عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا۔۔۔ قسط نمبر 7.

اگلے دن قاسم اپنی نئی وردی پہن کر اور اپنے من پسند گھوڑے پر سوار ہوکر ینی چری کے صدر مقام کی جانب چل دیا۔ یہاں اس کی ملاقات سب سے پہلے ’’آغاحسن ‘‘ کے ساتھ ہوئی۔ یہ وہی نوجوان تھاجس نے تہوار والے روز سکندر بیگ سے شکست کھائی تھی۔ قاسم کو اس نوجوان کے چہرے پر عجب سادگی اور خلوص دکھائی دیا۔ قاسم نے بہت جلد اندازہ لگا لیا کہ اس نوجوان کے ساتھ اس کی دوستی ہونے والی ہے
آغاحسن ، قاسم سے عمر میں بڑا تھااور ینی چری کا تجربہ کار سالار تھا۔ اپنے کارناموں اور شجاعت کی وجہ سے وہ ترقی کر کے دس ہزاری منصب تک پہنچ چکا تھا۔ آغا حسن ، قاسم کو ینی چری کے احاطے میں داخل ہوتا دیکھ کر ٹھٹک گیا تھا۔ اسے تہوار والے روز سے ہی قاسم بہت پسند آیا تھا۔اس نے قاسم کو دیکھا اور دوڑتا ہوا اس کے پاس جا پہنچا۔ قاسم بھی فوراً گھوڑے سے نیچے اتر آیا۔ ینی چری کے دونوں سالار آپس میں بغل گیر ہوئے اور باتیں کرتے ہوئے صدر دفتر کی طرف بڑھنے لگے۔ آغا حسن نے چلتے چلتے کہا

میں آپ کے بڑے بھائی طاہر بن ہشام کو جانتا ہوں۔ وہ تربیت گاہ میں شمشیر زنی کی کلاس لیتے ہیں تو میں کبھی کبھار اپنے شوق سے ان کا فن دیکھنے جاتا ہوں۔‘‘

’’بہت خوب!..........اس کا مطلب ہے بھائی جان بھی آپ کو جانتے ہوں گے..............اچھا ہوا سب سے پہلے آپ کے ساتھ ملاقات ہوگئی۔ اس دن آپ نے بڑے ماہرانہ وار کئے تھے۔ آپ کی شمشیر نہ ٹوٹی ہوتی تو آپ یقیناًسکندر بیگ کو تھکا کر شکست دینے کی صلاحیت رکھتے تھے

آغا حسن قاسم کی ماہرانہ رائے سن کر حیران رہ گیا۔ یہ حقیقت تھی کہ اس کی تلوار دھوکہ دے گئی تھی۔ورنہ وہ ابھی کئی گھنٹے تک لڑنے کی ہمت رکھتا تھا۔

قاسم دن بھر آغاحسن کے ساتھ رہا ۔ اسے اس کی کمان میں کام کرنے والے یک ہزاری ، پنج صدی، یک صدی اور دس سپاہیوں کے سالاروں سے ملوایا گیا۔ ینی چری کی تمام فوج ایک بہت بڑی کالونی میں مقیم تھی۔ یہ سب لوگ اپنا گھر بار ، وطن اور مذہب چھوڑ چکے تھے اور اس وقت اسلام کی سربلندی کی خاطر اپنی جانوں کا سودا کئے ہوئے تھے۔

شام کو گھر کی جانب واپس آتے ہوئے قاسم جب آغاحسن سے اجازت لینے لگا تو اسے ایک دم ابوجعفر کا خیال آیا ۔ اور پھر اسے ینی چری میں مبینہ بغاوت کی بات یاد آئی۔ وہ دن بھرکی رفاقت میں جان چکا تھا کہ آغاحسن قابل اعتماد سپاہی ہے۔ چنانچہ اس نے قدرے رازدارانہ لہجے میں آغاحسن سے دریافت کیا

یہ بات کہاں تک صحیح ہے کہ ینی چری میں بعض لوگ سلطان کے خلاف سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ کیا آپ اس بارے میں کچھ جانتے ہیں؟‘‘

آغاحسن نے چونک کر قاسم کی جانب دیکھا اور پھر محتاط لہجے میں جواب دیا۔

’’نہیں ! میں اس بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتا۔ میرے علم میں تو یہ بات آئی ہے کہ کچھ لوگ تنخواہ بڑھانے اور دیگر سہولیات میں اضافے کی ضد کر رہے ہیں۔‘‘

