عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا۔===۔۔قسط نمبر34.

اسی دن خواجہ خیری اور قاسم بن ہشام ’’ایدین ‘‘ روانہ ہوگئے۔ ایدین کی خانقاہ میں زاہدوں اور درویشوں کی ایک مختصر سی جماعت موجود تھی۔ سلطان عام سادہ لباس میں ان درویشوں کے درمیان بیٹھا کسی روحانی موضوع پر بات کر رہا تھا ۔ اس نے قاسم اور خواجہ خیری کو خانقاہ میں داخل ہوتے دیکھا تو پہلے چونکا اور پھر خاموش ہوگیا ۔ وہ دل میں سوچنے لگا کہ ضرور کوئی بڑا معاملہ ان اہم سالاروں کو ایدین کھینچ لایا ہے۔ لیکن سلطان پریشان نہ ہوا۔ اب وہ ایک درویش تھا اور اسے دنیاوی امور پریشان نہ کیا کرتے تھے
خواجہ خیری اور قاسم سلطان کے نزدیک پہنچے تو سلطان اور اس کے ساتھی درویشوں نے مہمانوں کا کھڑے ہوکر استقبال کیا ۔ اور پھر اپنے قریب ہی زمین پر بٹھالیا، سلطان قاسم کے چہرے کو غور سے دیکھ رہا تھا ۔ جس پر کسی قدر پریشانی ثبت تھی۔ البتہ ! بوڑھے خواجہ خیری کا سرخ چہرہ جوش و جذبے سے لبریز تھا ۔ سلطان نے اپنی دانا و بینا آنکھوں سے دونوں کا بغور جائزہ لیا ۔ اور پھر کہ
لگتا ہے منتظمینِ سلطنت کو کسی بڑی مشکل نے آن گھیرا ہے۔ جس کے لیے آپ لوگوں کو یہاں آنا پڑا..کہیے ! کیسے آنا ہوا؟‘‘
آج سلطان کے لہجے میں شاہی دبدبہ کہیں دکھائی نہ دیتا تھا ۔ یوں لگتا تھا جیسے یہ سلطان مرادخان ثانی نہ ہو بلکہ خانقاہ کا کوئی فقیر بول رہا ہو۔ خواجہ خیری نے طے شدہ حکمتِ عملی کے تحت پہلے بات کی۔
’’سلطان معظم ! سلطنت کو اس وقت آپ کی ذاتِ بابرکات کی اشد ضرورت ہے۔ بد بخت صلیبیوں نے 12جولائی 1444ء کا معاہدہ توڑ دیا ہے۔ اور عیسائیوں کی اتحادی افواج لارڈ سلاس ، کارڈ نیل جولین اور ہونیاڈے کی قیادت میں سلطنتِ عثمانیہ پر یلغار کرتی ہوئی بڑھتی چلی آرہی ہیں۔ہمارے تمام سر حدی شہر قلعے اور قصبے سفاک عیسائیوں نے بے دردی کے ساتھ پامال کر دیے ہیں۔ حتیٰ کہ ہمارا اہم اور مشہور شہر ’’وارنا‘‘ بھی دشمن کے قبضے میں آگیا ہے۔ دشمن نے یکم ستمبر سے لے کر اب تک صرف چند دنوں میں ہماری آدھی یورپی سلطنت کو تاخت و تاراج کردیا ہے۔ نہتے مسلمان بے رحمی سے قتل کیے جارہے ہیں۔ اور لارڈ سلاس کی افواج بے خوف و خطر ادرنہ کی جانب بڑھنے کا رادہ رکھتی ہیں
خواجہ خیری کے ہر جملے کے ساتھ سلطان اپنے پہلو بدلتا جارہا تھا ۔ اس کی آنکھیں حیرت سے پوری طرح کھلی ہوئی تھیں۔ اور دونوں بھنویں سکڑ کر ایک دوسرے کے قریب آچکی تھیں۔ اس نے ایک لمحے کے لیے بھی نہ سوچا تھا ، کہ دس سال کے لیے کیا جانے والا معاہدۂ زیجیڈین لارڈ سلاس یوں بے دردی سے توڑ دے گا ۔ معاہدہ پر دستخط کرتے وقت لارڈ سلاس نے انجیل پر اور سلطان مراد نے قرآن پر قسم کھائی ۔ لارڈ سلاس کی قسم کو یوں ٹوٹتا دیکھ کر سلطان کو ضرورت سے زیادہ دھچکہ لگا۔ اسے ہر گز امید نہ تھی کہ ایک بادشاہ اتنی بڑی قسم اٹھانے کے بعد اپنے عہد سے پھر سکتا ہے۔ اس کا خون کھولنے لگا، اور مٹھیاں بھنچ گئیں۔ اسے رہ رہ کر لارڈ سلاس پر تاؤ آرہا تھا ۔ وہ خواب میں بھی نہ سوچ سکتا تھا کہ اس قدر مراعات حاصل کرنے اور سلطان کے ساتھ کیا ہوا معاہدہ توڑ دے گا۔ قاسم اور خواجہ خیری کے ساتھ دوسرے درویش بھی سلطان کے چہرے پر جذبات کے اتار چڑھاؤکو ملاحظہ کر رہے تھے۔ سلطان خواجہ خیری کی بات سن کر دیر تک خاموش رہا اور پھر یک لخت اٹھ کر کھڑا ہوا۔ سلطان کے اٹھتے ہی سب لوگ بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔ اور اب کی بار سلطان جو بولا تو یوں لگا جیسے ہفت اقلیم کا شہنشاہ اپنے پورے جاہ وجلال کے ساتھ گرج رہا ہو۔ سلطان نے کہا
ہم ابھی اور اسی وقت دارالسطنت جائیں گے ۔ اور خواجہ خیری!..
