اللہ والوں کے قصّے.><.. قسط نمبر 18.

حضرت سری سقطیؒ کے ایک مُرید فرماتے ہیں کہ حضرت سری سقطیؒ کے ہاں ایک عورت ان کی شاگرد رہتی تھی اور اُس عورت کا ایک لڑکا کسی معلّم کے پاس پڑھتا تھا۔ایک روز معلّم نے اس عورت کے لڑکے کو پن چکی پر بھیج دیا۔وہ لڑکا پانی میں ڈوب گیا
معلّم نے لڑکے کے ڈوب کر مرنے کی اطلاع حضرت سری سقطیؒ کو دی۔اس پر حضرت سری سقطیؒ اپنے ساتھیوں سمیت اس عورت کے پاس آئے اسے صبر کے بارے میں بہت کچھ سنایا۔اس کے بعد خدا کی رضا کے بارے میں فرمایا۔
اس عورت نے سب کچھ سننے کے بعد عرض کیا۔’’حضرت!آپ کا ان باتوں سے کیا تعلق ہے
آپ نے فرمایا ’’تمہارا بیٹا پانی میں ڈوب گیا ہے۔‘‘
بولی ۔’’میرا بیٹا؟‘‘
سری سقطیؒ بولے۔’’ہاں تیرا بیٹا۔‘‘
اس پر وہ بڑے وثوق سے بولی۔ہر گز نہیں۔حق تعالیٰ نے ایسا نہیں کیا۔‘‘
حضرت سری سقطیؒ بولے۔’’اس میں کوئی شک نہیں ہے ،تمہارا بیٹا واقعی ڈوب گیا ہے
وہ بولی ۔’’اگر فی الواقعہ یہ بات درست ہے تو آپ مجھے اس موقع پر لے چلیں‘‘۔
اس پر سری سقطیؒ اور انکے ساتھی اس عورت کو لیکر نہر پر گئے اور بتایا کہ تمہارا بیٹا اس جگہ ڈوبا ہے۔
اس پر اس عورت نے اپنے بیٹے کا نام لیکر اسے پکارا۔’’بیٹا محمد!‘‘اسے فوراً ہی اپنے بیٹے کی جانب سے جوب ملا۔امّاں!میں یہاں پانی میں ہوں۔‘‘یہ آواز سن کر وہ عورت پانی میں اتری اور اپنے بیٹے کا ہاتھ پکڑ کرپانی سے باہر لے آئی پھر اسے لیکر اپنے گھر چلی گئی
اس عجیب و غریب واقعہ پر حضرت سری سقطیؒ نے حضرت جنیدؒ کی طرف توجہ فرمائی اور عرض کیا کہ یہ کیا قصّہ ہے؟
حضرت جنیدؒ نے فرمایا ۔’’یہ عورت احکام الہٰیہ کے حلیہ سے اپنے آپ کو آراستہ و پیراستہ رکھتی ہے ۔اس کی برکت سے اﷲ تعالیٰ کا معاملہ اس کے ساتھ یہ ہے کہ اس کے متعلق جب کوئی واقعہ ہوتا ہے۔اسے پہلے اطلاع کی جاتی ہے اور اس غرق کے واقعہ سے اسے آگاہی نہیں دی گئی۔اس لیے اس عورت نے اس واقعہ سے انکار کیاتو نہایت و ثوق سے کہا کہ اﷲتعالیٰ نے ایسا ہرگز نہیں کیا۔ 
حضرت معروف کرخی ؒ کے ماموں کوتوال شہر تھے۔انہوں نے آپ کو جنگل میں اس حالت سے دیکھا کہ ایک کتا آپ کے پاس بیٹھا ہوا ہے اور ایک لقمہ خود کھاتے ہیں اور اس کو کھلاتے ہیں
یہ حالت دیکھ کر ماموں نے آپ ؒ سے کہا۔’’تم کو حیا نہیں آتی کہ کتے کو کھانا کھلا رہے ہو؟‘‘
آپ ؒ نے فرمایا۔’’حیا ہی کی وجہ سے میں اسے کھلا رہا ہوں۔‘‘ اور یہ کہہ کر جب آپ ؒ نے آسمان کی جانب دیکھا تو ایک پرندہ اپنی آنکھ اور چہرے کو پروں سے ڈھانپے ہوئے آپؒ کے دستِ مبارک پر آبیٹھا اور ماموں سے فرمایا۔
’’خدا سے حیا کرنے والی ہر شے حیا کرتی ہے۔‘‘
ایک مرتبہ حضرت ابو تراب نجشیؒ کو جنگل میں انڈا اور روٹی کھانے کی خواہش ہوئی۔لیکن اسی دم آپ راستہ بھول کر ایک ایسی جگہ جا پہنچے جہاں کچھ اہل قافلہ شور و غل مچا رہے تھے وہ انہیں تنہا دیکھ کر آگے بڑھے اور لپٹ کر بولے۔’’یہ وہی ہے جس نے ہمارا سامان چُرایا ہے
اتنا کہہ کرانہوں نے حضرت ابو تراب نجشی ؒ کوپیٹنا شروع کر دیا لیکن ایک بوڑھے نے انہیں شناخت کرلیا وہ لوگوں سے بولا۔’’یہ چوری نہیں کر سکتے، یہ تو بہت بڑے بزرگ ہیں۔‘‘یہ سن کر سب ان سے معافی کے خواست گار ہوئے لیکن انہوں نے لوگوں سے فرمایا۔’’اے لوگو!مجھے آپ لوگوں کی مار سے جو تکلیف پہنچی ہے اس کا شکوہ نہیں کیونکہ آج میرے نفس کو خوب ذلت کا سامنا کرنا پڑا۔‘‘
پھر اس بزرگ نے آپ کو اپنے گھر لے جا کر آپ کے سامنے انڈا اور روٹی رکھی لیکن آپ کو کھانے میں کچھ جھجھک محسوس ہوئی۔اسی وقت آپ کو ندائے غیبی آئی۔’’تجھے خواہش کی سزا مل گئی،اب کھانا کھالے لیکن تیرے نفس کشی کی خواہش سزا پائے بغیر کبھی پوری نہیں ہوگی



 

No comments:

Post a Comment