اللہ والوں کے قصّے۔۔<>۔قسط نمبر 32.


حضرت شیخ ابو بکر کتانی ؒ فرماتے ہیں۔‘‘ میں نے خواب میں ایک خوبصورت شخص سے پوچھا ’’ تو کون ہے؟‘‘

اس نے جواب دیا ۔’’ میرا نام تقویٰ ہے اور میں غم گیں دلوں میں رہتا ہوں۔ ‘‘ پھر میں نے خواب میں ایک بد شکل عورت سے سوال کیا تو کون ہے۔‘‘

اس نے جواب دیا ۔ ’’ میں مصیبت ہوں اور عیش و عشرت کرنے والے دلوں میں رہتی ہوں۔ ‘‘

اس کے بعد جب میں بیدار ہوا تو میں نے اپنے دل میں عہد کر لیا آج کے بعد مسرور زندگی کی بجائے ہمیشہ غم گین زندگی بسر کروں گا۔ 

حضرت ابوالقاسم جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں۔ میں نے ابلیس لعین کو خواب میں ننگا دیکھا۔

میں نے اس سے کہا۔ ’’ کیا تجھے اس حال میں انسانوں سے شرم نہیں آتی۔ ‘‘

وہ بولا۔ ’’کیا یہ لوگ تمہارے نزدیک انسان ہیں؟‘‘

میں نے جواب میں کہا۔’’ ہاں ، تو اس بات کو جانتا ہے۔ ‘‘

ابلیس نے کہا۔ ’’ اگر یہ لوگ انسان ہوتے تو جیسے لڑکے گول کے ساتھ کھیلتے ہیں میں ان کے ساتھ نہ کھیلتا ۔ در حقیقت یہ انسان نہیں ہیں۔ انسان تو اور ہیں

میں نے پوچھا۔ ’’ وہ کون ہیں؟‘‘

وہ بولا۔ ’’ مسجد شونیتریہ میں چند انسان ہیں جن کی عبادت و پرہیز گاری سے میرا بدن دبلا ہوگیا اور ان کی آتش حسد سے میرا جگر کباب ہے۔ جب میں ان کا قصد کرتا ہوں۔ خداوند تعالیٰ کی طرف اشارہ کرتے ہیں میں جلنے کے قریب ہوجاتا ہوں وہ میرے نزدیک انسان ہیں۔‘‘

حضرت جنیدؒ فرماتے ہیں جب میں خواب سے بیدار ہوا اُس مسجد میں گیا جس کا ذکر ابلیس نے کیا تھا۔ وہاں مجھے تین مرد نظر آئے جو اپنے سر گدڑیوں میں ڈالے بیٹھے تھے۔ جب ان کو میرے آہت معلوم ہوئی کہ کوئی غیر شخص ہے تو ایک نے گدڑی سے سر نکالا اور کہا

میں نے پوچھا۔ ’’ وہ کون ہیں؟‘‘

وہ بولا۔ ’’ مسجد شونیتریہ میں چند انسان ہیں جن کی عبادت و پرہیز گاری سے میرا بدن دبلا ہوگیا اور ان کی آتش حسد سے میرا جگر کباب ہے۔ جب میں ان کا قصد کرتا ہوں۔ خداوند تعالیٰ کی طرف اشارہ کرتے ہیں میں جلنے کے قریب ہوجاتا ہوں وہ میرے نزدیک انسان ہیں۔‘‘

حضرت جنیدؒ فرماتے ہیں جب میں خواب سے بیدار ہوا اُس مسجد میں گیا جس کا ذکر ابلیس نے کیا تھا۔ وہاں مجھے تین مرد نظر آئے جو اپنے سر گدڑیوں میں ڈالے بیٹھے تھے۔ جب ان کو میرے آہت معلوم ہوئی کہ کوئی غیر شخص ہے تو ایک نے گدڑی سے سر نکالا اور کہا