سلطان گرجا ۔ تو خواجہ خیری کانپ گیا ۔ اور فوراً بولا:۔
جی سلطانِ معظم!‘‘
خواجہ خیری ! ہماری یہ بات یاد رکھنا کہ بد فطرت اور معاہد ہ شکن لارڈ سلاس کو میدانِ جنگ میں ہم آنے والی نسلوں کے لیے عبرت کا نشان بنادیں گے‘‘ ۔
اتنا کہہ کر سلطان تیزی سے خانقاہ میں موجود اپنی رہائش گاہ کی جانب بڑھا۔ سلطان کے ارادے دیکھ کر تمام درویش کوچ کی تیاری میں لگ گئے۔ اور بہت ہی مختصر وقت میں سلطان ، قاسم اور خواجہ خیری کے ہمراہ اپنے لشکر کی جانب اڑا چلا جارہا تھا ۔ سلطانی لشکر امیر کرمانیہ کی بغاوت رفع کر نے کے لیے ابھی تک ایشیائے کوچک میں موجود تھا ۔ سلطان اپنے لشکر میں پہنچ کر ایک لمحے کے لیے بھی سکون سے نہ بیٹھا اور فوراً روانگی کی تیاری میں مصروف ہوگیا ۔ بہت ہی کم وقت میں سلطان نے چالیس ہزار بہترین اور آزمودہ کار سپاہی اپنے ہمراہ لیے اور ’’وارنا‘‘ کی جانب چل دیا ۔ اس لشکر میں ینی چری کے بہترین دستے شامل تھے۔ جن میں بوڑھا سپہ سالار خواجہ خیری، دس ہزاری سالار آغا حسن ، ادھیڑ عمر عبدا لرحمان ، ریاض بیگ اور بہت سے دیگر مایہء ناز سالار شامل تھے۔ قاسم بن ہشام بھی اس مرتبہ سلطان کے پرچم تلے پانچ ہزار سپاہیوں کی کمان کر رہا تھا ۔ یہ لشکر اکتوبر 1444ء میں درِ دانیال کو عبور کرچکا تھا 
سلطان کے لیے در دانیال کو عبور کرنا بھی بظاہر ممکن کام نہ تھا ۔ کیونکہ سمندر کے اس اہم راستے پر عیسائی بیڑوں کا قبضہ تھا ۔ لیکن سلطان نے ’’جنیوا ‘‘ کے جہازوں کو فی سپاہی ایک ڈاکٹ کی شرح سے محصول ادا کرکے اپنی پوری فوج کو یورپ میں منتقل کرلیا۔ ہونیاڈے کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ’’وینس‘‘ اور ’’جنیوا‘‘ کے عیسائی بیڑے یوں رشوت لے کر سلطان کی خطرناک فوج کو یورپ میں اتاردیں گے ۔
لارڈ سلاس اور ہونیاڈے ، وارنا شہر پر قابض تھے جبکہ باقی فوج وارنا کے قریب میدان میں خیمہ زن تھی۔ عیسائی فوج کو اپنی فتح کا مکمل یقین تھا۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ سلطان کا لشکر درِ دانیال کو یو ں پلک جھپکتے میں عبور کرکے ان کے سر پر آدھمکے گا۔ ہونیاڈے کو اس کے خبریوں نے آکر یہ خبر سنائی کہ سلطان مراد خان خود گوشہء عزلت سے نکل کر اور چالیس ہزار بہادرسپاہیوں کو لے کر مقابلے پر آپہنچا ہے۔ اور یہاں سے صرف چار میل کے فاصلے پر آکر خیمہ زن ہوا ہے۔ یہ سنتے ہی ہونیاڈے کے اوسان خطا ہوگئے۔ وہ عجلت میں لارڈ سلاس کے خیمے کی جانب بھاگا۔ لارڈ سلاس نے فوراً مجلسِ مشاورت منعقد کی۔ جس کے اختتام پر عیسائی فوج اپنی صفیں درست کرنے لگی۔ ہونیاڈے کو سابق کامیابیوں کی بناء اپنی فتح کا پورا یقین تھا ۔ چنانچہ اس نے مجلسِ حربی کے بعض اراکین کا یہ مشورہ بھی قبول نہ کیا کہ لشکر گاہ کے گرد ناکہ بندی کرکے سلطان مراد خان کے حملے کا انتظار کیا جائے ۔ ہونیاڈے از خود سلطان مراد خان پر حملہ کرنے کے لیے پوری فوج کے ساتھ چل کھڑا ہوا۔