عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا---------۔۔۔قسط نمبر 29.

طاہر کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ لیکن نہ جانے ملکہ نے کہاں سے ہمت پاکر شہزادہ علاؤ الدین کو اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ اور کہا:۔

’’بالکل غلط!........بہرام خان کی تفتیش بالکل غلط ہے۔ ہم پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ البانوی کنیز مارتھا کا قتل اور اس کی بیٹی کا اغواء قاسم بن ہشام نے نہیں کیا ۔ بلکہ قیصر کے ان جاسوسوں نے کیا ہے جو نہ صرف ادرنہ میں بغاوت برپا کرنا چاہتے ہیں بلکہ اپنے سب سے بڑے دشمن قاسم بن ہشام کو بھی اپنے راستے سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ علاؤالدین ! آپ جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہ کیجیے۔ سلطانِ معظم نے کچھ دیکھ کر ہی قاسم بن ہشام کو شاہی سراغ رساں مقرر کیا تھا 

شہزادے کو ملکہ کی بات ناگوار گزری ۔ اور اس کی بھنویں سکڑ گئیں۔ اس نے کسی قدر خشک لہجے میں کہا:۔

’’ملکہ معظمہ! امورِ سلطنت میں ہماری نگاہیں اس جگہ تک دیکھ لیتی ہیں جہاں تک محل کی معزز خواتین نہیں دیکھ سکتیں۔ آپ قاسم بن ہشام کی اس قدر طرفداری کن وجوہات کی بناء پر کرتی ہیں۔ جبکہ ہمارے پاس اس کے جرم کے ناقابلِ تردید ثبوت موجود ہیں

شہزادے کے لہجے سے ملکہ اپنی جگہ پر کانپ گئی۔ اچانک کمرے میں موجود طبیب سلیم پاشا نے آگے بڑھ کر مؤدب انداز میں شہزادے سے کہا:۔

’’شہزادہ حضور ! ملکہ معظمہ کی ہمدردی قاسم بن ہشام کے ساتھ نہیں بلکہ مارتھا بیگم کے ساتھ ہوسکتی ہے۔ کیونکہ ملکہ معظمہ یقیناً البانوی کنیز مارتھا بیگم کے ساتھ علاقائی انس رکھتی ہیں۔ چنانچہ ملکہ معظمہ کی بات نظرانداز کرنے کے قابل نہیں۔‘‘

ملکہ پر فی الحقیقت یہ گہرا طنز تھا ۔شہزادہ محمد بھی یہ طنز محسوس کیے بغیر نہ رہ سکا۔ اور شہزادہ علاؤالدین تو سلیم پاشا کی بات سے بری طرح برافروختہ ہوگیا ۔ اس نے سلیم پاشا کو ڈانٹتے ہوئے کہا

طبیب ! تم جانتے ہو تم ملکہ معظمہ کی طرفداری کے پیرائے میں کس قدر غلط بات کہہ رہے ہو۔ ملکہ معظمہ کو کسی البانوی کنیز کے ساتھ ہم سے زیادہ علاقائی انس نہیں ۔ ہم تمہاری بات سے بے حد مشتعل ہوئے ہیں۔ ‘‘

بیمار شہزادے نے سلیم پاشا پر آنکھیں نکالتے ہوئے کہا۔ تو سلیم پاشا کی ٹانگیں کانپنے لگیں۔ وہ کسی مکار خوشامد پرست کی طرح گڑگڑاتے ہوئے ملکہ معظمہ کے حضور کمر تک جھک گیا ۔ اور منمناتی ہوئی آواز میں کہنے لگا:۔

’’ملکہ معظمہ ! یہ حقیر اور کم تر شخص اپنی کج گفتی پر بے حد نادم و شرمسار ہے۔ میرا کہنے کا مطلب ہر گز یہ نہ تھا ۔ جو میرے الفاظ سے ظاہر ہوا۔ میں دل و جان سے معافی کا خواستگار ہوں

