اللہ والوں کے قصّے۔<>۔۔قسط نمبر 19.


ٖٖٖٖٖٖٖ حضرت یحییٰ بن معاذؒ کے ایک بھائی بحیثیت مجاور کے مکہ معظمہ ممیں مقیم تھے۔انہوں نے مکہ سے آپ کو تحریر کیا۔

’’مجھے تین چیزوں کی تمنا تھا۔اوّل یہ کہ کسی متبرک مقام پر سکونت کا موقع مل جائے ،دوم یہ کہ میری خدمت کے لیے ایک خادم بھی ہو۔لہذا یہ دونوں خواہشیں پوری ہو گئیں۔اب تیسری خواہش صرف یہ ہے کہ مرنے سے قبل ایک مرتبہ آپ سے ملاقات ہو جائے ۔خدا سے دعا کیجئے کہ یہ تمنا بھی پوری ہو جائے۔‘‘

آپ نے اپنی بھائی کو یہ جواب روانہ کیا۔’’انسان کو تو بذات خود متبرک ہو نا چاہیے تا کہ اس کی برکت سے جائے قیام بھی متبرک ہو جائے۔دوسرے یہ کہ آپ کو تو خادم بننا چاہیئے تھا نہ کہ مخدوم۔سوم یہ کہ اگر آ پ خدا کی یاد سے غافل نہ ہوتے تو میں آپ کو ہرر گز یاد نہ آتا۔!لہذا یاد الہٰی میں بہن بھائی بیو ی بچے سب کو فراموش کر دینا چاہیئے کیونکہ وصال خداوندی کے بعد بندہ خود بخود سب کو بھول جاتا ہے اور اگر آپ خدا ہی کو نہ پا سکے تو پھر مجھ سے ملاقات بھی بے سود ہے۔‘‘ سُبحان اﷲ

ایک دفعہ شاہ کرمان نے حضرت شاہ شجاع کرمانی ؒ کی صاحبزادی کے ساتھ نکاح کرنے کا پیغام بھیجا تو آپؒ نے تین دنوں کی مہلت طلب کی۔

ان تین دنوں میں آپؒ مسجد کے چاروں طرف محض اس نیت سے چکر کاٹتے رہے کہ کوئی درویش کامل مل جائے تو وہ بیٹی کا نکاح اس سے کر دیں۔چنانچہ تیسرے دن ایک بزرگ خلوص قلب کے ساتھ مسجد میں نما ز ادا کرتے ہوئے مل گئے۔آپؒ نے اس سے دریافت کیا۔’’کیا تم نکاح کے خواہشمند ہو

انہوں نے جواب دیا۔’’میں تو بہت ہی بد حال ہوں،مجھ سے کون اپنی لڑکی کا نکاح کر سکتا ہے۔‘‘

آپؒ نے فرمایا۔’’میں اپنی لڑکی تمہارے نکاح میں دیتا ہوں۔‘‘

چنانچہ باہمی رضا مندی سے نکاح ہو گیا اور جب آپؒ کی صاحبزادی شوہر کے پاس پہنچیں تو دیکھا کہ ایک کوزے میں پانی اور ایک ٹکڑا سوکھی ہوئی روٹی کا رکھا ہے اور جب شوہر سے پوچھا کہ یہ کیا ہے تو انہوں نے کہا۔’’آدھا پانی اور آدھی روٹی کل کھائی تھی اور آدھی آج کیلئے بچا رکھی تھی

یہ سن کر جب بیوی نے اپنے والدین کے ہاں جانے کی خواہش کی تو شوہر نے کہا’’میں تو پہلے ہی سے جانتا تھا کہ شاہی خاندان کی لڑکی فقیر کے ساتھ گذارا نہیں کر سکتی۔‘‘لیکن بیوی نے جواب دیا۔

’’یہ بات نہیں ہے ،بلکہ میں تو اپنے والد سے یہ شکایت کرنے جارہی ہوں کہ انہوں نے مجھ سے یہ وعدہ کیا تھا کہ میں تیرا نکاح کسی متّقی سے کر رہا ہوں مگر اب مجھے معلوم ہوا کہ تو کھانا بچا کر کھاتا ہے۔یہ بات توکلّ کے قطعی منافی ہے لہذا اس گھر میں یا تو میں رہوں گی یا یہ روٹی رہے گی

ایک مرتبہ بلخ میں قحط سالی ہو گئی اسی دوران حضرت ابو علی شفیق بلخی ؒ نے ایک غلام کو بازار میں بہت خوش خوش جاتے ہو ئے دیکھا۔آپؒ نے اسے روک کر پوچھا۔

’’لوگ تو قحط سے برباد ہوئے پھر رہے ہیں مگرمگر تو کس بات پر خوش چلا جا رہاہے۔‘‘

اس پر غلام نے جواب دیا ’’میرے آقا کے یہاں بہت غلہ موجود ہے اور وہ مجھے کبھی بھوکا نہیں رکھے گا۔‘‘

آپؒ نے غلا م سے ہٹ کر اﷲ تعالیٰ سے عرض کی۔’’اے اﷲ!جب ایک غلام کو اپنے آقا پر اس قدر اعتماد ہے تو تیری ذات پر کیوں نہ اعتماد کروں جب کہ تو مالک الملک ہے

اتنا کہنے کے بعد حضرت ابو علی شفیق ؒ نے سختی کے ساتھ دنیا سے کنارہ کشی کر لی۔حتیٰ کہ آپ کا توکل معراج کمال تک جا پہنچا اور آپؒ اکثر فرمایا کرتے تھے۔‘‘میرا استاد تو ایک غلام ہے

 

No comments:

Post a Comment