عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا---- قسط نمبر 18.

اکبر نے جانا کہ کام مکمل ہوچکا ہے۔ چنانچہ وہ جانے کے لیے مڑا لیکن قاسم نے اسے روک لیا۔ چبوترے پر بیٹھا ادھیڑ عمر شخص جو کنکھیوں سے قاسم کا خط پڑھنے کی کوشش کررہاتھا سٹپٹا گیا۔ قاسم کے خط کا مضمون ہی انتہائی عجیب تھا۔ اگر خط مارتھا یا ابوجعفر کے ہاتھ لگ جاتا تو بھی راز نہ کھل سکتا ۔ قاسم نے اب تک ایک دانشمند سراغ رساں ہونے کا ثبوت دیا تھا۔ اس نے اکبر سے کہا
دیکھو اکبر. اپنی مالکن سے کہنا کہ اس خط کا جواب آج ہی دے ۔ اور وہ بھی جلد سے جلد.اکبر !تم خود اپنی مالکن کا جواب لے کر آنا۔ میں سہہ پہر کے بعد تمہارا انتطار کروں گا۔ لالہ شاہین کی یادگار پر
قاسم کی ہدایات سن کر اکبر نے سرہلادیا۔ اب وہ جانے لگا تو قاسم نے اسے جانے دیا۔ ادھر قاسم نے اس کو مارسی کے گھر کی جانب روانہ کیا اور ادھر خود اس نے ارادہ کر رکھا تھا کہ وہ ابوجعفر کی نگرانی کے لیے مارتھا کے گھر جائے گا۔ بظاہر وہ اکبر کے جانے کا انتظار کرتا رہا۔ اکبر سرائے کی عمارت سے نکل گیا۔ تو قاسم بھی سرائے کے منشی کا شکریہ ادا کرکے باہر نکلنے کے لیے اٹھا۔ وہ ابھی سرائے کی راہداری میں ہی تھا کہ سرائے میں داخل ہونے والے ایک اجنبی کو دیکھ کر چونک اٹھا۔ یہ شخص اپنی شکل وصورت اور حلیے سے ہنگری کا عیسائی باشندہ دکھائی دیتا تھا اور یہی بات قاسم کے چونکنے کا باعث تھی۔اجنبی مسافر تھا اور اس کی پیٹھ پر لدا سامان اس بات کا گواہ تھا کہ وہ ابھی ابھی ادرنہ میں وارد ہوا ہے۔ اس سے پہلے کہ قاسم اس کے بارے میں کچھ اور سوچتا ، اجنبی بالکل قاسم کے قریب سے گزرنے لگا تو رک گیااور انتہائی معصومیت سے دریافت کرنے لگا
کیا یہ سرائے ہے؟‘‘
اجنبی کے لب و لہجہ کو دیکھ کر قاسم کا شک یقین میں بدل گیا۔ یہ واقعی ہنگری کا یورپی باشندہ تھا۔ قاسم جیسے سراغ رساں نے مشکوک اجنبی کا سوال کرنا غنیمت جانا اور پوری طرح سے اجنبی کی طرف متوجہ ہوگیا۔
’’جی !آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں؟...............کیا آپ کو سرائے کی تلاش ہے؟‘‘ قاسم نے اجنبی کو جواب دینے کی بجائے عام سے انداز میں سوال کر دیا۔
’’جی، میں ہنگری سے آیاہوں۔ اور ابھی ابھی اس شہر میں وارد ہوا ہوں۔‘‘ اجنبی کے لہجے میں بلاکی سادگی تھی۔ وہ شکل و شباہت سے قیصر کا جاسوس یا کسی عیسائی فوج کا سپاہی نہ لگتا تھا۔ اس کے چہرے پر ایک سادہ سی مسکراہٹ تھی اور آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے تھے۔ اس کی آنکھوں کی رنگت بھی یورپی باشندوں کی طرح نیلی تھی۔ اب قاسم کے اعصاب ڈھیلے ہونے لگے۔ وہ سوچنے لگا کہ یہ شخص خطرناک نہیں ہوسکتا۔ اس کا لہجہ اور چہرہ بشرہ کسی جاسوس کا سا نہیں ، یہ کوئی سوداگر یا بیوپاری ہی ہوسکتا ہے۔ چنانچہ قاسم نے دل سے جانے کا فیصلہ کر لیااور ویسے ہی ارزارہ معلومات اجنبی سے آخری سوال کردیا۔ لیکن اس سے پہلے اس نے اجنبی کو بتایا کہ
