عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا۔۔----۔قسط نمبر42,



اسم کا گھوڑا اپنی رفتار سے دوڑتا ہوا معسکر کی جانب اڑا چلا جارہا تھا.سربیائی سرحدات سے آنے والا قافلہ ادرنہ پہنچتے ہی منتشر ہونے لگاتھا ۔ قافلے میں شامل ہر فرد اپنی اپنی منزل کی جانب چل دیا تھا۔ لیکن دو اجنبی عورتیں اور ایک بوڑھا مرد ابھی تک شش و پنج میں مبتلا تھے۔ ادرنہ میں ان کو جاننے والا ایک ہی شخص تھا ۔ اور وہ تھا قاسم بن ہشام ۔ کیونکہ یہ دونوں عورتیں حمیرا اور مریم تھیں۔ اور بوڑھا مرد عباس تھا ۔ یہ لوگ لشکر کی روانگی سے 23ویں روز بوسنیا سے تو چل پڑے تھے لیکن سوداگروں کا قافلہ جس کے ہمراہ انہیں ادرنہ آنا تھا ۔ دیر سے روانہ ہوا ورنہ یہ لشکر کے فوراً بعد پہنچ جاتے ۔آج صبح قاسم اس قافلے کے بالکل قریب سے گزرا تھا ۔ اس نے ایک سوداگر سے قافلے کی بابت سوال بھی کیا تھا ۔ لیکن اس کا سامنا ’’حمیرا ‘‘ سے نہ ہو سکا تھا ۔ کافی دیر سوچ بچار کرنے کے بعد عباس نے شہر کی جانب چلنے کا ارادہ ظاہر کیا ۔حمیرا اور مریم نے چادریں اوڑھ رکھی تھیں۔ جن کے پلوؤں سے انہوں نے اسلامی پردہ کررکھا تھا ۔ وہ لوگ فصیل کے بڑے دروازے سے شہر میں داخل ہوئے اور بغیر کسی سے کچھ پوچھے اندرون شہر کی طرف بڑھتے چلے گئے۔ ان کے پاس نہ تو کوئی سواری تھی اور نہ ہی بہت زیادہ سازوسامان تھا


شہزادی کے پاس کچھ ہیرے جواہرات اور باقی زیورات تھے۔ اس طرح عباس اور مریم بھی اپنے گھر کا قیمتی سامان ساتھ لے کر روانہ ہوئے تھے ۔ انہوں نے سوچاتھا کہ وہ اپنا قیمتی سامان فروخت کرکے ادرنہ میں مکان اور کسی کاروبار کا بندوبست کرلیں گے ۔ عباس نے تو کہا تھا کہ وہ لوگ قاسم کی مدد سے ادرنہ میں قیام پذیر ہونے کا وسیلہ تلاش کریں گے ۔ لیکن شہزادی حمیرا نے ایسا کرنے سے منع کر دیا تھا ۔ نہ جانے اس کے دل میں کیا تھا ۔ حالانکہ وہ چاہتی تو قاسم کی مدد سے یہاں شاہی مہمان بن سکتی تھی۔ آخر وہ بوسنیا کی شہزادی تھی۔ لیکن شاید اس نے شہزادگی سے زیادہ سادہ زندگی کو ترجیح دی تھی۔ وہ لوگ شہر کے بڑے بازار میں کافی دیر تک چلتے رہے۔ اور بالآخر عباس نے ایک سرائے کے سامنے پڑاؤ ڈال دیا ۔ اب وہ حمیرا کو استفہامیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔ ’’بیٹی میرا خیال ہے کہ ہم اسی سرائے میں قیام کرلیتے ہیں۔ ہمیں سرائے میں تو کچھ دن رہنا ہی پڑیگا۔
’’ٹھیک ہے چچا جان!.......... جیسے آپ مناسب سمجھیں۔‘‘
