ایک مرتبہ حجام حضرت ابراہیم ادھمؒ کا خط بنا رہا تھا۔کسی نے عرض کیا۔’’حجام کو کچھ معاوضہ دے دیجئے گا۔‘‘
اس پر آپؒ نے ایک تھیلی اٹھا کر اس کو دے دی لیکن اسی وقت اتفاق سے ایک سائل بھی آگیا اور حجام نے وہی تھیلی اسے دے دی۔
یہ دیکھ کر آپؒ نے حجام سے فرمایا۔’’اس میں تو سونا اور اشرفیاں بھری ہوئی تھیں
وہ بولا۔’’اس کا علم تو مجھ کو بھی ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ انسان اپنے دل سے غنی ہوتا ہے نہ کہ دولت سے لیکن میں جس کی راہ میں لٹاتا ہوں شاید اس سے آپ ناواقف ہیں
حضرت ابراہیم ادھمؒ فرماتے ہیں کہ اس کا یہ جملہ سن کر مجھے بے حد ندامت ہوئی اور میں نے نفس سے کہا۔تو نے جیسا کیا ویسی تمہیں سزا ملی
حضرت ابراہیم ادھمؒ کسی پہاڑی پر بیٹھے ایک بزرگ سے مصروف گفتگو تھے۔
بزرگ نے سوال کیا۔’’اہل حق کے مکمل ہونے کی کیا علامت ہے؟
آپ کے اتنا کہتے ہیں پہاڑ حرکت میں آگیا۔جس پرآپؒ نے فرمایا۔’’میں نے تجھے چلنے کو نہیں کہاتھا۔اس پر پہاڑ رک گیا
ایک دفعہ حضرت ابراہیم ادھمؒ دریائے دجلہ کے کنارے اپنی گڈری سی رہے تھے۔کسی نے نزدیک آکر کہا۔’’حکومت چھوڑکر تم نے کیا حاصل کیا؟‘‘
یہ سن کر آپ نے اپنی سوئی دریا میں پھینک دی۔چند لمحوں بعد بے شمار مچھلیاں اپنے اپنے منہ میں سونے کی ایک ایک سوئی دبائے ہوئے نمودار ہوئیں۔آپؒ نے فرمایا۔
مجھے تو اپنی سوئی درکار ہے۔‘‘چنانچہ ایک مچھلی آپؒ کی سوئی بھی لے کر آگئی۔آپؒ نے اپنی سوئی لیکر اس شخص سے فرمایا۔
بھائی!حکومت کو خیر باد کہنے کے بعد یہی ایک معمولی سے شے حاصل ہوئی ہے
کسی نے حضرت بشر حانی ؒ کو موسم سرما میں برہنہ اور کپکپاتے ہوئے دیکھ کر پوچھا۔’’آپ اتنی اذیتیں کیوں برداشت کرتے ہیں؟
آپؒ نے فرمایا۔’’اس وجہ سے کہ اس سردی میں فقراء صاحب حاجت ہونگے ان کا کیا حال ہوگا اور میرے پاس اتنا دینے کونہیں ہے کہ ان کی احتیاج ختم کر سکوں۔اس لیے جسمانی طور پر ان کا شریک حال رہتا ہوں
ایک دن لوگوں نے حضرت ابراہیم ادھمؒ سے سوال کیا۔’’حالتِ فقر میں آپ کو کبھی مسّرت بھی حاصل ہوئی
آپ نے فرمایا بہت مرتبہ ،ایک مرتبہ میں گندے کپڑوں اور بڑھے ہوئے بالوں کی حالت میں کشتی پر سوار ہو گیا اور اہل کشتی میرا مذاق اڑانے لگے۔حتیٰ کہ ایک مسخرہ بار بار میرے بال نوچتا اور گھونسے مارتا رہا۔
چنانچہ اس وقت مجھے اپنے نفس کی رسوائی پر بے حد مسرّت ہوئی اور پھر اسی دوران دریا میں طوفان آگیا اور ملّاح نے کہا کہ اس دیوانے کو دریا میں پھینک دو اور جب لوگوں نے میرا کان پکڑ کر پھینکنا چاہاتو طوفان ٹھہر گیا اور مجھے اپنی ذلّت پر بے حد خوشی ہوئی
حضرت ذوالنون مصریؒ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں ملک شام میں گیا تو وہاں ایک خوبصورت باغ سے گزر ہوا۔اس باغ میں میں نے ایک نوجوان کو سیب کے درخت کے نیچے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔میں نے آگے بڑھ کراسے سلام کیا ۔اس نے کچھ جواب نہ دیا۔ دوسری مرتبہ پھر میں نے سلام کیا تو اس نے اپنی نماز کو ختم کرکے زمین پر انگلی سے یہ شعر لکھے
ترجمہ(’’ زبان بولنے سے اس لیے رو کی گئی ہے کہ وہ طرح طرح کی مصیبتوں اور آفتوں کی غار ہے اور آفات کو کھینچنے والی ہے۔اس لئے تمہیں چاہیئے کہ جب بولو،اﷲہی کا ذکر کرو اور اسے کسی وقت بھی نہ بھولو اور ہر حالت میں اس کی حمد کرتے رہو۔
حضرت ذوالنون مصریؒ فرماتے ہیں کہ میں یہ دیکھ کر بہت دیر تک روتا رہا اور پھر میں نے بھی جواب میں زمین پر انگلی سے یہ شعر لکھ دیئے
ترجمہ( ’’ہر لکھنے والا ایک دن قبر میں خاک ہو جائے گا اور اس کے اعمال ہمیشہ باقی رہیں گے۔اس لیے تمہیں لازم ہے کہ اپنے ہاتھ ایسی شے کے سوا کہ جس کے دیکھنے سے قیامت میں خوشی میں خوشی و مسرت ہو،کچھ نہ لکھو
اس جوان نے یہ اشعار پڑھ کر ایک چیخ ماری اور جاں بحق تسلیم کی۔میں نے چاہا کہ اسے غسل دے کر دفن کروں کہ یکا یک مجھے کوئی پکار کر کہنے لگا۔
’’ذوالنون! اسے چھوڑ دے ٗحق تعالیٰ نے اس سے وعدہ فرما لیا کہ اس تجہیزوتکفین فرشتے کریں گے۔‘‘
ذوالنون لکھتے ہیں،میں یہ سن کر الگ ہو گیا اور درخت کے نیچے نماز پڑھنے لگا۔چند رکعتیں پڑھ کر جو میں نے لاش کی جانب دیکھا تو وہاں نشان تک نہ پایا اور نہ اس کی کچھ خبر ہوئی
No comments:
Post a Comment