ملکہ نے سلیم پاشا کی گڑ گڑاہٹ کو نظر انداز کرتے ہوئے شہزادہ علاؤالدین سے کہا:۔

’’علا ؤ الدین ! اس وقت ادرنہ کو دشمنوں کا خطرہ درپیش ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ تیزرفتار قاصد کے ذریعے سلطانِ معظم سے براہِ راست ہدایات حاصل کرلیں.....ہم مارتھا بیگم کو اچھی طرح جانتے تھے۔ اور اس کے پاس آنے جانے والے خطیبِ مغرب ابوجعفر کے بارے میں بھی کافی خبر رکھتے ہیں۔ ہمارا اب بھی یہی خیال ہے کہ آپ قاسم پر گرفت کی بجائے ابوجعفر پر گرفت فرمائیے۔‘‘

ملکہ نے شہزادے کے پہلے لب و لہجے کو بھلا کر دوبارہ اپنے مطلب کی بات کردی۔حتیٰ کہ ابوجعفر کی گرفتاری کا مشورہ بھی دے دیا۔ اب شہزادہ محمد نے ملکہ کو سہارا دینا چاہا اور بھائی سے کہا

بھائی جان! ہم قاسم بن ہشام کے دوست کی حیثیت سے دعوے کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ قاسم جیسا سرفروش مجاہد اسلامی سلطنت کا دشمن نہیں ہوسکتا۔‘‘

شہزادہ محمد کی بات سے سلیم پاشا جز بز ہوکر رہ گیا۔ اب طاہر کی بھی کسی حد تک ڈھارس بندھی ۔ لیکن شہزادہ علاؤالدین کسی کی کوئی بات ماننے کے لیے تیار نہ تھا ۔ اس نے سب کو نظرا نداز کرکے براہ راست بہرام خان سے قاسم کی گرفتاری اور فرار کا واقعہ دریافت کیا ۔ بہرام خان اب بھی طاہر بن ہشام کو آتش ناک نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔ اس نے آگے بڑھ کر شہزادے کے سامنے مؤدب لہجے میں کہا

شہزادہ حضور ! ہم نے قاسم بن ہشام کو گرفتار کر لیا تھا ۔ لیکن اس کے بھائی طاہر نے عین وقت پر شمشیر بکف ہوکر میرے سپاہیوں پر حملہ کردیا ۔اور اسی موقع سے فائدہ اٹھا کر قاسم بن ہشام فرار ہوگیا ۔‘‘

’’لیکن بہرام خان!..........وہ لڑکی کہاں ہے۔ جیسے تمہارے بقول قاسم نے اغواء کیا ہے؟....کیا قاسم کے پاس سے وہ لڑکی یا واردات کی کوئی اور نشانی برآمد ہوئی؟‘‘

شہزادہ علاؤالدین نے بہرام خان سے یہ سوال کیا۔ تو سلیم پاشا اپنی جگہ پر دہل کر رہ گیا ۔ مارسی اسی کے گھر میں تھی۔ لیکن کسی کی توجہ اس کی جانب مبذول نہ ہوئی۔ البتہ ! شہزادے کے سوال پر بہرام خان بغلیں جھانکنے لگا۔ مارسی کو قاسم نے اغواء کیا ہوتا تو وہ ملتی ۔ بہرام نے بہت تلاش کیا ۔ لیکن مارسی کو نہ ملنا تھا اور نہ ملی۔ لیکن اب بہرام خان سے شہزادے نے مارسی کے بارے میں پوچھ لیاتھا ۔ تو بہرام خان نے شکست خوردہ لہجے میں کہا:۔

’’ شہزادہ حضور! میں شرمندہ ہوں کہ لڑکی بھی بازیاب نہیں سکی۔‘‘

کمرے کی فضا بڑی عجیب تھی۔ شہزادہ بیمار اور نحیف تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ ملکہ اور محمد مزید کچھ نہ کہنا چاہتے تھے۔ بالآخر شہزادے نے دوبارہ لیٹتے ہوئے بہرام خان سے کہا:۔

’’بہرام خان! وہ لڑکی ملنی چاہیے۔ ادرنہ کا کوناکونا چھان مارو۔ قاسم گنہگار ہے یا بے گناہ اسے آج شام تک ہمارے سامنے پیش کرو۔ ہم بے چینی کے ساتھ تمہاری خبر کا انتظار کریں گے۔‘‘