ہاں ، یہ سرائے ہے اور بہت اچھی سرائے ہے....آپ غالباً سوداگر ہیں؟‘‘ قاسم کا لہجہ استفہامیہ تھا۔
وہ شخص بھولپن سے ہنس دیااور زور زور سے نفی میں سر ہلانے لگا۔ ’’نہیں نہیں ، مجھے سوداگر مت کہئے۔ میں دنیا کو خریدنے کے لیے نہیں نکلا اور نہ ہی بیچنے کے لیے۔ میں تو لوگوں کو یہ بتانے کے لیے نکلا ہوں کہ دنیا کی خریدو فروخت بند کر دو۔زندگی بہت مختصر ہے، جسے خریدو فروخت میں نہیں گزاردینا چاہئے۔‘‘
ایک دم سے قاسم کی دلچسپی اجنبی میں پھر بڑھ گئی۔ اس نے اجنبی کو ٹٹولنے کے لیے پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا
آپ کی سوداگر والی بات ٹھیک ہے۔ لیکن زندگی کے مختصر ہونے والی بات غلط ہے۔ زندگی کہاں مختصر ہے۔ زندگی تو بہت طویل ہے۔ پہلے اس دنیا میں جینا پڑتا ہے ، پھر اس دنیامیں۔ موت کا فرشتہ تو صرف انسان کا بدن چھوتا ہے..وہ روح کے مرکز سے دور رہتا ہے۔
اجنبی نے کچھ دیر کے لیے حیرت سے پھٹی پھٹی آنکھوں کے ساتھ قاسم کی بات سنی اور پھر تیزی سے اپنی پیٹھ کا سامان اتارنے لگا۔ اگلے لمحے وہ قاسم سے بغل گیر ہورہا تھا۔
’’واہ !میں کتنا خوش نصیب ہوں۔ ادرنہ میں پہلے قدم پر ہی میری ملاقات ایک مناسب آدمی سے ہوگئی۔ آپ نے زندگی کی بات خوب کہی ...یہ بہت بڑی بات ہے ۔ کیا آپ حکیم ہیں
اجنبی کی بات سے قاسم ہنس دیااور کہنے لگا۔’’نہیں حضور، یہ بڑی بات نہیں بالکل عام سی بات ہے۔ یہ بات تو آپ کو مسلمانوں کا کوئی چھوٹا سا بچہ بھی بتاسکتا ہے۔
’کیا واقعی ، مسلمانوں کا کوئی چھوٹا بچہ بھی یہ بات بتا سکتا ہے
’’جی ہاں .چھوٹا سا بچہ بھی۔ ‘‘ قاسم نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ اب وہ اجنبی کو کوئی خبطی سمجھ رہا تھا ۔ کیونکہ اس نے دیکھا کہ اجنبی اب خلاء میں گھورتے ہوئے اپنے آپ سے باتیں کررہا تھا ۔ اجنبی کہہ رہاتھا
اس کا مطلب ہے ، مذہب کے پاس بھی کائنات کے مشکل سوالوں کا جواب ہے۔ میں سمجھتا تھا کہ مذہب ایسے ہی کچھ سمجھدار لوگوں کی چکر بازی ہے.............اگر مسلمان موت کے قائل نہیں تو یقیناًان کے پاس انسان کی مقصدیت کا اعلیٰ اور برتر شعور موجود ہے............اس کا مطلب ہے کہ میں ٹھیک جگہ پر آگیا ہوں............ہاں ، میں ٹھیک جگہ پر آگیا ہوں ۔ اب میں پیاسا نہیں رہوں گا۔ اے اُربان! سنا تم نے میں ٹھیک جگہ پر آگیا ہوں۔‘‘
