عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا......۔۔۔قسط نمبر 27.

چند ماہ قبل جب ابوجعفر نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ اب اس کا کام ادرنہ میں مکمل ہونے والا ہے تو اس نے سلطنت عثمانیہ کے اس بہادر اور فعال شہزادے کو بھی ختم کرنے کا ارادہ کرلیا۔ کیونکہ سلطان مراد خان ثانی کے بعد یہی شہزادہ تھا جو اسلامی افواج کی قیادت کرسکتا تھا ۔ دوسرے شہزادے کی طرف سے ابوجعفر کو کوئی فکر نہ تھی۔ کیونکہ ایک تو وہ ابھی کم عمر تھا اور دوسرے ابوجعفر کا خیال تھا کہ شہزادہ محمد سلطانی کی اہلیت نہیں رکھتا ۔ یہی وجہ تھی کہ ابوجعفر نے شہزادہ علاؤالدین کے ساتھ تعلقات پیدا کر کے اپنے مختلف مذموم مقاصد پورے کئے تھے۔اور اب جب ابوجعفر کا کام ادرنہ میں قریب الاختتام تھا ، اس نے شہزادے کو سست اثر زہر کے ذریعے مارنا شروع کردیا
سلیم پاشا، شہزادہ علاؤالدین کا طبیب تھا جبکہ درحقیقت یہ شخص ابوجعفر کے بعد ادرنہ میں قیصر کے جاسوسوں کا سرغنہ تھا ۔ اور اہم بات یہ تھی کہ سلیم پاشا ابھی تک قاسم بن ہشام کی نظروں سے بھی بچا ہوا تھا
جونہی ابوجعفر ، مارسی کو لے کر رات کی تاریکی میں سلیم پاشا کے گھر پہنچا ، سلیم پاشا نے ذراسی دیر کیے بغیر مارسی کا علاج شروع کردیا۔ مارسی کا بہت زیادہ خون بہہ چکا تھا اور اس کے خوبصورت چہرے کا رنگ خزاں کے پتے جیسا زرد ہوچکا تھا۔ وہ کافی دیر سے بے ہوش تھی اور اس کی خوبصورت لمبی لمبی پلکیں اس کی موٹی موٹی آنکھوں کو ایسے چھپائے ہوئے تھیں جیسے وہ اطمینان کے ساتھ سور ہی ہو

بقیہ تمام رات سلیم پاشا ، مارسی کے زخموں کی بخیہ کاری اور مرمت کرتا رہا۔ صبح کے قریب جب اس نے ابو جعفر کو بتایا کہ البانیہ کی ہونے والی ملکہ خطرے سے باہر ہے تو ابوجعفر کے چہرے پر پہلی بار اس کی مخصوص مکروہ مسکراہٹ نظرآئی ۔ اب ابوجعفر کا منصوبہ مکمل ہوچکا تھا۔ اس نے ایک نظر مارسی کے چہرے پر ڈالی اور اسے نیند کی حالت میں دیکھ کر مطمئن ہوا۔ ابو جعفر کمرے سے باہر نکل آیا ۔ اس کے عقب میں سلیم پاشا بھی باہر چلا آیا۔ ابوجعفر نے سلیم پاشا سے کہا:۔

’’اچھا طبیب ! اب میں چلتا ہوں ۔ یہ لڑکی اب کچھ دن تمہارے پاس ہی رہے گی۔ اس کی حفاظت اور نگرانی تمہاری ذمہ داری ہے ۔ خداوند یسوع مسیح نے چاہا تو ہم اسے بہت جلد سکندر بیگ کے پاس پہنچا کر اپنا وعدہ پورا کردیں گے اور ہمارے اس کارنامے سے خوش ہوکر بہادر سکندر بیگ بھی اپنی افواج سمیت ہونیاڈے کے پرچم تلے چلا آئے گا۔ سلیم پاشا ! مجھے یقین ہے کہ یہ لڑکی تمہارے پاس کئی دن تک محفوظ رہ سکتی ہے