شہزادہ تھک چکا تھا ۔ ابوجعفر کے سست اثر زہر نے شہزادے کو کھوکھلا کردیا تھا ملکہ نے محسوس کیا کہ شہزادہ مزید باتیں کرنے کی ہمت نہیں پارہا تو وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ اور اس نے جانے کی اجازت لیتے ہوئے کہا:۔

’’علاؤالدین ! آپ ان واقعات کا کچھ اثر نہ لیجیے۔ اس طرح کے واقعات شہزادوں کی صحت و زندگی پر اثر انداز نہیں ہوا کرتے ۔ آپ ہمارے مشورے پر سلطانِ معظم کی جانب قاصد بھیجیے۔ انشاء اللہ تمام معاملات درست ہو جائیں گے۔‘‘

شہزادہ محمد ، طاہر اور ملکہ معظمہ علاؤالدین کے کمرہ خاص سے جانے لگے تو شہزادے نے ایک دم طاہر کو اپنی جانب متوجہ کرلیا۔

طاہر بن ہشام ! سلطنت کے مجرم کو فرار کروانا بہت بڑا جرم ہے۔ لیکن ہم تمہیں ملکہ معظمہ کے ہمراہ دیکھ کر معاف کرتے ہیں۔ اب تمہارا فرض ہے کہ تم بہرام خان کے ساتھ قاسم اور اس لڑکی کی بازیابی میں مدد کرو۔‘‘

شہزادے کی بات سن کر طاہر نے پھیکے سے انداز میں سرہلایا اور ملکہ کے عقب میں واپسی کے لیے چل دیا۔

طاہر قصرِ سلطانی سے فارغ ہوکر سیدھا گھر آیا ۔ وہ بے حد پریشان تھا ۔ گھر آیا تو سب نے قاسم کی بابت پوچھا ۔ طاہر نے مختصراً بتایا کہ قاسم سلامت ہے اور جلد آجائے گا۔ لیکن در حقیقت وہ خود مطمئن نہیں تھا ۔ وہ باقی تمام دن قاسم کے سفر اور اس کے حالات کے بارے میں سوچتا رہا۔ رات ہوئی تو طاہر کی بے چینی اور بڑھ گئی۔ اپنے اہل خانہ کو تو اس نے کسی نہ کسی طرح مطمئن کردیا تھا ۔ لیکن وہ خود بستر پر لیٹا کروٹوں پر کروٹیں بدلتا جارہا تھا ۔ اس کی تمام رات اسی حالت میں کٹ گئی لیکن قاسم تو اگلے دن بھی لوٹ کر نہ آیا ۔ 

آج قاسم کو غزالہ کی بازیابی کے لیے البانیہ کے راستے پر روانہ ہوئے کئی دن گزر چکے تھے...آج صبح ہی طاہر کو خبر مل چکی تھی کہ سلطان لوٹ آیا ہے۔ یہ خبر طاہر کے لیے انتہائی خوش کن اور حوصلہ افزاٗ تھی۔ لیکن قاسم کی گم شدگی اس کے لیے متواتر پریشانی کا باعث بنی ہوئی تھی۔ اس نے سوچا کہ اسے آج ہی سلطان سے مل کر تمام حالات بیان کر دینے چاہییں ۔ تاکہ قاسم اور غزالہ کی تلاش کے سلسلے میں کوئی خاطر خواہ قدم اٹھایا جاسکے۔

وہ سلطان سے ملا۔ سلطان نے اس کی تمام باتیں غور سے سنیں ۔ لیکن کچھ خاص دلچسپی کا مظاہر نہ کیا ۔ بس اتناکہا:۔

’’طاہر بن ہشام ! تم اطمینان سے اپنے گھر میں رہو۔ ہماری نظر تمام حالات پر ہے۔ ہم وعدہ کرتے ہیں۔ تمہارے بھائی کو کچھ نہ ہوگا۔ تمہیں مزید فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔‘‘

