اللہ والوں کے قصّے..........قسط نمبر 8.

ایک مرتبہ حضرت مالک دینارؒ شدید بیمار رہنے کے بعد جب صحت مند ہوئے تو کسی ضرورت کے تحت بہت ہی دشواری سے بازار تشریف لے گئے لیکن اتفاق سے اسی وقت بادشاہ کی سواری آرہی تھی اور لوگوں کو ہٹانے کیلئے ایک شور بلند ہُوا۔آپ اس وقت اس قدر کمزور تھے کہ ہٹنے میں تاخیر ہو گئی اور پہرہ دار نے آپ کو ایسا کوڑا مارا کہ حالت کرب میں آپ کے مُنہ سے یہ کلمہ نکل گیا خدا کرے تیرے ہاتھ قطع کر وا دئیے جائیں
چنانچہ دوسرے ہی دن کسی جرم کی پاداش میں اس کے ہاتھ کاٹ کر چوراہے پر ڈلوا دیئے گئے لیکن آپ کو اس کی یہ حالت دیکھ کر سخت دُکھ ہُوا
ایک نوجوان بدمعاش حضرت مالک دینارؒ کا ہمسایہ تھا۔لوگ اس سے پریشان رہتے تھے۔چنانچہ ایک مرتبہ لوگوں نے آ پ سے اس کے مظالم کی شکایت کی۔اس پرآپؒ نے اس کے پاس جاکر نصیحت فرمائی۔مگر اس نے گستاخی سے پیش آتے ہوئے کہا۔’’میں حکومت کا آدمی ہوں اور کسی کو میرے کاموں میں دخل دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ میرا حاکم بہت ہی کریم ہے اور میرے خلاف سی کی بات نہیں سنے گا۔
آپ نے فرمایا ۔ اگر وہ نہیں سنے گا تو میں اﷲ تعالیٰ سے عرض کروں گا۔
اس نے کہا۔ وہ بادشاہ سے بھی بہت زیادہ کریم ہے۔
یہ سن کر آپ واپس آگئے لیکن کچھ دنوں کے بعد جب اس کے مظالم حد سے جاپہنچے لیکن غیب سے ندا آئی کہ میر ے دوست کو مت پریشان کرو
آپ کو یہ ندا سن کر بہت حیرت ہوئی اور اس نوجوان سے کہامیں اس غیبی آواز کے متعلق تجھ سے پوچھنے آیا ہوں جو میں نے راستے میں سنی ہے۔
اس نے کہا ۔’’اگر یہ بات ہے تو میں انی تمام دولت راہ خدا میں خیرات کرتا ہوں۔اس کے بعد وہ پورا اثاثہ خیرات کر کے کسی نا معلوم سمت کی طرف چلا گیا جس کے بعد سوائے حضرت مالک دیارؒ کے کسی نے اس کو نہیں دیکھا
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ فرماتے ہیں۔ کسی سفر میں ایک شخص میرے پاس آیا اور اس نے مجھ سے درخواست کی کہ مجھے اپنی صحبت میں شامل کر لیا جائے مگر اس شرط کے ساتھ کہ کسی حال میں بھی صبر اور دوستی کا دامن چھوٹنے نہ پائے۔ایک دفعہ وہ شخص مجھے ایک جگہ بٹھا کر کہیں چلا گیا اور یہ وعدہ کر گیا کہ جب تک میں نہ آؤں اس جگہ سے نہ جانا۔ سال بھر اسی حال میں گذر گیا اور وہ شخص نہ آیا۔میں حسب وعدہ وہیں بیٹھا رہا۔پورا ایک سال گذر جانے پر وہ آیا اور مجھ کو اسی جگہ بیٹھے پایا۔پھر اس نے ویسا ہیں ایک وعدہ کیا اور چلا گیا۔الغرض یہ واقعہ تین دفعہ پیش آیا۔آخری دفعہ جب وہ آیا تو اس کے پاس روٹی اور دودھ تھا۔اس نے کہا
خضرؑ ہوں اور مجھ کو اس لیے بھیجا گیا ہے کہ تمہارے ساتھ کھانا کھاؤں‘‘۔پھر اس نے کہا۔’’اٹھو اور بغداد جا کر قیام کرو اور سفر و سیاحت کو خیر باد کرو۔
حاضرین نے پوچھا’’اس تین سال کی مدت میں کھانا کہاں سے کھاتے تھے۔
آپؒ نے فرمایا۔’’جو کچھ غیب سے مل جاتا اور زمین پر پڑا پاتا۔اسی پر بسر اوقات کرتا
ایک دفعہ خادمہ نے حضرت رابعہ بصریؒ سے عرض ’’کی کہ موسم بہار آگیا ہے۔باہر تشریف لا کر قدرت کی صنعت کا مشاہدہ کیجئے
آپ نے فرمایا ۔ تو حُجرہ کے اندر چلی آ۔ تاکہ صانع کا مشاہدہ کرے، مجھے صانع کی حضوری سے اتنی مہلت کہاں کہ اس کی صنعت کا مشاہدہ کرتی پھروں
حضرت حسن بصریؒ ، حضرت شفیق بلخی ؒ اور حضرت مالک دینارؒ حضرت رابعہ بصری کے پاس آئے اور محبت و صداقت پر گفتگو کرنے لگے۔ حضرت حسنؒ نے فرمایا ’’ وہ اپنے دعویٰ میں سچّا نہیں جو تکلیف پر صبر نہ کرے‘‘
حضرت شفیق ؒ نے فرمایا کہ وہ عشق کے راستہ کے قابل نہیں جو تکلیف پر شکر ادا نہ کرے۔
حضرت مالکؒ نے فرمایا کہ جو شخص دوست کی دی ہوئی تکلیف پر لذت نہ پاوے اس کا دعویٰ محبت صحیح نہیں
حضرت رابعہؒ نے تینوں کی باتیں سننے کے بعد فرمایا کہ جو شخص محبوب کے مشاہدے میں درد کو بھول نہ جاوے اسے محبت کا دعویٰ کرنا روا نہیں 
 

No comments:

Post a Comment