اللہ والوں کے قصّے...<> قسط نمبر 22.

حضرت مالکؒ بن دینار سے روایت ہے ۔وہ فرماتے ہیں کہ میں ایک روز بصرہ کے جنگل میں گیا۔وہاں دیکھا کہ ایک مقام پرسعدون مجنوںؒ بیٹھے ہوئے ہیں۔میں نے پوچھا۔’’آپ کا کیا حال ہے؟‘‘
سعدون نے فرمایا’’اے مالک!اس شخص کا کیا حال دریافت کرتے ہو جس کا صبح و شام بڑے بھاری سفر کا ارادہ ہوا ور کچھ سامان اور توشہ اس کے پاس نہ ہو اور تمام بندوں کے حاکم اور عادل کے ہاں اسی کی پیشی ہو۔‘‘یہ کہہ کر بہت روئے۔
میں نے پوچھا۔’’کیوں روتے ہو؟
اس پر فرمایا۔’’قسم ہے اﷲ کی میں دنیا کی حب میں یا موت اور مصائب کے ڈر سے نہیں روتابلکہ اس وجہ سے کہ میری عمر کا ایک دن ایسا گزر گیاکہ اس میں مجھ سے اچھا عمل نہیں ہوا ا ور نیز مجھے زادراہ کی قلت اور سخت گھاٹے کا پیش آنا رلا رہا ہے۔مجھے کچھ معلوم نہیں کہ میرا ٹھکانا جنت ہے یا دوزخ۔‘‘
مالک دیناؒ فرماتے ہیں کہ میں نے ان سے یہ کلام حکمت آمیز سن کر کہا۔’’لوگ تو آپ کو مجنوں کہتے ہیں مگر آپ تو بڑے عاقل ہیں۔
سعدون نے فرمایا۔’’آپ بھی لوگوں کے دھوکے میں آگئے لوگوں نے مجھے مجنوں سمجھ رکھا ہے حالانکہ مجھ میں کوئی بھی جنون کی بات نہیں۔ البتہ میرے مولا کی محبت میرے دل اور میرے گوشت پوست،رگ ریشہ و ہڈیوں اورخون میں رچ گئی ہے اس محبت کی وجہ سے میں متحیّر و فریفتہ ہوں‘‘
میں نے عرض کیا۔’’اے سعدون!آپ لوگوں کے پاس کیوں نہیں بیٹھتے اور ان سے کیوں نہیں ملتے جلتے۔‘‘
یہ سن کر سعدون نے دوشعر پڑھے۔
)ترجمہ(عزیز لوگوں سے بالکل الگ رہا کر اور حق تعالیٰ کو اپنا مصاحب اور ساتھی بناؤ ۔لوگوں کو جس طرح چاہے آزما کر دیکھ لے۔وہ ہر حالت میں تجھے بچھو ہی نظر آئینگے
حضرت ابراہیم ادھمؒ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ حضرت جبرائیل ؑ کو خواب میں دیکھا کہ وہ کوئی کتاب بغل میں دبائے ہوئے ہیں اور میرے پوچھنے پر کہ اس کتاب میں کیا ہے حضرت جبرائیل نے فرمایا۔’’اس میں اﷲ تعالیٰ کے دوستوں کے نام درج کرتا رہتا ہوں۔‘‘
میں نے پوچھا۔’’کیا اس میں میرا نام بھی درج ہے۔‘‘
حضرت جبرائیل نے فرمایا۔’’تمہارا شمار خدا کے دوستوں میں نہیں ہوتا۔‘‘
میں نے عرض کیا۔’’میں اس کے دوستوں کا دوست ضرور ہوں
میرے اس جواب پر کچھ دیر تک حضرت جبرائیل ؑ ساکت رہے پھر فرمایا۔
’’مجھے اﷲ کی جانب سے یہ حکم ملا ہے کہ اس کتاب میں سب سے پہلے تمہارا نام درج کروں۔اس کے بعد دوسروں کا کیونکہ اس راستہ میں مایوسی کے بعد ہی اُمید ہوتی ہے۔‘‘
حضرت بشرحانی ؒ کی توبہ کا واقعہ یوں ہے کہ ایک دفعہ حالت دیوانگی میں کہیں چلے جا رہے تھے کہ راستہ میں ایک کاغذ پڑا ہوا ملا۔اس کاغذ پر بسم اﷲ الرحمن الرحیم ،لکھا ہوا تھا آپ نے اس کاغذ کو عطرے سے معطر کر کے کسی بلند مقام پر رکھ دیا۔اسی شب خواب میں کسی درویش نے دیکھا کہ انہیں منجانب اﷲ یہ حکم ملا ہے کہ بشر حانی کو یہ خوشخبری سنا دو کہ ہمارے نام کو معطر کر کے جو تم نے تعظیماً ایک بلندمقام پر رکھا ہے اس کی وجہ سے ہم تمہیں بھی پاکیزہ مراتب عطا کریں گے
جب وہ بزرگ خواب سے بیدارہوئے تو انہیں خیال آیا کہ بشر حانی تو فسق وفجور میں مبتلا ہیں اس لیے شاید میرا خواب درست نہیں ہے لیکن جب دوسری اور تیسری مرتبہ بھی آپ کو یہی خواب آیا تو آپ بشر خانی کے گھر پہنچے۔وہاں سے معلوم ہوا کہ آپ شراب خانے میں ہیں اور جب وہ درویش شراب خانے میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ بشر حانی نشہ میں چوراور بد مست پڑے ہوئے ہیں۔
اس پر آپ نے ایک شخص سے کہا کہ وہ جاکر بشر حانی سے کہے کہ میں اس کے لیے ایک ضروری پیغام لیکر آیا ہوں۔چنانچہ جب اس شخص نے بشر حانیؒ کوبزرگ کا پیغام دیا تو سن کر کانپ اٹھے اور بولے
خدا جانے وہ بزرگ میرے لیے عتابِ الہٰی کا پیغام لائے ہیں یا کسی اور سزا کا۔‘‘
اس پر آپؒ تائب ہو کر اسی وقت شراب خانہ سے باہر نکل گئے ۔اس کے بعد اﷲ تعالٰی نے حضرت بشر حانیؒ کووہ مراتب عطا فرمائے کہ آپؒ کا ذکر بھی دلوں کیلئے سکون کا سبب بن گیا۔آپ ننگے پاؤں پھرا کرتے تھے۔
کسی نے آپؒ سے پوچھا۔’’آپ ننگے پاؤں کیوں پھرتے ہیں؟‘‘
آپؒ نے فرمایا۔’’اﷲتعالیٰ نے 29ویں پارہ سورہ نوح میں فرمایا ہے۔
)آیت ترجمہ( ’’زمین کو ہم نے بچھونا بنایا تمہارے آرام کے واسطے۔‘‘
پس اﷲتعالیٰ کے بچھونے پر کیوں کر جوتا رکھوں۔‘‘
اس دور میں جانوروں نے کوچہ و بازار میں گندگی کرنا چھوڑ دیا کہ مبادا پاؤں بشر حانیؒ کا بھر جائے۔حانیؒ ننگے پاؤں والے کو کہتے ہیں ،ورنہ ان کا نام صرف بشر تھا۔
ایک مرتبہ کسی نے گلی میں گوبر پڑا دیکھا۔اس پر اس نے کہا۔’’بشر حانیؒ نے رحلت فرما لی ہے۔‘‘دریافت کیا تو حقیقت میں اسی وقت انتقال فرمایا تھا


 

No comments:

Post a Comment