طاہر کے لیے سلطان کی بات بظاہر گول مول تھی۔ لیکن پھر بھی طاہر کو ایک بے نام سا حوصلہ محسوس ہونے لگا۔ اس بار وہ گھر لوٹا ۔ تو اس کی پریشانی آدھی سے زیادہ کم ہوچکی تھی۔

سلطان قونیا کی بغاوت کا کامیابی کے ساتھ سر کچلنے کے بعد لوٹا تھا ۔ امیر کرمانیا نے سلطان کے لشکر کا سامنا کسی ایک جگہ پر جم کر نہ کیا ۔ بلکہ سلطان کو ایشیائے کوچک کے مختلف علاقوں میں دوڑاتا رہا ۔ اور خود آگے آگے بھاگتا رہا۔سلطان نے بالآخر امیرِ کرمانیا کو سخت شکست دی۔ اور واپس ادرنہ لوٹ آیا۔ اسے طے شدہ منصوبے کے تحت ’’قونیا‘‘ کی مہم سر کرکے بہت جلد شہاب الدین پاشا کی مدد کو روانہ ہونا تھا ۔ لیکن امیرِ کرمانیا کے ساتھ معرکے لڑتے لڑتے اسے اس قدر دیر ہوگئی کہ شہاب الدین پاشا ’’وازاگ‘‘ کے مقام سے لے کر وادیء بلقان تک شکست کھاتا چلا گیا ۔ سلطان کو شہاب الدین پاشا کے لشکر کی شکست کی خبر ایشیائے کوچک میں ہی مل چکی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ بہت تیزی کے ساتھ ادرنہ لوٹ آیا تھا ۔ ہونیاڈے سے جنگ کے دوران سلطان کا بہنوئی محمد چلپی بھی گرفتار ہوچکاتھا ۔ سلطان ادرنہ کے محل میں لوٹ آیا ۔ تو اس کی مغموم بہن اس کے سامنے آئی ۔ اور اپنے بچوں کا واسطہ دے کر سلطان سے کہا کہ وہ جس طرح بھی ہو محمد چلپی کو دشمن کی قید سے آزاد کروائے۔ ادھر سلطان کا بڑا بیٹا علاؤالدین بسترِ علالت پر تھا ۔ جس کی وجہ سے سلطان کے پیروں میں شفقتِ پدری کی زنجیر پڑ چکی تھی۔ اسے محل میں لوٹنے سے پہلے بلکہ ادرنہ میں پہنچنے سے بھی پہلے ادرنہ کے تمام حالات معلوم ہوچکے تھے۔ وہ محل میں لوٹا تو اسے شہزادہ علاؤالدین کی حالت دیکھ کر تمام مسائل بھول گئے۔ سلطان محسوس کر رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے بڑی بڑی آزمائشوں میں ڈال دیا ہے ۔ اس نے بیمار شہزادے سے قاسم یا ابوجعفر کے بارے میں کوئی سوال نہ کیا ۔ وہ ان مشکل حالات سے عہدہ برا ہونے کے لیے بالآخر راتوں کو جاگ جاگ کر رب العالمین کے حضور جھکنے لگا۔ صوم وصلوٰ ۃ کا تو وہ پہلے ہی سے پابند تھا ۔ لیکن اب تو وہ اس نے اپنا زیادہ تر وقت اللہ رب العزت کے حضور گڑ گڑانے میں گزارنا شروع کردیا ۔ ایک حیرت کی بات یہ تھی کہ اس نے ابھی تک ابوجعفر یا بہرام خان سے کچھ تعرض نہ کیا تھا ۔ خود ابوجعفر کو سلطان کے اس رویے پر حیرت تھی۔ حالانکہ شہزادہ علاؤالدین کے طبیب سلیم پاشا نے اسے بتادیاتھا کہ سلطان سب کچھ جان چکا ہے۔ سلیم پاشا کو بھی حیرت تھی کہ سلطان کو محل میں آنے سے پہلے تمام باتوں کی خبر کیسے ہوگئی۔ اب ابوجعفر پہلے سے بھی زیادہ محتاط تھا ۔ وہ ایک انتہائی چالاک اور کایاں شخص تھا ۔ اس کی چھٹی حس تو پہلے ہی بیدار رہتی تھی۔ لیکن اب تو اس کے رونگٹے اور کان بھی ہمہ وقت استادہ رہنے لگے تھے۔اسے ہر آن اپنی گرفتاری کا خطرہ تھا ۔ قاسم کی گم شدگی اور سلطان کی پراسرار خاموشی کسی بہت بڑے طوفان کا پیش خیمہ تھی۔ اب ابوجعفر سوچنے لگا تھا کہ وہ منصوبہ بندی جو اس نے پہلے سے کر رکھی تھی۔ اب شاید مکمل طور پر کارگر ثابت نہ ہو۔ اس نے سوچنا شروع کردیا کہ اسے فوری طور پر اپنے منصوبہ پر عمل کر دیناچاہیے....اس کی سمجھ سے سلطان کی خاموشی بالا تر تھی۔ قصرِ سلطانی میں موجود اس کے کارندے اسے پل پل کی خبر دیتے رہتے تھے۔ جن میں سر فہرست سلیم پاشا تھا ۔ ایک روز سلیم پاشا نے ابوجعفر کو بتایا کہ سلطان نے اپنے بہنوئی محمد چلپی کی رہائی کے سلسلے میں صلیبی افواج کے سپہ سالار ہونیاڈے کے ساتھ خط وکتابت شروع کردی ہے۔ ...یہ خبر ابو جعفر کے لیے غیر متوقع نہیں تھی۔ اسے پہلے ہی اندازہ تھا کہ سلطان کی بہن سلطان کو مجبور کردے گی کہ وہ ہونیاڈے سے محمد چلپی کی رہائی کی بات چیت کرے۔ چنانچہ اس نے حیرت کا اظہار کے بغیر کہا:۔

