہونے لگے ۔ ٹھیک ہے بھئی ، ٹھیک ہے۔ تم پہلے قسطنطنیہ فتح کرلو، پھر شادی کر لینا ۔ بلکہ وہیں سے لے آنا کوئی یورپی میم۔‘‘ سکینہ نے ہنستے ہوئے بات بنائی۔

طاہر اپنے بھائی اور بیوی کی گفتگو سے لطف اندوز ہو رہاتھا۔ مسکراتے ہوئے کہنے لگا۔ 

’’سکینہ بیگم!سلطان ، قاسم سے بہت متاثر ہوا ہے۔ کوئی بعید نہیں کہ وہ قاسم کے لیے کسی اچھے سے رشتے کا بھی بندوبست کردے

طاہر کی بات سے تینوں ہنس پڑے ۔ اتنے میں مکان کے دروازے پر دستک ہوئی۔ سب لوگ یک لخت خاموش ہوگئے۔ طاہر کے ماتھے پر سوچ کی شکنیں نمودار ہوئیں اور اس نے کسی قدر بڑبڑاتے ہوئے کہا۔ 

’’ اس وقت کون ہوسکتا ہے؟.............خیر ! میں دیکھتا ہوں ‘‘ وہ دروازے کی جانب جانے کے لیے اٹھا لیکن اس سے پہلے قاسم آگے بڑھ چکا تھا۔

قاسم نے دروازہ کھولا تو سامنے ایک ادھیڑ عمر اجنبی کھڑا تھا ۔ یہ ابو جعفر تھا۔ قاسم اسے پہلی بار دیکھ رہاتھا ۔ ابوجعفر کی آنکھوں میں سانپ جیسی چمک تھی اور اس کی کوہان جیسی ناک اس کے مکار چہرے پر مزید پراسرار دکھائی دیتی تھی۔ ابوجعفر نے قاسم کو دیکھتے ہی مسکراتے ہوئے سلام کیا اور پھر کہنے لگا

’آپ مجھے نہیں جانتے۔ لیکن آپ کے بھائی میرے دوست ہیں۔ بہر حال آج تو میں آپ ہی کی زیارت کے لیے حاضر ہواہوں۔‘‘

ابو جعفر کی بات سن کر قاسم نے مہمان خانے کا دروازہ کھولا اور ادھیڑ عمر ابوجعفر کو بیٹھنے کے لیے کہا ۔’’آپ تشریف رکھیئے! میں بھیا کو خبر کر کے حاضر ہوتا ہوں ۔ براہ کرم اپنا اسم گرامی بتادیجیے ۔ تاکہ میں بھیا کو مطلع کرسکوں ۔‘‘

’’ جی میرا نام ابو جعفر ہے۔‘‘ قاسم نے طاہر کو بتایا تو اس کے ماتھے کی شکنیں مزید گہری ہوگئیں

ابو جعفر ؟.............خطیب مغرب ! یہ شخص یہاں کیسے آگیا؟ جہاں تک میری معلومات ہیں، یہ شخص تو شہر کے پرلے سرے پر ’’بغدادی دروازے ‘‘ کی مسجد میں خطیب ہے‘‘

طاہر نے سوچ کے عالم میں انگلی کی مدد سے اپنی پیشانی بجاتے ہوئے کہا۔

’’ وہ کہہ رہا تھا کہ مجھ سے ملنے کے لیے آیا ہے ۔ غالباٌ آپ کا دوست ہے...........یہی بتایا ہے اس نے ۔‘‘

’’میرا دوست ؟..........نہیں! میں تو اسے صرف ایک آدھ بار ہی ملا ہوں۔ خیر ! چلو ، چل کر دیکھتے ہیں کیا معاملہ ہے

دونوں بھائی ابوجعفر کے پاس مہمان خانے میں آبیٹھے ۔ ابو جعفر نے اپنے مخصوص چاپلوسانہ لہجے میں کہا ۔

’’شیخ طاہر ! ..............آپ کے بھائی تو بڑے جنگجو ہیں۔ تہوار والے دن ان کی کارکردگی سے سلطان بے حد متاثر ہوا اور انہیں ایک دم ینی چری کا ’’پنج ہزاری سالار ‘‘مقرر کر دیا ...........میں اسی کا میابی کی مبارکباد دینے آیا ہوں۔‘‘ 

طاہر نے حیرت سے ابو جعفر کی بات سنی اور پھر سلیقے سے کہا۔’’آپ کا بہت بہت شکریہ۔ آپ نے زحمت کی..........واقعی میرے بھائی کا ینی چری میں بھرتی ہونا ہمارے لیے سعادت کی بات ہے۔‘‘