شیخ ابو حمزہ خراسانی ؒ فرماتے ہیں۔ ایک سال میں حج کو گیا۔ میں جا رہا تھا کہ ایک کنوئیں میں جا گرا۔ میرے دل نے کہا کنوئیں سے نکلنے کے لیے کسی سے مدد لینی چاہیے۔ پھر میں نے کہا۔ ہرگز کسی سے مدد نہیں لوں گا۔ اس پر میں نے کسی کو مدد کے لیے نہ پکارا۔ اس کے بعد دشمن کنوئیں پرسے گزرے۔ ایک نے کہا۔ آؤ اس کنوئیں کا بند کردیں۔ تاکہ کوئی شخص اس میں گر نہ جائے پھر وہ نرسل اور مٹی لائے اور کنوئیں کا منہ پاٹ دیا اور اس کا نشان تک مٹا دیا۔ میں نے چلانے کا ارادہ کیا پھر جی میں کہا۔ خدا کی قسم ! ہر گز نہ چلاؤں گا ۔ بلکہ جو ان دونوں سے قریب (خدا ) ہے، اسی کا پکاروں گا۔ یہ سوچ کر خاموش ہو رہا۔ ایک ساعت گزرتی تھی کہ کوئی آیا اور کنوئیں کا منہ کھول کر اُس نے اپنا پاؤں کنوئیں میں لٹکایا اور کچھ گنگنانے کی آوازیں آئی ۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ مجھ سے لپٹ جاؤ

میں مطلب سمجھ گیا اور اس کے پاؤں سے لٹک گیا ۔ اس نے مجھے کنوئیں سے نکال دیا۔ میں نے دیکھا کہ جس نے مجھے کنوئیں سے نکالا ہے وہ ایک درندہ ہے پھر مجھے غیب سے آواز آئی۔

’’ کیا یہ اچھا نہیں ہوا کہ ہم نے تجھے تلف ہونے سے تلف کرنے والی چیز کے ذریعے نجات دی

حضرت ابو اسحق ابراہیم بن احمد خواصؒ کو چلتے ہوئے ایک جگر ترش انار کے درخت دکھائی دیئے لیکن آپ نے طبیعت چاہنے کے باوجود ترشی کے خوف سے ایک دانہ بھی زبان پر نہیں رکھا۔

پھر آگے چل کر آپ کو ٹنڈا شخص دکھائی دیا۔ اُس کے جسم میں کیڑے پڑے ہوئے تھے۔ آپ نے اس کی جانب رحم بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’ تم چاہو تو میں تمہارے صحت یابی کے لیے اللہ سے دعا کروں

لیکن اس نے آپ کو دعا کرنے سے منع کردیا اور جب آپ نے پوچھا کہ تم دعا کرنے کے لیے منع کیوں کرتے ہو؟ تو اس نے جواب دیا۔

’’ میں نے اللہ کی پسند کو اپنے لیے پسند کر لیا ہے۔ اس لیے اُس کے آگے میرے بارے میں دعا کرنے کی ضرورت نہیں۔ 

پھر انہوں نے اس سے کہا۔ ’’ اگر تم اجازت دو تو میں تمہارے جسم پر سے مکھیاں وغیرہ اڑادوں‘‘

جس کے جواب میں اس نے کہا۔ ’’ پہلے اپنے قلب میں سے شیریں انار کی خواہش تو نکال دو۔ اس کے بعد میرے صحت یابی کی جانب توجہ دینا

اور جب حضرت نے پوچھا ۔ ’’ تم نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ میرے دل میں شیریں انار کی خواہش ہے۔ ‘‘

اس نے جواب دیا۔ ’’ خداشناس پر خداوند تعالیٰ ہر شے واضح کر دیتا ہے۔‘‘

پھر جب حضرت ابو اسحق ؒ نے یہ پوچھا ۔ ’’ کیا تمہیں اپنے جسم کے کیڑے مکوڑوں سے اذیت نہیں ہوتی۔‘‘ تو اس نے جواب دیا۔

’’ یہ سب اللہ ہی کے حکم سے میرے جسم کو اذیت پہنچاتے ہیں۔ اس لیے مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوتی


 

No comments:

Post a Comment