’’لیکن کیا سلطان نے ہونیاڈے سے انتقام لینے اور ہنگری پر لشکر کشی کا ارادہ ترک کردیا ہے؟‘‘

ابوجعفر کی بات پر طبیب سلیم پاشا نے کہا:۔

’’نہیں ! سلطان صلیبی لشکر کے خلاف ہمہ وقت تیاریوں میں مصروف ہے۔ اپنے بہنوئی کی رہائی اس نے صرف سفارتی سطح پر چاہی ہے...آجکل سلطان چاروں طرف سے مصیبتوں سے گھر چکا ہے۔ اس کا بیٹا علاؤالدین بھی اب بہت جلد اس کی جانشینی کے قابل نہیں رہے گا۔ ان حالات میں اگر کسی طرح سلطان کو ہلاک کردیا جائے ۔ تو یوں سمجھیے! سلطنتِ عثمانیہ کا باب مکمل طور پر بند ہوجائے گا۔‘‘

سلیم پاشا کی بات سننے کے دوران ابوجعفر مسلسل زہریلے انداز میں مسکراتا رہا۔ اور پھر اس نے کہا:۔

’’یہ تم کیسے کہہ سکتے ہو۔ سلطان کا چھوٹا بیٹا شہزادہ محمد خان بھی تو عنقریب جوان ہونے والا ہے۔‘‘

’’نہیں مقدس باپ ! محمد خان ایک تو ابھی چھوٹا ہے۔ سلطان کی ہلاکت کے بعد وہ تختِ حکومت نہ سنبھال سکے گا۔ اور دوسری بات یہ کہ وہ نااہل اور کم عقل ہے ۔ اصل خطرہ تو ہمیں شہزادہ علاؤالدین سے تھا ۔ جواب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ٹل چکا ہے۔‘‘

ابوجعفر بہت مسرور تھا ۔ سلیم پاشا کی باتوں سے اسے یوں لگتا تھا جیسے ادرنہ کا کھیل درحقیقت اسی کے ہاتھ میں ہے۔ لیکن اچانک اسے سلطان کی پراسرار خاموشی کی یا د آئی اور وہ بے چین ہوگیا ۔ اس نے سلیم پاشا سے کہا:۔