قاسم اور طاہر کو معلوم نہیں تھا کہ ابوجعفر کتنا خطرناک شخص ہے۔ ابو جعفر ، طاہر کے بارے میں سب کچھ جانتا تھا۔ اسے اصل دلچسپی تھی قاسم کے ساتھ۔ کیونکہ ینی چری کے سالار اس کی سازش کا خاص نشانہ تھے۔وہ اب تک ینی چری کے تین اہم سالاروں کو اپنے دام فریب میں جکڑ چکا تھا ۔ اس کا طریقہء کار یہ تھا کہ وہ غیر شادی شدہ اور کم عمر سالاروں کو نوجوان عیسائی لڑکیوں کا جھانسہ دے کر اپنے جال میں پھنسا تا تھا ...............ایک بار کوئی شخص اس کا رازدار بن کر جرم کی راہ پر چل پڑتا تو پھر آسانی سے واپس نہ لوٹ سکتا ۔ وہ ینی چری کے اہم سالاروں کو بغاوت کے لیے اکساتا رہتا ۔ ینی چری ، سلطنت عثمانیہ کی سب سے اہم اور جنگجو فوج تھی۔

یہ فوج سلطنت عثمانیہ کے بانی ’’عثمان خان‘‘ کے بیٹے ’’اُورخان ‘‘نے سب سے پہلے اپنے بھائی ’’علاؤالدین‘‘ اور ’’قراء خلیل‘‘ کے مشورے سے بنائی تھی۔ ’’اُور خان‘‘کے زمانے میں جب تمام ایشیائے کوچک عیسائی رعایا بن کر ذمیوں کی حیثیت سے ایشیائے کوچک میں زندگی بسر کرنے لگے تھے۔ وزیراعظم’’علاؤالدین‘‘نے اپنے بھائی ’’اُور خان‘‘ کو مشورہ دیا کہ بڑے بڑے جاگیردار جو بڑی بڑی فوج کے مالک ہوتے ہیں سلطنت کے لیے بعض اوقات خطرے کا مؤجب بھی بن جاتے ہیں۔

اس وقت تک ترکوں کی کوئی باقاعدہ فوج نہیں تھی۔اور وزیراعظم ’’علاؤالدین ‘‘ کو اس بات کا خطرہ تھا کہ ان کی بادگزا ر عیسائی رعایا ہمسایہ عیسائی سلطنت کی ریشہ دوانیوں کا شکا ر بن کر ان کی مخالفت پرآمادہ ہوجانے کی استعداد بھی رکھتے تھے۔ اس لیے اس نے مناسب سمجھا کہ عیسائی قیدیوں اور عیسائی رعایا میں سے نوجوان اور نو عمر لڑکوں کو لے کر سلطنت خود ان کی پرورش اور تربیت کی ذمہ دار بنے اور اس طرح انہیں اسلامی تعلیم دے کر اور مسلمان بنا کر ان کی ایک فوج بنائی جائے۔ یہ فوج خاص شاہی فوج سمجھی جائے گی۔ ان لوگوں سے بغاوت کی توقع نہ ہوگی۔ اور ان نومسلم نوجوانوں کے عزیز واقارب بھی سلطنت کی مخالفت نہیں کریں گے۔ اس کے برعکس ان کو مسلمان ہونے کی ترغیب ملے گی۔ چنانچہ اس تجویز پر عمل درآمد کیا گیا۔

پہلے سال ایک ہزار عیسائی لڑکوں کو منتخب کر کے انہیں فوجی تربیت دی گئی ۔ دوسرے سال ایک ہزار لڑکے اور چنے گئے۔ شروع شروع میں جب دو ہزار نوجوان تربیت سے فارغ ہوکر سلطان کے باڈی گارڈ قرادیئے گئے تو سلطان ان کو لے کر ایک بزرگ صوفی ’’حاجی بکطاش ‘‘ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے دعا کی درخواست کی ۔ اس باخدا بزرگ نے ایک نوجوان کے شانے پر ہاتھ رکھ کر اس فوج کے لیے دعائیہ کلمات کہے اور اسے ’’ینی چری فوج‘‘ کہہ کر پکارا۔