سلیم پاشا نے اثبات میں سر ہلایا اور کہا:۔

’’مقدس باپ ! آپ فکر مت کیجیے ۔ اب یہ لڑکی میرے پاس محفوظ ہے۔‘‘

ابو جعفر نے پھر کہا۔’’سناؤ !شہزادہ علاؤ الدین کا علاج کہاں تک پہنچا ؟ ‘‘ یہ جملہ کہتے ہوئے ابوجعفر کے چہرے پر انتہائی شیطانی مسکراہٹ دکھائی دے رہی تھی۔

سلیم پاشا نے بھی اسی انداز میں مسکراتے ہوئے جواب دیا ۔’’مقدس باپ !شہزادہ علاؤالدین بہت جلد دنیا کے دکھ درد سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آزاد ہونے والا ہے۔ میں نے اس کا علاج انتہائی احتیاط کے ساتھ کیا ہے

ابوجعفر ، سلیم پاشا کی بات سن کر اطمینان بھرے انداز میں سر ہلانے لگا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ وہ کتنا بڑا جاسوس ہے جس نے ادرنہ میں سلطان مراد خان ثانی کے خلاف ایک ہشت پہلو سازش کا آغاز کیا ۔ اور اب وہ سازش کامیابی کے ساتھ پایہء تکمیل کو پہنچنے والی ہے ۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اب وہ سلطان کے شاہی سراغ رساں اور بعض دیگر لوگوں کی نظروں میں آچکا ہے ، لہٰذا اب اسے ادرنہ کو چھوڑ نے کے لیے ہمہ وقت تیار رہنا چاہیے ۔ اس نے سوچا کہ اس کا نائب طبیب سلیم پاشا ابھی تک کسی کی نظروں میں نہیں آیا لہٰذا باقی ماندہ کام کی ذمہ داری سلیم پاشا کے سپرد کردی جائے تو بہتر ہے۔ یہی سوچ کر وہ سلیم سے کہنے لگا

سلیم ! میں سوچ رہا ہوں کہ اب ادرنہ میں میرا کام مکمل ہوچکا ہے ۔ میری بات غور سے سنو۔ یہ لڑکی جونہی چلنے کے قابل ہوتی ہے ، میں اسے لے کر البانیہ کی جانب روانہ ہو جاؤں گا۔ پیچھے ادرنہ میں بغاوت ، شہزادہ علاؤالدین اور قاسم بن ہشام کا قتل اور سلطان کا تختہ الٹنے کا کام تمہیں سنبھالنا ہوگا۔ تم ینی چری کے تمام عیسائی مجاہدوں سے واقف ہو اور ہماری سازش کے ساتھ متعلقہ تمام لوگوں کے ساتھ تمہارا رابطہ رہے گا۔ اس لیے تمہیں کوئی مشکل پیش نہ آئے گی۔‘‘

یہ سلیم پاشا کے لیے بہت بڑا اعزاز تھا ۔ اور ایک نازک ذمہ داری بھی ۔ اس نے مؤدبانہ انداز میں سرہلا کر ابوجعفر کو تسلی دی اور کہا۔’’مقدس باپ! آپ نے مجھے صلیب اعظم کی خدمت کا جو موقع دیا ہے میں اس سے بھرپور فائدہ اٹھاؤں گا اور ثابت کر دوں گا کہ آپ کا فیصلہ کس قدر درست تھا

اب ابوجعفر واپس جانے کے لیے مڑا ۔ رات بھر کی مشقت نے اسے تھکادیا تھا ۔ اب وہ جاکر آرام کرنا چاہتاتھا ۔ اس نے طبیب سلیم پاشا سے اجازت لی اور وہاں سے نکل آیا ۔ اس کے دونوں نقاب پوش ساتھی تو اسی وقت اپنے ٹھکانوں کی طرف چلے گئے تھے جب انہوں نے مارسی کو طبیب سلیم پاشا کے گھر پہنچا دیا تھا۔