’’لوگان ! میری چھٹی حس سلطان کی طرف سے مطمئن نہیں۔ مجھے ہر گھڑی یوں لگتا ہے جیسے سلطان کے آدمیوں کی خفیہ نگاہیں میری نگرانی کررہی ہیں۔ مجھے یوں بھی لگتا ہے کہ قاسم بن ہشام میرے آس پاس ہی کہیں موجود ہے...آج میں نے تمہیں اس لیے بلایا تھا کہ تم سے مارسی کی صحت کے بارے میں دریافت کرسکوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب مجھے ادرنہ میں مزید نہیں رکنا چاہیے۔‘‘

سلیم پاشا نے پورے غور سے ابوجعفر کی بات سنی اور یہ سوچ کر کہ ابوجعفر جانا چاہتا ہے اسے گھبراہٹ ہونے لگی۔ وہ جانتا تھا کہ ابوجعفر کے چلے جانے کے بعد ادرنہ میں قیصر کے کام کی تمام تر ذمہ داری اسی پر عائد ہوجائے گی۔ اس نے متفکر لہجے میں ابوجعفر سے کہا:۔

’’مقدس باپ ! مارسی اب بالکل ٹھیک ٹھاک ہے۔ البتہ طویل سفر اور گھوڑے کی سواری سے ہوسکتا ہے اس کے زخم کھل جائیں۔ بہتر تو یہ ہوتا کہ آپ اسے کسی آرام دہ سواری میں البانیہ کی جانب لے چلتے ....آپ چلے جائیں گے لیکن میں سوچتا ہوں کہ ادرنہ میں آگ کے شعلے بڑھکانے کاکام کس وقت شروع کیا جائے گا۔‘‘

’’لوگان تم فکر مت کرو ۔ ابوجعفر کچی گولیاں نہیں کھیلتا ۔ میں نے تمام بندوبست کررکھا ۔ مجھے تو سلطان کے ردعمل کا انتظار تھا ۔ یاد رکھو ! ادرنہ میں بغاوت پھیلانے کا اصل مقصد یہ ہے کہ سلطان مقدس صلیبی لشکروں کے خلاف کوچ کرنے کی ہمت ہی نہ کرسکے ۔ اسے اپنے دارالسلطنت میں اتنے مسائل پیش آجائیں کہ وہ ہونیاڈے سے انتقام لینے کا خیال ہی ترک کردے۔ اگر ہمیں یہ مقاصد شہر میں ہنگامہ اٹھائے بغیرپورے ہوتے نظر آتے ہیں توہمیں وقتی طور پر بغاوت پھیلانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس کے برعکس تم سلطان کو زہر دے کر ہلاک کرنے کی منصوبہ بندی پر غور کرو....لیکن اگر سلطان ہونیاڈے کے خلاف اپنا ناقابلِ تسخیر لشکر لے کر روانہ ہونے کی کوشش کرے تو تمہاری ذمہ داری یہ ہوگی کہ تم ینی چری میں موجود اپنے عیسائی بھائیوں کو بلوے اور فسادات کا آخری اشارہ دے دو گے۔شہر میں جگہ جگہ آگ کے شعلے اٹھ کھڑے ہوئے ، تو سلطان کا کوچ کرتا ہوا لشکر خود بخود رک جائے گا۔ ‘‘

سلیم پاشا حیرت زدہ آنکھوں کے ساتھ قیصر کے اس جاسوس کی باتیں سن رہاتھا ۔ وہ ابوجعفر کی منصوبہ بندی اور حکمتِ عملی کی داد دیے بغیر نہ رہ سکا۔ اب اس کے سامنے صورتحال واضح تھی۔ ابوجعفر کے چلے جانے کے بعد اسے سلطان کے ارادوں پر نظر رکھنی تھی۔ اگر سلطان صلیبی لشکروں کے خلاف کوچ سے باز رہتا تو ینی چری کی بغاوت کو وقتی طور پر روکنا سلیم پاشا کی ذمہ داری تھی۔ اور اگر سلطان کوچ کا ارادہ کرتا تو ادرنہ کو فسادات اور خون ریزی کے حوالے کرنا بھی سلیم پاشا کا کام تھا ۔ اس کے سامنے سب سے مشکل کام سلطان کے قتل کی منصوبہ بندی تھی


 

No comments:

Post a Comment