اجنبی کی باتیں سن کر قاسم کی دلچسپی ایک بار پھر بڑھنے لگی۔ لیکن اس کے پاس وقت کم تھا۔ اسے ابوجعفر پر ہاتھ ڈالنے کے لیے منصوبہ بندی کرنا تھی۔ وہ مزید نہیں رک سکتا تھا ۔ چنانچہ وہ اجنبی سے اجازت لے کر جانے لگا تو اجنبی نے اس کا بازو پکڑ لیا۔
’’آپ کہا ں چل دیئے..........چلیے میرے ساتھ۔ میں اجنبی ہوں ۔ میر رہنمائی کیجیے۔ آپ مجھے اچھے انسان دکھائی دیتے ہیں۔‘‘
قاسم رک گیااور انتہائی متانت کے ساتھ اجنبی سے مخاطب ہوا۔ ’’محترم! میں آپ کے ساتھ ابھی تو نہیں چل سکتا ۔ البتہ آپ سرائے میں ٹھہریئے ۔ میں آپ سے ملنے کے لیے پھر حاضر ہوجاؤں گا.............لیکن آپ نے اپنا نام اور ادرنہ میں آنے کا مقصد تو بتایا نہیں۔ آپ کچھ نہیں بتائیں گے تو آپ کی ہمارے ساتھ اجنبیت کیسے دور ہوگی؟‘‘
اجنبی کسی قدر خفت آمیز لہجے میں بولا۔ ’’میں معذرت چاہتاہوں کہ میں نے نام نہیں بتایا۔ میر انام ’’اُربان‘‘ہے۔ میں ہنگری کا رہنے والا ہوں اور ابھی ابھی قسطنطنیہ سے یہاں وارد ہوا ہوں۔ میں کوئی باقاعدہ کام تو نہیں کرتا البتہ لوہا ڈھالنے کا کام میں بہت اچھی طرح سے جانتا ہوں......... میرے ہاتھ میں آکر لوہا پگھلنے لگتا ہے۔ آپ پیشہ کے لحاظ سے مجھے اس دور کا داؤد کہہ سکتے ہیں۔‘‘
اب قاسم پھٹی پھٹی آنکھوں سے اُربان کو دیکھ رہا تھا ۔ قاسم نے پرجوش انداز میں اربان کے دونوں ہاتھ پکڑ لیے اور انتہائی محبت بھرے لہجے میں کہا۔
’’محترم اربان! آپ ہمارے معزز مہمان ہیں۔ آپ سرائے میں قیام کیجئے ، آپ کے اخراجات میں برداشت کروں گا۔ اس وقت مجھے جلدی ہے میں کل کسی وقت آپ کی خدمت میں حاضر ی دونگا۔‘‘
قاسم نے معذرت خواہانہ انداز میں اربان سے اجازت لی اور سرائے سے باہر نکل آیا۔ اب اس کا رخ قصر سلطانی کی جانب تھا جہاں طبقہ امراء کی رہائش گاہیں تھیں۔ وہ قصر سلطانی کے عقبی محلے میں ابوجعفر پر نظر رکھنے کے لیے جارہاتھا ۔ اسے مارتھا کے دروازے تک پہنچنا تھا اور پھر نگرانی کے لیے کسی ایسی جگہ کا انتخاب کرنا تھا جہاں سے وہ ابوجعفر کی نقل و حرکت پر نظر رکھ سکتا ۔ لیکن اسے مارتھا کے دروازے تک جانے کی ضرورت پیش نہ آئی۔ اسے دور سے مارسی کا کوچوان دکھائی دیا۔ابھی کچھ وقت پہلے بغدادی دروازے کی ایک سرائے میں قاسم اس لڑکے کو مارسی کے نام ایک خط دے چکا تھا ۔ قاسم سوچنے لگا کہ وہ گلی میں سر راہ اکبر کو آواز دے کر بلائے یا نہ بلائے .........پھر اس نے ایک فیصلہ کیا اور اسی جانب چل دیا جس جانب اکبر جارہا تھا۔ وہ چند گلیوں میں اکبر کا تعاقب کرتے ہوئے مڑتا چلاگیا۔ بالآخر اس نے اکبر کو روک لیا۔ لڑکے نے مڑ کر دیکھا تو حیرت سے اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ وہ تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا قاسم کے قریب آگیا ۔ کچھ ہی دیر بعد اکبر ، قاسم کے ہمراہ قدم سے قدم ملا کر چل رہا تھا اور کسی طوطے کی طرح بولتا چلا جارہاتھا ۔
