اللہ والوں کے قصّے۔۔۔قسط نمبر 34.

ایک دن حضرت احمد حربؒ کے ہاں چند سیّد بغرض ملاقات پہنچے۔ آپؒ ان کے ساتھ بے حد احترام و تعظیم کے ساتھ پیش آئے۔ اسی وقت آپ کا ایک شریر بچہ گستاخانہ طور پر رباب بجاتا باہر نکلا۔ اس کی یہ حرکت سادات کو بہت بری لگی۔ آپؒ نے ان سے فرمایا۔ 
’’ اس بچے کی گستاخی نظر انداز فرمائیں کیونکہ اس بچے کا نطفہ اس رات قائم ہوا تھا جب میرے ہمسایہ کے یہاں بادشاہ کے پاس سے کھانا آیا تھا اور اس ہمسائے نے وہ کھانا مجھے بھی کھلایا تھا اسی وجہ سے یہ بچہ گستاخ پیدا ہوا۔
کسی شخص نے حضرت شیخ ابو علی وقاق ؒ کو اپنے ہاں مدعو کیا۔ اس شخص کے گھر جاتے ہوئے آپؒ کو راستہ میں ایک بڑھیا مل گئی جو یہ کہہ رہی تھی کہ ’’اے اللہ ! و نے مجھے کثرالاولاد ہونے کے باوجود فقروفاقہ میں مبتلا کر دیا ہے ۔ آخر اس میں تیری مصلحت کیا ہے؟ ‘‘ 
آپؒ اس بڑھیا کے یہ جملے سننے کے بعد خاموشی سے چلے گئے اور جب اپنے میزبان کے ہاں پہنچے تو اُس سے فرمایا۔’’ ایک طباق میں بہت ساکھانا بھر کر لے آؤ۔‘‘ 
یہ سن کر وہ شخص بہت خوش ہوا اس نے اپنے آپ میں یہ سوچا کہ شاید آپؒ اپنے گھر کھانا لے کر کھانا چاہتے ہیں مگر وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ حضرت کا کوئی گھر نہیں ہے، جب وہ میزبان طباق بھر کر لے آیا تو آپ اس کو سر پر رکھے ہوئے بڑھیا کے مکان کی طرف چل دیئے اور تمام کھانا اس کے مکان پر دے آئے۔ یہ عجزو انکساری خاص بندوں میں ہوتی ہے۔ عام لوگ اس سے محروم ہوتے ہیں۔ 
حضرت ابو اسحاق ابراہیم شیبانی ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے چالیس سال حضرت عبداللہ مغربی ؒ کی خدمت میں بسر کیے لیکن اس عرصہ میں کبھی کوئی ایسی شے نہیں کھائی ، جو عام لوگوں کی غذا ہوا کرتی ہے اور نہ کبھی خانہ کعبہ کی چھت کے سوا کسی دوسری چھت کے نیچے آرام کیا۔ لیکن اس تمام عرصہ میں نہ تو کبھی میرے بال و ناخن بڑھے اور نہ کبھی میرا لباس کثیف ہوا۔ حتیٰ کہ زندگی میں آج تک میں نے اپنی خواہش سے کوئی شے نہیں کھائی ۔ 
ایک دن حضرت ابو علی وقاق ؒ منبر پر اپنے واعظ میں انسانی کمزوریوں اور کوتاہیوں کا ذکر فرما رہے تھے ۔ آپؒ نے فرمایا۔ 
 انسان ظلم کرنے والا ، جہالت میں مبتلا رہنے والا اور خود بینی و حسد کرنے والا ہوتا ہے۔ یہ تمام صفات معیوب ہیں اس لیے ہر کسی کو اس سے احتراز ضروری ہے۔ ‘‘ انسان کی برائی سن کر ایک درویش نے کھڑے ہو کر کہا۔ ’’ گو انسان برائیوں کا مجسمہ ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کو دوستی کے قابل بھی قرار دیا ہے اور یہ سب سے بہتر صفت ہے۔ 
یہ سن کر آپؒ نے فرمایا۔ ’’ واقعی تو صحیح کہتا اور تیرا قول اس آیت قرآنی کے مطابق ہے۔ (ترجمہ) اللہ ان کو محبوب سمجھتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کو محبوب تصور کرتے ہیں
حضرت احمد حرب ؒ نے اپنے صاحبزادے کو توکل کی اس طرح تعلیم دی کہ ایک دیوار میں سوراخ کر کے بیٹے سے کہہ دیا کہ جس شے کی خواہش ہوا کرے اس سوراخ سے طلب کر لیا کرو اور بیوی سے کہہ دیا کہ تم سوراخ کی دوسری جانب سے وہ چیز رکھ دیا کرو۔ 
چنانچہ ایک مدت تک ایسا ہی ہوتا رہا لیکن اتفاق سے ایک دن بیوی کہیں چلی گئیں اور صاحبزادے نے سوراخ کے پاس جا کر کھانا طلب کیا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو کھانا مہیا فرمادیا۔ اور جب آپؒ مصروف طعام تھے تو والدہ آگئیں اور پوچھا کہ تمہیں کھانا کہاں سے ملا؟ 
انہوں نے کہا ۔ ’’ جہاں سے روزانہ ملتا تھا۔ ‘‘ 
اس وقت حضرت احمد حربؒ نے بیوی سے فرمایا کہ آئندہ تم کوئی چیز سوراخ میں نہ رکھنا کیونکہ اب مقصد حاصل ہوچکا ہے اور اب اللہ تعالیٰ بلاواسطہ پہنچاتا رہے گا۔


 

No comments:

Post a Comment