26رجب 848 ھ بمطابق 10نومبر 1444کو دونوں فوجیں ایک دوسرے کے مدِ مقابل صف آراء ہوگئیں۔ عیسائی فوج کے ’’میسرہ‘‘ میں والیشیا کی فوج تھی۔ ہنگری کے انتخابی سپاہی ’’میمنہ ‘‘ پر مامور کیے گئے ۔ کارڈ نیل جولین کے زیرِ اہتمام عیسائی مجاہدین کا ایک لشکرِ عظیم تھا ۔ شاہِ ہنگری .لارڈ سلاس اپنے ملک کے سرداروں اور سوماؤں کے ساتھ لشکر کے ’’قلب‘‘ میں تھا ۔ پولینڈ کی فوج سب سے پیچھے ایک مشہور بشپ کے زیر کمان تھی۔ہونیاڈے خود اس لشکرِ عظیم کا سپہ سالارِ اعظم تھا ۔ سلطانی لشکر میں پہلی دو صفیں بے ضابطہ سواروں اور پیدل فوجوں کی تھی۔ داہنے بازو کی کمان ’’رومیلیا‘‘ کے ’’بیلر بے‘‘ کے ہاتھ میں اور بائیں بازو کی کمان ’’انا طولیا‘‘ کے بیلر بے کے ہاتھ میں تھی۔ ان صفو ں کے پیچھے قلب میں خود سلطان مراد کے زیر کمان ینی چری اور شاہی دستے تھے۔ 10نومبر کو وارنا کے میدان میں یہ لڑائی شروع ہوئی۔ سلطان مراد خان نے ’’معاہدۂ زیجیڈین‘‘ کو ایک بڑے کتبے پر لکھا کر اور نیزہ کی نوک پر رکھ کر علم بنایا جو فوجی نشان کی طرح فضا میں لہرارہا تھا
آج عیسائیوں کو عہد نامہ توڑے پورے دو مہینے اور دس روز گزر چکے تھے۔ اور وہ اس عرصہ میں متواتر سلطنتِ عثمانیہ کے شہر برباد کرتے آئے تھے۔لڑائی شروع ہونے کے قریب ہی تھی کہ ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس کی وجہ سے عیسائیوں کے دلوں میں بد شگونی پیدا ہوگئی۔ دفعتاً ہوا کا ایک سخت جھونکا آیا اور ان کے تمام علم اکھڑ کر گر گئے۔ (دولتِ عثمانیہ)
ہونیاڈے نے د ا ہنی طرف عثمانی فوج کے ایشیائی دستوں پر ایسا زوردار حملہ کیا کہ ترکی لشکر کے پاؤں اکھڑ گئے ۔ عیسائیوں کا حملہ بہت کامیاب تھا ۔ ترکوں کو پہلی دو صفیں بری طرح بکھر گئیں۔ فوج میں اتنا انتشار پیدا ہوا کہ سلطان کو اپنی شکست کا یقین ہونے لگا۔ زندگی میں پہلی اور آخر مرتبہ سلطان کے ہاتھ سے صبرو استقلال کا دامن چھوٹ گیا ۔ سلطان ابھی اس صورتحال پر پوری طرح پریشان بھی نہ ہونے پایا تھا کہ عیسائیوں کے میسرہ نے جن میں والیشیا کے جنگجو شامل تھے ، سلطانی لشکر کے دوسرے بازو پر ایسا غضبناک حملہ کیا کہ عثمانی فوج کا یہ بازو بھی قائم نہ رہ سکا۔ سلطان کی رہی سہی امید بھی جاتی رہی۔ اور سلطان سوچنے لگا کہ اس جنگ سے بھاگنے کی بجائے حملہ آور ہوکر جامِ شہادت نوش کرلے۔ سلطان اسی سوچ میں گم تھا کہ اناطولیا کے بیلر بے نے آگے بڑھ کر گھوڑے کی لگام تھام لی اور عرض کی:۔
سلطانِ معظم ! مایوس ہونے کی ابھی کوئی وجہ نہیں۔
سلطان نے بیلر بے کی بات سنی تو اسے یوں لگا جیسے وہ کسی خواب سے بیدار ہوگیا ہو۔ سلطان نے ایک دم اپنا گھوڑا روک لیا۔ اور ینی چری کے دستوں کی جانب متوجہ ہوکر بآوازِ بلند پکارا:۔
قاسم بن ہشام !..یہاں آؤ‘۔
قاسم سلطان سے چند قدم کے فاصلے پر اپنے دستے کے ہمراہ الارڈ سلاس کے محافظ دستے کو چیرنے کی کوشش کر رہا تھا 


 

No comments:

Post a Comment