سلیم پاشا بھی درحقیقت سلیم پاشا نہیں تھا ۔ یہ ’’لوگان‘‘ تھا ، ہنگری کا باشندہ ۔ گزشتہ چند سالوں سے ادرنہ میں مقیم تھا اور اپنے قد وقامت کا فائدہ اٹھا کر خو د کو ترک ظاہر کرتا تھا ۔ اس نے ادرنہ میں داخل ہو کر لوگو ں کو یہ بتایا کہ وہ ایک مایہ ناز طبیب ہے اور تاتاری علاقوں سے سلطنت عثمانیہ میں داخل ہوا ہے۔اس نے لوگوں کو یہ بھی بتایا کہ اس کا باپ امیر تیمور کے دربار میں شاہی طبیب اور جراح تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ طبقہء امراء کے لوگ بہت جلد اس سے متاثر ہوئے اور اسے اپنا خاص طبیب بنالیا ۔ مارسی ، سلیم پاشا کے پاس پہنچ چکی تھی اور ابھی تک نیند کی حالت میں تھی ۔ چنانچہ سلیم پاشا اپنی ادھیڑ عمر خادمہ کو مارسی کے بارے میں ہدایات دے کر خود بھی آرام کرنے کے لیے چلا گیا ۔

صبح قاسم کی آنکھ کھلی تو اسے محسوس ہوا کہ رات اس نے بہت بھیانک خواب دیکھا ہے ۔ اس کے جسم میں کسلمندی تھی اور دل کو کوئی انجانا سا دھڑکا لگا ہوا تھا ۔ لیکن اسے کچھ سمجھ نہ آئی کہ یہ کس قسم کا خواب تھا ۔ وہ خواب کے بارے میں سوچتا ہوا بستر سے اٹھا اور نماز فجر کی ادائیگی کے لیے مسجد کی جانب چل دیا ۔ نماز سے فارغ ہو کر وہ گھر آیا تو بچے جاگ چکے تھے ۔ عمر اور علی الترتیب پانچ اور تین سال کے تھے۔ عمر بالکل اپنے باپ پر گیا تھا جبکہ علی کی شکل سکینہ سے بہت ملتی تھی ۔ لیکن یہ دونوں بچے اپنے والدین سے زیادہ قاسم اور مارسی کے ساتھ مانوس تھے۔ گزشتہ کئی دنوں سے مارسی روزانہ قاسم کے گھر آرہی تھی ۔ اب وہ اس گھر کے ہر فرد کے ساتھ پوری طرح بے تکلف ہوچکی تھی۔ مارسی ایک شوخ اور چنچل لڑکی تھی یہی وجہ تھی کہ وہ چند ہی دنوں میں سارے گھر کی آنکھ کا تارا بن گئی تھی۔ قاسم کی ماں نے صبح ناشتے کے دستر خوان پر قاسم سے کہا۔

’’اب دیر کس بات کی ہے ۔ ہماری بیٹی غزالہ کو اب اس گھر میں آجانا چاہیے ۔ وہ وہاں اپنی عیسائی ماں کے پاس بے چین اور غیر محفوظ ہے۔‘‘

ماں کی بات نے قاسم کو چونکا دیا ۔ اسے یوں لگا جیسے علی الصبح اس کی ماں کے اس جملے اور اس کے گزشتہ رات کے خواب میں کوئی نہ کوئی مماثلت ضرور ہے ۔ اسے اچانک مارسی کا وہ جملہ بھی یاد آیا جب بہت عرصہ پہلے اس نے قاسم سے کہا تھا .........میں ہر وقت احساسِ عدم تحفظ کا شکار ہوں.......نہ جانے کیا ہوا کہ قاسم کا دل ناشتے سے اچاٹ ہوگیا ۔ اس نے کسی قدر ڈھیلے لہجے میں اپنی ماں کو جواب دیا ۔