’’آج مالکن بہت خوش تھی صاحب! آپ کا خط ملنے پر وہ مسرت سے اچھل گئی ۔ پھر نہ جانے کیوں مالکن نے بڑی مالکن اور اس کے مہمان کی باتیں سننے کے لیے اس کمرے کی کھڑکی پر کان لگادیے جہاں وہ دونوں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ مالکن نے مجھے بھی کہا کہ میں بھی ان کی باتیں سننے کی کوشش کروں............. آج مالکن بہت خوش ہیں صاحب! وہ اس سے پہلے اتنی خوش کبھی نظر نہیں آئی۔‘‘
اکبر ابھی بولتا جارہاتھا کہ قاسم نے درمیان میں اس کی بات کاٹ دی اور کہنے لگا۔
’’تو کیا تم نے بھی ابوجعفر اور مارتھا کی باتیں سنی تھیں۔؟‘‘
جی ہاں! ‘‘ اکبر نے مختصر جواب دیا۔
قاسم نے پھر کہا ۔ ’’کیا باتیں سنی تم نے ؟
اکبر نے ماتھے پر شکنیں ڈال کر کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا۔ وہ دونوں ینی چری کی فوج میں ہونے والے واقعات پر باتیں کر رہے تھے۔ ابوجعفر کہہ رہاتھا کہ یہ کاروائی سلطان کے شاہی سراغ رساں کی لگتی ہے۔ اور مارتھا..یاد رکھنا ! یہ شاہی سراغ رساں انتہائی خطرناک اور چالاک شخص ہے۔ میں اس سے مل چکا ہوں۔ اس نے گھوڑے جیسا بدن ، چیتے جیسی آنکھیں اور لومڑی کا دماغ پایا ہے۔‘‘
اکبر اتنا بتا کر خاموش ہوگیا تو قاسم نے پرتجسس لہجے میں پھر کہا۔
بس ..! کیا یہی کچھ سنا تم نے یا کچھ اور بھی 
اکبر پھر کہنے لگا۔ ’’ابوجعفر ، شہزادہ علاؤالدین سے ملنے کی بات بھی کررہاتھا ۔ وہ مارتھا کو بتارہاتھا کہ شہزادہ اس کے ہاتھ میں ہے اور مارتھا کو گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ وہ بہت دھیمی آواز میں باتیں کر رہے تھے۔ کوئی کوئی جملہ سنائی دیتا تھا ۔ اور کوئی کوئی جملہ سمجھ میں نہیں آتا تھا ۔ میں نے صرف اتنی باتیں سنی۔البتہ مالکن تمام وقت وہیں کھڑی رہی جتنا وقت ابوجعفر اور بڑی مالکن باتیں کرتے رہے۔‘‘
قاسم کے لیے اتنا ہی بہت تھا۔ اس نے چلتے چلتے آخری سوال کیا۔ ’’کیا ابوجعفر ابھی تک وہیں ہے؟‘‘
’’نہیں ۔ وہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی وہاں سے چلا گیا ہے۔ البتہ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ وہ کس جانب گیا ہے۔ شاید مالکن کو معلوم ہو۔‘‘