قاسم بن ہشام پہلا شخص تھا جو عیسائی نہیں تھا اور پھر بھی اسے ینی چری میں شامل کیا گیا تھا۔ عیسائی نوجوان اسلام قبول کرنے کے بعد سلطان کی نگرانی میں فن حرب کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے۔ ان کی فوجی تربیت میں حددرجہ سختی برتی جاتی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ ہر قسم کی تکلیف کو آسانی سے برداشت کر لیتے تھے۔ اپنے والدین ، وطن اور مذہب چھوٹنے کے بعد ان کی تمام امیدیں سلطان کے ساتھ وابستہ ہوجاتیں اور اسی لیے اسلام کی حمایت ان کی زندگی کا نصب العین بن جاتی ۔ سلطان ان پر بھر پور اعتماد کرتا تھا۔یہ فوج جس طرح شان وشوکت کے ساتھ رہتی اور جس طرح سلطان کی منظور نظر تھی اس کو دیکھ دیکھ کر عیسائیوں کو خود ہی خواہش پیدا ہوتی کہ وہ اپنے بیٹوں کو سلطانی تربیت گاہ میں داخل کرا دیں۔ یہی وجہ تھی کہ سالانہ بھرتی کے موقع پر یہ تعداد خود بخود پوری ہو جاتی اور بعض امیدواروں کو واپس کرنا پڑتا۔

سلطان نے پہلی مرتبہ کسی مسلمان نوجوان کو خلاف معمول ینی چری میں بھرتی کیا تھا ۔ اور سلطان کے اس فیصلے کی حقیقی حکمت یہ تھی کہ نو مسلم سپاہیوں کے اس لشکر میں ایک آدھ پختہ کار مسلمان کو اس لیے بھی شامل ہو نا چاہیے کہ آئے دن اٹھتی ہوئی بغاوتوں اور سازشوں سے باخبر رہا جاسکے ۔ ابو جعفر نے ینی چری کے بعض سالاروں کو ان کے سابقہ مذہب عیسائیت پر لوٹانے میں کامیابی حاصل کرلی تھی۔ ابوجعفر کی سرگرمیوں سے ینی چری میں غداروں کی تعداد بڑھتی جارہی تھی۔ 

ادھر سلطان کے باخبر کان اس صورت حال کی سن گن لے چکے تھے۔ چنانچہ سلطان نے قاسم کو نومسلموں کی فوج میں شامل کر کے حاکمانہ بصیرت کا ثبوت دیا۔ اور یہی بات ابوجعفر کے لیے کڑوا نوالہ ثابت ہورہی تھی۔ وہ سلطان کے فیصلے سے بوکھلا گیا تھا۔ کیونکہ اب ایک پختہ کار عرب مسلمان کی موجودگی میں ابو جعفر کے لیے ینی چری کے اندر بغاوت کا منصوبہ بنا نا مشکل ہو گیا تھا ۔ ابوجعفر کے پیٹ کا یہی مروڑ تھا جو اسے عثمانی تربیت گاہ کے استاد طاہر کے گھر کھینچ لایا تھا۔ اور اس وقت ابو جعفر قاسم کی شخصیت اور ایمان کو پرکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔

لیکن قاسم بن ہشام کئی پشتوں سے مسلمان مجاہد اور جنگجو تھا۔ ابو جعفر کو قاسم اور طاہر کاانداز گفتگو دیکھ کر شدید مایوسی ہو رہی تھی۔ کیونکہ اس کی مکار اور تجربہ کار نگاہیں یہ بھانپ چکی تھیں کہ ان دونوں عرب بھائیوں کو پھانسنا آسان کام نہیں۔

اس نے ادھر ادھر کی بہت سی باتیں کرنے کے بعد براہ راست قاسم سے سوال کر دیا۔’’اس کی کیا وجہ ہے کہ سلطان نے پہلی مرتبہ ینی چری میں کسی مسلمان سالار کو شامل کیا ہے؟‘‘

قاسم پہلے ہی ابوجعفر کی سانپ جیسی تیز آنکھوں کو دیکھ کر چوکنا ہوگیا تھا ۔ اب اس نے یہ سوال کیا تو قاسم کو عجیب سالگا ۔ لیکن اس سے پہلے کہ قاسم بولتا، طاہر بول بڑا۔

’’سنا ہے کہ ینی چری میں کوئی بغاوت پروان چڑھ رہی ہے۔ غالباً سلطان نے اسی کی حقیقت جاننے کے لیے میرے بھائی پر اعتماد کیا ہے۔‘‘

طاہر کی بات سن کر ابوجعفر کا دل دھک سے رہ گیا ۔ ینی چری میں پروان چڑھنے والی بغاوت کا سرغنہ وہ خود تھا ۔ طاہر بن ہشام کی بات نے مہمان خانے کی فضا میں سنسنی بھردی تھی۔ ابوجعفر سراسیمہ ہوگیا کیونکہ قاسم کی نظریں بدستور ابوجعفر کے چہرے پر تھیں۔ ابوجعفر نے ان ذہین عرب بھائیوں میں مزید رکنا مناسب نہ سمجھا اور جلدی سے اجازت لے کر وہاں سے اٹھ گیا۔(جاری ہے )


 

No comments:

Post a Comment