جلد ہی قاسم ینی چری میں ایک محبوب و مقبول سالار بن گیا۔ اب اس کے والدین بھی ’’ادرنہ ‘‘ میں اس کے بھائی کے گھر آچکے تھے۔ روزانہ علی الصبح گھوڑے پر سوار ہو کر ینی چری کے معسکر جانا اور پھر شام کے بعد واپس لوٹنا قاسم کا معمول بن چکا تھا۔ کبھی کبھار وہ آغا حسن کے پاس رات کے کھانے کے لیے رک جاتا اور دیر سے واپس آتا

اسی طرح کی ایک رات قاسم معسکر سے گھر آنے کے لیے روانہ ہوا۔ راستے میں زیتون کے چند باغات پڑتے تھے۔ دسویں رات کا چاند زیتون کے درختو ں پر چاندنی کی چادر پھیلا چکا تھا۔ قریب ہی پہاڑی پانی کا ایک بڑا سا تالاب تھا جس کے چہار اطراف نرم سبزہ کسی قالین کی طرح بچھا ہواتھا۔قاسم تالاب کے قریب پہنچا تو ٹھٹک کر رک گیا۔کسی نے کہیں سے تالاب میں کنکر پھینک دیا تھا۔ پانی میں کنکر کا چھناکا پیدا ہوا تو قاسم نے گھوڑے کی لگامیں کھینچ لیں اور بجلی کی سی تیزی سے اپنی چمکدار شمشیر نیام سے باہر کرلی

زمستانی ہوا پتے پتے کو رقص پر مجبور کر رہی تھی۔ چاندنی کی وجہ سے درختوں کے سائے کسی طلسماتی شہر میں گم سم کھڑے سیاہ دیو محسوس ہو رہے تھے۔ ہر طرف سناٹا تھا۔ گھوڑے کے سموں کے نیچے کڑکڑاتے ہوئے زیتون کے خشک پتے پورے ماحول میں دیو مالائی رنگ بھر رہے تھے۔ قاسم کے کان کھڑے تھے اور وہ اپنی تمام حسیات کو بیدار کئے کسی کی موجودگی کو محسوس کرنے کی کوشش کر رہاتھا۔

یکلخت اسے گھوڑے کے ہنہنانے کی آواز سنائی دی۔ یہ آواز انار کے چھوٹے درختوں کے عقب سے آرہی تھی۔ قاسم نے تلوار کے دستے پر گرفت مضبوط کی اور گھوڑے کو اسی جانب موڑ لیا۔ قریب جانے پر اس نے دیکھا کہ وہ ایک نہیں دو گھوڑے تھے جو ایک بگھی کے آگے جتے ہوئے تھے۔ بگھی کو یہاں ویرانے میں دیکھ کر قاسم کو حیرت ہوئی۔ اس قسم کے رتھ یہاں’’ادرنہ ‘‘میں طبقہء اشرافیہ کی خواتین استعمال کرتی تھیں۔ قاسم کا ماتھا ٹھنکا، اس نے سوچا ضرور کوئی ایسی ویسی بات ہے۔ وہ رتھ کے قریب گیا اور باآواز بلند پوچھا

کون ہے یہاں؟........... میں پوچھتا ہوں کون ہے یہاں؟‘‘

وہ کچھ دیر تک پکارتا رہا۔ جب اسے جواب سنائی نہ دیا تو اس نے رتھ کی پچھلی طرف جا کر عقبی پردے کو تلوار کی نوک سے اٹھادیا۔ یہاں بھی کوئی نہیں تھا۔ اب قاسم مزید محتاط اور مستعد ہوگیا۔ ابھی وہ صورتحال کی نزاکت پر غور ہی کر رہاتھا کہ اسے انار کے ایک درخت کے پیچھے سے ایک ہیولا سا نکلتا دکھائی دیا۔ قاسم نے آن واحد میں تلوار میان میں ڈالی اور گھوڑے کی زین سے لٹکی کمان تان لی جس میں ایک تیز دھار تیر پہلے سے رکھا ہوا تھا۔ اس نے حرکت کر تے ہوئے ہیولے کو حکم دیا۔

’’خبردار! کون ہوتم؟ وہیں رک جاؤ۔ ایک قدم بھی آگے بڑھایا تو تیر چھوڑدوں گا۔‘‘

ہیولااپنی جگہ پر رک گیا۔ اور پھر اگلے لمحے ایک خوبصورت نقرئی قہقہہ زیتون کے باغات میں گونجتا چلا گیا۔ یہ جان کر قاسم کے چھکے چھوٹ گئے کہ وہ ہیولا کسی عورت کا تھا۔ قاسم کو ایسے لگا جیسے اس کا واسطہ کسی چڑیل سے پڑگیا ہو۔ لیکن اسے زیادہ دیر انتطار نہ کرنا پڑا۔ عورت کا ہیولا خود ہی بول اٹھا۔