’’ماں ! سچ تو یہ ہے کہ میں خود غزالہ کی طرف سے فکر مند ہوں ۔ لیکن سلطان کی واپسی سے پہلے میں اس قسم کا کوئی اقدام نہیں کرسکتا۔ سلطان نے مجھے اپنی عدم موجودگی میں ادرنہ کا نگران مقرر کیا ہے ۔ اگر میں دشمن پر نظر رکھنے کی بجائے شادی جیسے کام میں مصروف ہوجاؤں تو مجھے سلطان کے سامنے شرمندہ ہونا پڑے گا........بس کچھ ہی دنوں کی بات ہے ۔ جونہی سلطان اپنی مہم سے واپس آتا ہے ، ہم غزالہ کو لے آئیں گے ۔‘‘

قاسم کا ذہن کہیں اور تھا ۔ اس نے جو کچھ کہا اسے خود بھی اچھی طرح سنائی نہ دیا ۔ اب اس کے دماغ میں گزشتہ رات کا خواب پھر سے اپنے پنجے گاڑنے لگا تھا۔ اسے بے حد بے چینی ہورہی تھی۔ اسی اثناء میں دروازے پر دستک ہوئی۔

قاسم کے گھر مارسی کے علاوہ اور کوئی کم ہی آتا تھا ۔ دروازے کی پہلی دستک پر ہی قاسم کھل اٹھا۔ لیکن ایک دم اسے یہ سوچ کر حیرت ہوئی کہ اتنی صبح مارسی کو آنے کی کیا ضرورت پڑگئی ۔ وہ اچھل کر اٹھا اور تیزی سے بیرونی دروازے کی طرف لپکا ۔ لیکن یہاں اسے خفیہ محکمے کے سربراہ بہرام خان کو دیکھ کر جھٹکا لگا۔ اسے مارسی بھول گئی۔اور اس کے ذہن میں یہ خیال گھومنے لگا کہ شہر میں کہیں ابوجعفر کی بغاوت اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ اس نے اپنے پیچھے دروازہ بند کیا اور باہر نکل کر بہرام خان سے کہنے لگا:۔

’’خیریت ہے بہرام خان!تم؟...........اتنی صبح؟‘‘

لیکن بہرام خان کا چہرہ لٹکا ہوا تھا ۔ قاسم کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔اور اس کے اعصاب تن گئے وہ اپنے آپ کو ہر قسم کی خبر سننے کے لیے تیار کرنے لگا۔ بالآخر اس نے دوبارہ پوچھا:۔

’’تم کچھ بولے نہیں بہرام خان!؟ کیسے آنا ہوا اس وقت؟‘‘

بہرام خان نے کسی قدر جھجھکتے ہوئے ہونٹ کھولے۔

’’ آپ کے لیے اچھی خبر نہیں ہے، قاسم بن ہشام!...........میں آپ کو تھوڑی سی زحمت دینے آیا ہوں۔‘‘

بہرام خان کے لہجے سے قاسم کا ماتھا ٹھنکا۔ ضرور کوئی ایسی ویسی بات تھی۔ اس نے بہرام کے لہجے میں نہ صرف ہلکا سا طنز محسوس کیا بلکہ اس کا تحکمانہ انداز میں نظر انداز نہ کرسکا۔ لیکن اس نے بے جھجھک سوال کیا:۔

’’کیا مطلب؟.............تم کیا کہنا چاہتے ہو؟ کو ن سی خبر میرے لیے بری ہے۔‘‘

’’قاسم بن ہشام! البانوی کنیز کے گھر کسی نے شب خون مارا ہے۔ اسے حملہ آوروں نے پیٹ میں شمشیر گھونپ دی ہے۔ جبکہ اس کے ایک بوڑھے ملازم اور ایک نوعمر لڑکے کو بھی قتل کردیا گیا ہے۔ اس کی جوان بیٹی کو حملہ آور اٹھا کر لے گئے ہیں...........اور تمام تر حالات و شواہد پر غور کرنے کے بعد اس ہولناک واردات کی تفتیش کا رخ ایک شخص کی طرف جاتا ہے۔‘‘