قاسم چلتے چلتے یکدم رک گیا ۔ اسے اکبر سے جو کچھ پوچھنا تھا ، اس نے پوچھ لیاتھا ۔ اب اسے اکبر کے ساتھ مزید گلیوں میں بھٹکنے کی ضرورت نہ تھی۔ اس نے پیار بھرے انداز میں اکبر کو دو تین اشرفیاں تھمائیں۔ اور اس کے کندھے کو تھپتھپا تا ہوا ایک جانب چل دیا۔ وہ راستے میں سوچ رہاتھا کہ ابوجعفر کے غدار ہونے میں اب کوئی شک باقی نہیں رہا۔ اس کے ذہن میں ایک بار پھر ابوجعفر کی نیلی آنکھیں کھٹکنے لگیں۔ اسے یہ تو یقین تھا کہ ابوجعفر سلطنت عثمانیہ کے خلاف ایک خطرناک سازش کا اہم مہرہ ہے۔ لیکن اس کے ذہن میں پیدا ہونے والا یہ خیال ابھی شک ہی تھا کہ ابوجعفر عرب ہونے کی بجائے یورپی باشندہ ہے۔ وہ چاہتاتو یہی تھا کہ ابوجعفر کی اصل حقیقت کو آشکارا کرے۔ لیکن اس خطرے سے کہ بغاوت کسی بھی وقت سراٹھا سکتی ہے، اس نے اپنی تفتیش کو مزید طول دینا مناسب نہ سمجھا اور فیصلہ کیا کہ وہ ابوجعفر کو موقع دیئے بغیر گرفتار کرے گا۔ چنانچہ وہ انتہائی تیز قدموں کے ساتھ چلتا ہوا خفیہ محکمے کے سربراہ بہرام کے دفتر کی جانب بڑھنے لگا۔ اب اسے سپاہیوں کے ایک دستے کی ضرورت تھی تاکہ وہ سلطان کے عطا کردہ خصوصی اختیارات کو استعمال کرتا ہوا ابوجعفر کو دن دہاڑے حراست میں لے سکتا ۔
آج اس کا دن بہت مصروف تھا۔ اسے سہ پہر کے بعد مارسی کا پیغام وصول کرنے کے لیے لالہ شاہین کی یادگار تک بھی جانا تھا اور اسے آج کے دن میں ہی ابوجعفر جیسے اثرورسوخ رکھنے والے شخص کو گرفتار کرکے سازش کے تانے بانے تلاش کرنے تھے۔ وہ صبح سے ابھی تک پیدل چل رہاتھا ۔ لیکن اب اسے ایک مسلح دستے کی ضرورت تھی اور ایک بہترین گھوڑے کی بھی۔ اس کا م کیلیے اس نے بہرام خان کو ملوث کرنا مناسب سمجھا۔ وہ سیدھا قصرِ سلطانی کے قریب واقع سرکاری محکموں کی عمارت کی جانب جارہاتھا ۔ اسے بہرام خان یہیں مل سکتا تھا۔بہرام خان کے پاس پہنچ کر ا س نے اپنا مدعا بیان کیا تو بہرام خان یوں اچھلا جیسے اسے بچھو نے ڈس لیاہو۔
’’یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ ہم ابوجعفر کو کیسے گرفتار کرسکتے ہیں؟ وہ طبقہء امراء میں سے ہے اور اس کا تعلق براہ راست قصرِسلطانی تک ہے۔‘‘
قاسم نے بہرام کی بات سنی اور منہ بسور لیا۔ پھر کسی قدر غصے سے کہنے لگا۔ ’’اس کا تعلق قصرِسلطانی سے ہے تو کیا ہوا۔ خود سلطانِ معظم کا حکم ہے کہ ہر اس شخص کو بلا جھجک گرفتار کرلو جس کا ذرا سا بھی تعلق غداروں کے ساتھ محسوس ہو۔ میں ابوجعفر کو گرفتار کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یہ سراسر فرض سے کوتاہی ہوگی۔ قیصر کا جاسوس ہماری آنکھوں کے سامنے گھومتا رہے اور ہم کچھ نہ کرسکیں۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘
بہرام ، ابوجعفر کو گرفتار کرنے میں حائل تھا۔ وہ اتنا بڑا خطرہ مول لینے سے گھبراتاتھا۔ شاطر ابوجعفر نے اپنی خوشامد پسندی کی بدولت شہزادہ علاؤالدین سمیت بہت سے عمائدین سلطنت کو اپنا گرویدہ کر رکھا تھا ۔ بہرام سوچتا تھا ابوجعفر پر ہاتھ ڈالا تو بڑے بڑے وزراء اور شہزادے اس کی حمایت میں دوڑے چلے آئیں گے۔ اس نے کچھ دیر سوچنے کے بعد قاسم سے کہا۔
’’قاسم بن ہشام !میں تمہارے ہمراہ چل کر ابوجعفر جیسے شخص کو حراست میں نہیں لے سکتا۔ اب اگر میں نے ابوجعفر کو پکڑا تو شہزادہ علاؤالدین مجھے زنجیریں پہنا دیے گا۔‘‘
اب قاسم پچھتا رہاتھا کہ اس نے سلطان کو ہدایات دینے سے منع کیوں کر دیا تھا ۔ اسے سلطانی دماغ کی باریک بینی اور دوراندیشی اب دکھائی دینے لگی ۔ وہ سمجھ رہاتھا کہ سلطان محض سپاہی ہے، لیکن اب اسے یقین ہونے لگا کہ سلطان صرف سپاہی نہیں بلکہ ایک دانا وبینا مدبر بھی ہے۔ اسے اپنی عاقبت نااندیشی کا احساس ہوا۔ آج اگر سلطان نے بہرام کو حکم دے رکھا ہوتا تو اسے یہ مشکل پیش نہ آتی۔ اس نے آخری کوشش کے طور پر بہرام سے پھر کہا۔
’’بہرام خان! سلطان نے تمہاری موجودگی میں سردربار مجھے شاہی سراغ رساں مقرر کیا ہے۔ میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ ابوجعفر کو گرفتار کرنے کے لیے میری مدد کرو۔‘‘
اب بہرام بغلیں جھانکنے لگا۔ یہ سچ تھا کہ سلطان نے جب قاسم کو شاہی سراغ رساں مقرر کیا تھا تو بہرام خان بھی دربار میں موجود تھا۔ بہرام خان اس وقت محض اس لیے پس و پیش سے کام لے رہاتھا کہ سلطان نے اسے خصوصیت کے ساتھ محکمہ جاتی حکم جاری نہیں کیاتھا۔ جونہی قاسم نے دربار میں سلطان کا زبانی کا حکم بہرام کو یاد دلایا تو اس کے سارے کل پرزے درست ہوگئے۔ اس نے بجھے بجھے سے لہجے میں کہا۔
’’ٹھیک ہے قاسم بن ہشام!.........میں تمہاری ذمہ داری پر یہ کام کرنے کے لیے تیار ہوں ۔ لیکن یاد رکھو! اگر شہزادہ علاؤ الدین نے مجھے حکم دیا تو میں ابوجعفر کو فی الفور چھوڑ دوں گا۔‘‘
قاسم نے بہرام خان کی اس قدر آمادگی بھی غنیمت جانی اور فوراً کہا:۔
’’ٹھیک ہے، شہزادہ علاؤالدین کے کہنے پر تم بے شک ابوجعفر کو رہا کردینا۔‘‘
اس کے بعد قاسم نے بہرام خان کے ساتھ ابوجعفر پر دھاوا بولنے کے باقی معاملات اور وقت کے تعین پر خاصی دیر بات چیت کی۔ یہاں تک کہ سہ پہر ڈھلنے لگی۔ یہاں سے فارغ ہونے کے بعد قاسم بجلی کی رفتار سے کرائے کے اصطبل پہنچا اور لالہ شاہین کی یادگار جانے کے لیے گھوڑا حاصل کیا۔ سہہ پہر ڈھلنے سے پہلے وہ یاد گار کے درواذے پر تھا 


 

No comments:

Post a Comment