’’ڈرگئے!...........ینی چری کے پنج ہزاری سالار صاحب ڈرگئے!‘‘

یہ مارسی کی آواز تھی۔ وہ درختوں کے سائے سے نکل کر سامنے آگئی ۔ قاسم مارسی سے متعلق قطعاً کچھ نہیں جانتا تھا۔ مارسی نرم قدموں کے ساتھ چلتی ہوئی قاسم کے بالکل قریب آگئی ۔ اب وہ صاف دکھائی دے رہی تھی۔ دسویں رات کی چاندنی اس کے شگفتہ چہرے کو نوری شعاعوں کا غسل دے رہی تھی۔ اس کی کٹورے جیسی آنکھیں کسی نیلی جھیل کی طرح جھلملا رہی تھیں۔ وہ مسکراتی ہوئی قاسم کے سامنے آئی اور انتہائی شائستہ لہجے میں کہنے لگی۔

’’محترم سالار! میں اس انداز میں ملنے کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ لیکن اس کے سوا کوئی چارہ بھی تو نہیں تھا۔ میں اگر مزید دیر کرتی تو زیادہ تباہی پھیلنے کا اندیشہ تھا۔ چنانچہ میں نے یہی بہتر سمجھا کہ اس طرح راستے میں آپ سے مل لیا جائیے .......میں کافی دیر سے آپ کا انتظار کر رہی ہوں۔‘‘

مارسی کی بات سے قاسم چونکا۔ لیکن ابھی تک وہ سر راہ ملنے والی اس دوشیزہ پر اعتماد نہیں کرسکتا تھا۔اس نے مارسی سے وہی سوال کیا جو اسے کرنا چاہیے تھا۔

’’آپ جو کچھ کہنا چاہتی ہیں، وہ بعد میں کہئے گا۔ پہلے یہ بتائیے کہ آپ کون ہیں؟‘‘

مارسی نے اپنی گھنی اور لمبی پلکیں اٹھا کر دیکھا اور ہونٹوں پر موجود مسکراہٹ کو معدوم کرتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔

’’محترم سالار! آپ میری بابت جاننے کی بجائے اس اہم راز کو غور سے سنیے جو میں آپ کو بتانے جارہی ہوں۔‘‘

مارسی نے ساتھ ہی بتانا شروع کیا۔

’’محترم سالار! آپ یقین کیجیے، سلطان مراد خان ثانی کا منہ بولا بیٹا سکندر بیگ دل سے مسلمان نہیں ہوا۔ بلکہ وہ عیسائیوں کی ایک گہری چال کے تحت جارج کسٹریاٹ سے سکندر بیگ بنا ہے۔ سلطان نے اسے لاعلمی میں مغربی سرحدات کی جاگیر سونپ دی ہے۔ آپ کو یقیناًمعلوم ہوگا کہ وہ ’’البانیہ‘‘کے آنجہانی بادشاہ جان کسٹریاٹ کا بڑا بیٹا ہے۔ وہ بعض دوسرے عیسائی جاگیرداروں اور فوج کے بعض سالاروں کی مدد سے بغاوت کرنا چاہتا ہے۔ وہ البانیہ کو سلطان کی باجگزار ی سے آزاد کرکے سلطان سے انتقام لینا چاہتا ہے۔ کیونکہ اس کے خیال میں اس کے تین چھوٹے بھائیوں کو سلطان نے زہر دے کر مروادیاتھا۔

محترم سالار !آپ میری بات کا یقین کیجئے! اس سازش میں ابو جعفر نامی ایک شخص بھی شریک ہے...............اس سے زیادہ میں آپ کو کچھ نہیں بتا سکتی۔‘‘

مارسی نے اتنا کہا اور تیز تیز قدم اٹھاتی ہوئی بگھی کی طرف بڑھ گئی۔ قاسم ابھی تک حیرت کے مارے ساکت و جامد کھڑا تھا۔ اس نے دیکھا کہ درختوں کی اوٹ سے ایک نو عمر لڑکا نکلا۔ جس نے کوچوانوں جیسا لباس پہن رکھا تھا۔ وہ لڑکا تیزی سے بگھی پر سوار ہوا اور گھوڑوں کو چابک رسید کردی۔ قاسم حیرت کے جھٹکے سے اس وقت نکلا جب مارسی کی بگھی جاچکی تھی۔(جاری ہے )


 

No comments:

Post a Comment