کسی کسان کا گدھا گم ہوگیا تو اس نے اپنے دور کے بزرگ حضرت شیخ ابوالحسن بوشنجی ؒ پر چوری کا الزام لگاتے ہوئے کہا۔
ؔ ؔ ’’خیریت اسی میں ہے کہ میرا گدھا واپس کر دو‘‘۔
او ر جب آپ کے مسلسل انکار پر بھی وہ شخص نہ مانا ،تو آپ نے اﷲ تعالیٰ کے حضوردعا کی۔
’’یا اﷲ!مجھے اس مصیبت سے نجات عطا کر‘‘۔
چنانچہ اس دُعا کے ساتھ ہی اس شخص کا گدھا مل گیا۔اس کے بعد اُس کے بعد اس نے معذرت طلب کرتے عرض کیا۔
’’یہ تو خوب اچھی طرح سے جانتا تھا کہ آپ نے میرا گدھا نہیں چرایا ہے لیکن جس انداز آپ کی دعا قبول ہوئی میری ہر گز نہ ہوتی۔اسی بِنا پر میں نے آپ کو موردِالزام ٹھہرایا تھا
کسی سرمایہ دار نے حضرت ابو علی شفیق بلخی ؒ سے عرض کیا۔
’’لوگ آپ کو محنت مزدوری کرنے کیوجہ سے کمتر سمجھتے ہیں لہذا اپنے اخراجات کیلئے کچھ رقم مجھ سے لے لیا کیجئے۔‘‘
آپ نے فرمایا۔’’اگر پانچ چیزوں کا خوف نہ ہوتا تو شاید میں آپ کی درخواست پر غور کرتا اوّل یہ کہ مجھے دینے سے تیری دولت میں کمی ہوگی۔دوم میرے پاس رقم کے چوری ہو جانے کا بھی خطرہ ہے۔سوم یہ کہ ممکن ہے تجھے میرے اُوپر رقم خرچ کرنے کا غم پیدا ہو جائے
چہارم یہ کہ ممکن ہے میرے اندر کوئی عیب بیدا ہو جانے کیوجہ سے تو اپنی رقم کی واپسی کا مطالبہ کرنے لگے۔پنجم یہ کہ تیری موت کے بعد میں پھر بھکاری رہ جاؤں گا۔‘‘
***
حاکم روم کچھ رقم سالانہ ہارون الرشید کے پاس بھیجا کرتا تھا لیکن ایک مرتبہ چندر اہبوں کو خلیفہ کے پاس بھیج کر یہ شرط لگا دی کہ اگر آپ کے دینی علماء مناظرے میں ان راہبوں سے جیت گئے تو میں رقم کی ادائیگی جاری رکھوں گا۔اگر نہ جیتے تو رقم ادا کرنی بند کر دوں گا۔‘‘
چنانچہ خلیفہ نے تمام علماء کو مجتمع کرکے حضرت اما م شافعیؒ کو مناظرہ پر آمادہ کیا۔اس پر آپ نے پانی کے اُوپر مصلّیٰ بچھا کر راہبوں سے کہا۔’’یہاں آکر مناظرہ کرو
یہ صورت حال دیکھ کر سب ایمان لے آئے اور جب اس بات کی اطلاع حاکمِ روم کوپ پہنچی تو اس نے کہا کہ یہ بہت اچھا ہوا۔اس لیے کہ اگر وہ شخص یہاں آجاتا تو پورا روم مسلمان ہو جاتا۔
***
ایک مرتبہ رات کا پہلا پہر گذر جانے کے بعد حضرت سری سقطیؒ حضرت فتح موصلیؒ سے ملاقات کیلئے چلے۔راستہ میں سپاہیوں نے آپ کو چور سمجھتے ہوئے گرفتار کر لیا اور صبح کو جب تمام قیدیوں کے قتل کا حکم دیا گیا تو آپکی باری آنے پر جلّاد نے اپنا ہاتھ روک لیا۔
’’ایک بوڑھے خدا رسیدہ بزرگ میرے سامنے کھڑے مجھ سے کہہ رہے ہیں کہ اسے قتل نہ کرو اور وہ بوڑھے خدا رسیدہ بزرگ میرے سامنے کھڑے مجھ سے کہہ رہے ہیں کہ اسے قتل نہ کرو اور وہ بزرگ حضرت فتح موصلیؒ ہیں
اس پر حضرت سری سقطیؒ کو رہا کر دیا گیا اور آپ فتح موصلیؒ کے ہمراہ چلے گئے۔
***
کسی نے حضرت جنید بغدادیؒ کی خدمت میں پانچ سو دینا ر پیش کیے ۔آپ نے اس شخص سے پوچھا’’تمہارے پاس اور بھی رقم ہے‘‘
اُس نے جب اثبات میں جواب دیا تو مزید پوچھا۔’’ تمہیں اور مال کی بھی حاجت ہے‘‘۔
اس نے کہا۔’’جی ہاں‘‘
اس پر آپ نے فرمایا۔’’اپنے پانچ سو دینار واپس لے جاؤ کیونکہ تمہیں مجھ سے زیادہ ان کی ضرورت ہے ۔میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے لیکن اس کے باوجود مجھے ان کی حاجت نہیں اور تیرے پاس مزید رقم موجود ہے ۔لیکن پھر بھی تو ان کا محتاج ہے‘
حضرت ابو وراق ؒ کے ایک صاحبزادے قرآن پاک یک تلاوت فرمارہے تھے ۔جب وہ اس آیت پرپہنچے)ترجمہ(یعنی’’ایک دن بچے بوڑھے ہو جائیں گے‘‘۔ تو وہ خوفِ الٰہی سے اس حد تک متاثر ہوئے کہ فوراً ان کا دم نکا گیا اور وہ مر گئے۔
حضرت ابو وراق ؒ ان کے مزار پر روتے ہوئے فرمایا کرتے تھے۔’’کس قدر افسوسناک ہے یہ بات کہ اس بچے نے ایک ہی آیت کے خوف سے جان دے دی لیکن میرے اُوپر برسوں کی تلاوت کے بعدیہ آیت اثر انداز نہ ہو سکی‘‘۔
ًطویل سفر کے بعد دودرویش حضرت عبداﷲ ؒ خفیفؒ کے ہاں حاضر ہوئے ان کو معلوم ہوا کہ حضرت شاہی دربار میں ہیں
یہ جان کر ان دونوں نے سوچا کہ یہ کس قسم کے بزرگ ہیں جو دربارِشاہی میں حاضری دیتے ہیں۔یہ سوچ کر دونوں بازار کی جانب نکل گئے اور اپنے خرقہ کی جیب سلوانے کیلئے درزی کی دکان پر پہنچے۔اسی دوران درزی کی قینچی گم گئی او اس نے ان دونوں کو چوری کے شبہ میں سپاہیوں کے حوالے کر دیا اور جب پولیس دونوں کو لے کر شاہی دربار پہنچی تو حضرت عبداﷲ خفیفؒ نے بادشاہ نے سفارش کر تے ہوئے فرمایا۔’’یہ دونوں چور نہیں ہیں لہذا ان کو چھوڑ دیا جائے‘‘ چنانچہ آپ کی سفارش پر دونوں کو رہا کر دیا گیا۔
اس کے بعد آپ نے ان دونوں سے فرمایا۔’’میں دربارِشاہی میں محض اسی غرض سے موجود رہتا ہوں‘‘۔
اس پر دونوں نے معافی مانگی اور آپ کے مریدوں میں شامل ہو گئے۔جاری ہے
No comments:
Post a Comment