اللہ والوں کے قصّے..<>. قسط نمبر 25.

حضرت ابو علی شفیق بلخی ؒ ایک خاص واقعہ سے متاثر ہو کر تائب ہوئے تھے۔وہ واقعہ یہ تھا کہ جب آپ بغرضِ تجارت ترکی پہنچے تو وہاں کا ایک مشہور بت کدہ دیکھنے پہنچ گئے اوروہاں ایک پجاری سے ایک سوال کیا جس پراس نے جواب دیا۔’’آپ جو حصول رزق کیلئے دنیا بھر میں تجارت کرتے پھرتے ہیں اس سے ندامت نہیں ہوتی اور کیا آپ کا خالق گھر بیٹھے رزق پہنچانے پر قادرنہیں ہے۔
بت پرست کی بات دل پر اثر کر گئی۔آپ اسی وقت وطن واپس چل پڑے۔راستے میں کسی نے آپ سے آپ کا پیشہ دریافت کیا۔
آپ نے فرمایا۔میں تجارت کرتاہوں
اس نے آپ کی اس بات پر آپ کو طعنہ دیتے ہوئے کہا آپ کے مقدر کا جو کچھ ہے وہ تو گھر بیٹھے بھی میسّر آسکتا ہے لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ شاید آپ خدا پر شاکر نہیں ہیں۔
اس واقعہ سے آپ اور زیادہ متاثر ہوئے اور جب گھر پہنچے تو معلوم ہوا کہ شہر کے ایک سردار کا کتا گم ہو گیا ہے اور شبہ میں آپ کے ہمسایہ کو گرفتار کر لیا گیا ہے چنانچہ آپ نے سردار کو یقین دلا کر کہا تمہارا کتا تین یوم کے اندر اندر مل جائے گا، اپنے ہمسایہ کو رہا کروالیا اور جس نے کتاچوری کیا تھاوہ تیسرے دن آپ کے پاس کتا لیکر پہنچ گیا۔اس پر آپ نے سردار کے ہاں کتا بھجوانے کے بعد دنیا سے کنارہ کشی کر لی
حضرت داؤد طائی ؒ کے تائب ہونے کا واقعہ یوں ہے کہ کسی گوئیے نے آپ کے سامنے مندرجہ ذیل شعر پڑھا۔
ترجمہ(کون سا چہرہ خاک میں نہیں ملا اور کون سی آنکھ زمین پر نہیں بہی
یہ سن کر عالم بے خودی میں حضرت امام ابو حنیفہؒ کی خدمت میں پہنچ گئے اور اپنا پورا واقعہ بیان کرکے کہ’میری طبیعت دنیا سے اچاٹ ہو چکی ہے اور ایک نا معلوم سی شے قلب کو مضطرب کئے ہوئے ہے
یہ سن کر اما م صاحب نے فرمایا۔’’گوشہ نشیبی اختیار کر لو۔‘‘چنانچہ اسی وقت سے آپ گوشہ نشین ہو گئے پھر کچھ عرصہ کے بعد امام صاحبؒ نے فرمایا۔’’اب یہ بہتر ہے کہ لوگوں سے رابطہ قائم کر کے ان کی باتوں پر صبر و ضبط سے کام لو۔
چنانچہ ایک برس تک تعمیل میں بزرگوں کی صحبت میں رہ کر ان کے اقوال سے بہرہ ور ہوئے لیکن خود ہمیشہ خاموش رہتے تھے
حضرت ابو سلیمان دارائی ؒ نے لوگوں سے فرمایا’’احتلام بھی ایک قہر ہے جوشکم سیری کے نتیجہ میں ہوتا ہے اور اس کے علاوہ شکم سیری چھ اور خرابیوں کو جنم دیتی ہے ۔اوّل عبادت میں دل نہ لگنا۔دوم حکمت کی باتیں یاد نہ رہنا۔سوم شفقت کرنے سے محروم ہو جانا۔چہارم عبادت کا بارِخاطر بن جانا۔پنجم خواہشات نفسانی میں اضافہ ہو جانا۔ششم پاخانہ سے اتنی مہلت نہ ملنا جو مسجد میں جا کر عبادت کر سک
انتقال کے وقت لوگوں نے حضرت سلیمان دارائی ؒ سے عرض کیا ۔’’آپ اس خدا کے پاس جا رہے ہیں جو غفورالرّحیم ہے۔لہذا ہمیں کوئی بشارت دیجئے۔
آپ نے فرمایا۔’’میں تو اس خد ا کے پاس جا رہا ہوں جو گناہ صغیرہ پر محاسبہ کرتا ہے اور گناہ کبیرہ پر سزا دیتا ہے۔اتنا کہنے کے بعد آپ نے انتقال فرمایا
حضرت مالک دینارؒ فرماتے ہیں کہ جب میں نے ایک دن حضرت حسن بصریؒ سے یہ پوچھا کہ لوگوں کی تباہی کس چیز پوشیدہ ہے؟تو آپ نے فرمایا کہ مردہ دلی میں ہے
حضرت نے فرمایا۔’’دنیا کی جانب راغب ہو جانا مردہ دلی ہے
ایک مرتبہ حضرت حبیب عجمیؒ کسی کونے میں بیٹھے ہوئے فرما رہے تھے کہ جس کاقلب تجھ سے مسرور نہ ہو،اس کو ئی مسّرت حاصل نہیں ہوئی اور جس کو تجھ سے انس نہ ہو، اس کو کسی سے انس نہ ہو۔‘‘
لوگوں نے پوچھا۔’’جب آپ گوشہ نشین ہو کر دنیا کی تمام باتوں سے الگ ہو چکے ہیں تو یہ بتائیے کہ رضا کس شے میں ہے
آپ نے فرمایا،’’ رضا تو صرف اسی قلب کو ہے جس میں کوئی کدورت نہ ہو
ایک دن حضرت محمد سماکؒ اور حضرت ذوالنونؒ حضرت رابعہ بصریؒ کے یہاں تشریف فرما تھے کہ اتنے میں حضرت عتبہؒ بھی نیا لباس زیب تن کیے اور اکڑتے ہوئے وہاں پہنچ گئے۔حضرت سماک ؒ نے پوچھا۔’’یہ آج کیسی چال چل رہے ہو؟‘‘
حضرت عتبہ بن غلام ؒ نے فرمایا۔’’میرا نام غلام جبّار ہے اسی لیے اکڑ کرچل رہا ہوں۔
یہ کہتے ہی غش کھا کر زمین پر گر گئے اور جب لوگوں نے پاس جا کردیکھا تو آپ کومردہ پایا اس کے بعد کسی نے آپ کو خواب میں دیکھا کہ آپ کا نصف چہرہ سیاہ پڑ گیا ہے اور آپ سے جب اس کا سبب دریافت کیا تو فرمایا۔
ایک مرتبہ دور طالب علمی میں بڑے داڑھی مونچھوں والے ایک خوب صورت لڑکے کو غور سے دیکھا تھا۔چنانچہ جب مرنے کے بعد مجھے جنت کی جانب لے جایا جا رہا تھا تو جہنم پر سے گذرتے ہوئے ایک سانپ نے میرے رخسار پر کاٹتے ہوئے کہا کہ بس ایک نظر دیکھنے کی یہ سزا ہے اور اگر تو کبھی اس لڑکے کو زیادہ توجہ سے دیکھتا تو میں بھی تجھے بہت زیادہ اذیت پہنچاتا


 

No comments:

Post a Comment