اتنا کہہ کر بہرام خاموش ہوگیا ۔ ادھر اس ہولناک خبر سے قاسم کی دنیا گھومنے لگی تھی۔ اسے اپنے پیروں تلے زمین ہلتی ہوئی محسوس ہوئی۔ مارتھا ، اکبر اور بوڑھے خادم کے قتل کی خبر فی الحقیقت اس کے لیے لرزا دینے والی تھی۔ اب اسے بہرام خان کا تحکمانہ لہجہ بھو ل چکا تھا۔ اس نے یہ بھی نہ دیکھا کہ بہرام خان کے ہمراہ خفیہ محکمے کے چند سپاہی بھی تھے۔ وہ ابھی واقعے کی سنگینی کے سحر سے نکل بھی نہ پایا تھا کہ اسے چونکنا پڑا۔ بہرام خان کہہ رہا تھا .......قاسم بن ہشام ! گزشتہ کچھ دنوں سے البانوی کنیز کی بیٹی مارسی کا آنا جانا تمہارے گھر رہا ہے۔‘‘

’’بہرام خان کی نگاہیں اس سے بے خبر نہیں .........جبکہ یہ بھی مجھے معلوم ہے کہ تم اور تمہاری ساتھی لڑکی البانوی کنیز مارتھا کو ناپسند کرتے تھے۔ اس لڑکی کا زندہ غائب ہوجانا اور مارتھا کا بے رحمی سے قتل ہوجانا اسی طرف اشارہ کرتا ہے کہ میں تمہیں فی الفور حراست میں لے لوں۔‘‘

اب قاسم کی کنپٹیاں تمتما اٹھیں۔ اس کے بدن کی لوئیں کھڑی ہوگئیں۔ اور ایک لمحے کے لیے گھبرائے بغیر اس نے سخت غصے سے کہا:۔

’’کیا ؟؟؟ تم کیا بکواس کر رہے ہو؟ تم اصل جاسوسوں کو چھوڑ کر میری نگرانی کرتے پھر رہے ہو۔ اس قدر سنگین حادثہ ہوچکا ہے۔ میں سلطنت کا شاہی سراغ رساں ہوں۔ اور یہی وقت ہے کہ میں مجرموں کی گردن تک پہنچوں ..........تم اس وقت مجھے حراست میں لینے کی بات کر رہے ہو۔‘‘

قاسم کی زبان سے شعلے برس رہے تھے۔ لیکن بہرام خان نے آنِ واحد میں اپنی شمشیر برہنہ کرلی۔ اور بجلی کی طرح کڑک کرکہا:۔

’’قاسم بن ہشام ! تم بہرام خان کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونک سکتے ۔ میں تمہاری گرفتاری کا مکمل بندوبست کرکے آیا ہوں۔ میں نے واردات کی تفتیش مکمل کر لینے کے بعدسب سے پہلے شہزادہ علاؤالدین سے رجوع کیا ۔ اور شہزادہ حضور نے ذاتی طور پر مجھے حکم دیا کہ تمہیں فی الفور گرفتار کرلوں۔ میں سیدھا قصرِ سلطانی سے یہاں پہنچا ہوں۔‘‘

اب قاسم کے ہوش ٹھکانے آئے ۔ اسے احساس ہوا کہ وہ بری طرح پھنس چکا ہے ۔ اس نے سوچا ! اس مرتبہ پھر گرفتار ہونا سلطنت کے لیے بے حد نقصان دہ ہے۔ حالات بتاتے ہیں کہ دشمن اپنی سازش کے آخری مرحلے تک پہنچ چکا ہے۔ اس نے یہ بھی سوچا کہ اب شہزادہ علاؤالدین اسے باعزت طریقے سے نظر بند نہیں کرے گا۔ بلکہ ہوسکتا ہے ۔ اسے تہرے قتل کے الزام میں جلاد کے حوالے کر دے۔ چنانچہ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ ان حالات میں کسی قیمت پر بہرام خان کے ہاتھ نہیں آئے گا


 

No comments:

Post a Comment