کچھ دیر بعد وہ سرائے کے منشی کے پاس اپنی اقامت کا اندراج کروارہے تھے۔ یہ سرائے شہر کے وسط میں تھی ۔ سرائے کے ایک ملازم نے ان کا سامان اٹھایا اور انہیں ان کا کمرہ دکھانے کے لیے ساتھ چل پڑا۔ یہ کمرہ ایک وسیع اور ہوا دار ’’غرفہ‘‘ تھا ۔ کھڑکیوں پر پردے لٹکے ہوئے تھے۔ اور فرش کے وسط میں فرشی بستر لگے ہوئے تھے۔ عباس نے سوچا ، خواتیں کی رہائش کے لیے یہ کمرہ مناسب نہیں ہے ۔ یہ لوگ کمرے میں داخل ہوئے اور دروازہ اندر سے بند کرلیا
ابھی یہ لوگ پوری طرح بیٹھ بھی نہ پائے تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی ۔ دونوں لڑکیوں نے چونک کر دروازے کی جانب دیکھا۔ عباس اٹھا ار دروازے کی چٹخنی گرادی سامنے ایک ادھیڑ عمر شخص کھڑا تھا ۔ جس کے چہرے پر معصومیت ثبت تھی۔ وہ انتہائی سادہ نظروں سے بوڑھے عباس کی جانب دیکھ رہا تھا ۔ عباس کے لیے اس شخص کی آمد انتہائی غیر متوقع تھی۔ اس سے پہلے کہ عباس اس سے کچھ پوچھتا وہ بول پڑا:۔
’’محترم بزرگ!.......... کیا آپ کا نام ’’بارٹا کوزین‘‘ ہے؟ میں آپ کو پہچانتا ہوں
اجنبی کے منہ سے اپنا نام سن کر بارٹا کوزین جو اب عباس تھا .........حیرت زدہ رہ گیا ۔ حمیرا اور مریم کے بھی کان کھڑے ہوگئے ۔ لیکن اجنبی نے مزید دیر نہ کی اور پھر کہا:۔
’’دیکھیے آپ گھبرائیے مت!.........یہ دنیا ہے.........یہاں انسان ایک دوسرے سے مل ہی جاتے ہیں۔ دراصل آپ پہچان نہیں سکے ۔ میں اربان ہوں..........ہنگری کا آہنگر۔ میں کریٹ سے یونان تک آپ کے ساتھ جہاز میں سفر کیا تھا ۔ آپ ہمارے جہاز میں کپتان تھے۔‘‘
عباس کو یوں لگا جیسے وہ ایک دم خواب سے بیدار ہوگیا ہو۔ اسے سب کچھ یاد آگیا ۔ اسے یہ بھی یاد آیا ۔ کہ اربان کے ساتھ جہاز کے عرشے پر خوب محفل جمتی تھی۔ اور سارے جہان کی باتیں زیر بحث آتی تھیں۔ عباس نے تیزی سے دروازے کے پٹ کھولے ور آگے بڑھ کر اربان کو گلے سے لگا لیا۔ اب حمیرا اور مریم کے چہروں پر بھی مسکراہٹ نظر آرہی تھی
آہن گر اربان ابھی تک اسی سرائے میں رہ رہا تھا ۔ یہ وہی شخص تھا جو ایک روز قاسم کے ساتھ اسی سرائے میں ٹکراگیا تھا ۔ اور قاسم نے اس کے ساتھ دوبارہ ملاقات کا وعدہ کرکے اجازت مانگی تھی ۔ لیکن قاسم اپنی گو نا گوں مصروفیات کی بدولت اب تک یہاں دوبارہ نہ آسکا تھا ۔اس زمانے میں لوہے کی ڈھلائی آسان کام نہ تھا ۔ بہت کم لوگ ڈھلائی کاکام جانتے تھے۔ باقی تمام آہن گر ..........درحقیقت لوہار ہوا کرتے تھے۔ جو لوہا گرم کرکے ہتھوڑے سے کوٹتے اور آلات بناتے ۔ اربان بڑی بڑی کھٹالیاں بنانے کا فن بھی جانتا تھا ۔ جن میں لوہے کو پگھلا یا جانتا تھا۔ وہ درحقیقت ایک حکیم اور سائنسدان تھا ۔ اسی زمانے میں گندھک کے استعمال سے بارود کا آغاز ہواتھا ۔ لیکن ابھی تک بارود کے لیے استعمال ہونے والا اسلحہ کم ہی بنایا جاتا تھا ۔ اربان نے جنگی مقاصد کے لیے ایک خاص قسم کی منجنیق کی ترکیب سوچ رکھی تھی۔ جو بارود کا بڑے سے بڑا گالا بہت زیادہ قوت کے ساتھ پھینک سکتی تھی۔ یہی اربان عباس کا پرانا شناسا تھا ۔ اس معلوم نہ تھا عباس اسلام قبول کر چکا ہے ۔ وہ عباس کو ابھی تک بارٹا کوزین ہی سمجھ رہا تھا ۔ عباس اور اس کی ہمراہی لڑکیاں جب پاس کے کمرے میں داخل ہو رہی تھیں تو اربان نے عباس کو دیکھ لیا تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اب اس سے ملنے کے لیے چلا آیا تھا۔
عباس نے اسے بڑے پر جوش انداز میں کمرے کے اندر بلا لیا اور اپنی بیٹی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا..’’یہ میری بیٹی ہے مریم.......اور یہ ہیں ہماری شہزادی حمیرا‘‘.
’مریم؟اور حمیرا..... کیا آپ نے اسلام قبول کرلیا ہے؟...
اربان نے حیرت سے سوال کیا ۔ عباس مسکرایا اور کہنے لگا:۔
’’الحمد اللہ !.اب میرا اسلامی نام ’’عباس‘‘ ہے...ہم بوسنیا چھوڑ آئے ہیں۔ اب ہم یہیں رہینگے۔‘‘
لیکن اربان نے عباس کی یہ بات غور سے نہ سنی تھی۔ اس نے ’’شہزادی حمیرا‘‘ کی جانب دیکھتے ہوئے کہا:۔
’’شہزادی صاحبہ؟؟کیا محترم بزرگ ! یہ خاتون شہزادی ہیں۔‘‘
لیکن عباس سے پہلے ’’حمیرا‘‘ نے جواب دیا :۔
’’نہیں معزز مہمان!..ہمارے والد صاحب ہمیں پیار سے کبھی کبھی شہزادی کہہ کر بھی پکارتے ہیں۔‘‘
حمیرا کے جواب سے اربان کی حیرت دور ہوگئی۔ عباس نے اسے بیٹھنے کے لیے کہا۔ اور وہ لوگ ادرنہ سے متعلق باتیں کرنے لگے۔ اربان گزشتہ کئی ماہ سے ادرنہ میں تھا ۔ اس نے یہاں شہر کے سب سے بڑے آہنگر کے پاس ملازمت اختیار کرلی تھی۔ لیکن ابھی تک وہ سرائے میں ہی رہ رہا تھا ۔ دراصل سرائے کے مالک نے اسے ابھی تک یہاں سے جانے نہ دیا تھا وہ جاتا بھی تو کہاں شہر میں ایک اکیلا مرد ایک سرائے میں ہی رہ سکتا تھا ۔
اربان آج سے چار ماہ قبل قسطنطنیہ سے روانہ ہوا تھا ۔ اس کی تمام زندگی آوارہ گردی میں گزری تھی۔ وہ مزاجاً ایک سادہ لوح اور درویش صفت انسان تھا ۔ بچپن سے لے اب تک اس نے زندگی کو بہت قریب سے دیکھا تھا ۔ اور دنیا کی کم مائیگی نے اسے ایک جگہ ٹک کر رہنے سے دلبرداشتہ کردیا ۔ قسطنطنیہ میں اس نے کئی سال تک اپنے فن کے کمالات کا مظاہر کیا ۔ لیکن ایک دن بیٹھے بٹھائے اس کے دل میں مسلمانوں کو قریب سے دیکھنے کا شوق چمکا.........اور وہ ادرنہ چلا آیا۔ ادرنہ میں پہلے دن ہی اس کی ملاقات قاسم بن ہشام سے ہوگئی تھی۔ وہ بعد میں کئی روز تک قاسم کا انتظار کرتا رہا تھا ۔ لیکن قاسم جب زیادہ دن نہ لوٹا تو دھیرے دھیرے اس کے مراسم اوروں کے ساتھ بھی بڑھنے لگے۔ خصوصاً سرائے کے مالک نے تو اسے اپنا بھائی بنالیا تھا ۔
’’لیکن بھائی !...تم یہاں کر رہے ہو۔ اور کب سے مقیم ہو؟‘‘
’’مجھے مسلمانوں کا طرزِ زندگی یہاں کھینچ لا یا ۔ میں گہری نظر کے ساتھ اسلام کا مطالعہ کر رہا ہوں۔ اور اب تو مسلمان آہنگروں کے ساتھ مل کر میں بارود پھینکنے والی منجنیق بنانے کی کوشش کر رہا ہوں۔‘‘
اربان نے اپنے بارے میں بتایا تو بوڑھے عباس نے حیرت سے پلکیں پٹپٹاتے ہوئے کہا:۔
بارود پھنکنے والی منجنیق ؟...یہ تو بڑا خطرناک آلہ حرب ہوگا۔ اربان!یہ تم کیا کر رہے ہو؟ تم تو جنگ وجدل اور خون خرابے کے مخالف تھے۔‘‘


اربان مسکرادیا ۔ا ور خلاء میں گھورتے ہوئے بولا:۔
’’میں اب بھی انسانوں کے قتل کی مذمت کرتا ہوں۔ میں اب بھی یہی چاہتا ہوں کہ ایک انسان دوسرے انسان کے ساتھ محبت سے پیش آئے۔ لیکن میں نے قسطنطنیہ میں رہ کر دیکھا ہے کہ کچھ لوگ زمین پر امن قائم نہیں ہونے دیتے ۔ میں نے عیسائیوں کے شہنشاہ قیصرِ قسطنطنیہ کی باتیں سنی ہیں۔وہ شیطان کا نمائندہ ہے۔ پرامن بستیوں کو اجاڑنا ، مینڈھے لڑوانا اور انسانوں کو قتل کروانا اس کا مشغلہ ہے.......قیصر کو دیکھ کر مجھے یقین ہوا کہ امن کے لیے بھی جنگیں ضروری ہیں‘‘
حمیرا اربان کی باتیں بڑی دلچسپی کے ساتھ سن رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں تحسین آمیز تھی۔ وہ پہلی بار اربان سے مخاطب ہوئی:۔ ’’چچاجان! ااپ بارود پھینکنے والی منجنیق کیسے بنائیں گے ؟‘‘
’’اسے ہم منجنیق نہیں کہیں گے بلکہ ’’توپ‘‘ کہیں گے ..عیسائی دنیا کے کچھ سائنسدان اس قسم کی توپیں بنارہے ہیں۔ لیکن جو خاکہ میرے ذہن میں ہے وہ ہماری توپ کو دنیا کی پہلی باقاعدہ توپ بنادے گا۔ (دولتِ عثمانیہ) .......میں کھلی گندھک کی بجائے بارود کا گولہ بنانے کی کوشش کر رہا ہوںَ اس گولے سے مضبوط ترین فصیل کو بھی توڑا جاسکے گا۔‘‘
’’پھر تو آپ کو سلطان سے ملنا چاہیے تھا ...سلطان یقیناًآپ کی بہت قدر کر ے گا۔‘‘
’’میں سلطان سے ملنا چاہتا ہوں ۔ لیکن اس سے پہلے میں چاہتا ہوں کہ اپنی توپ کا ایک چھوٹا سا نمونہ تیار کرلوں۔ اسی لیے میں ایک آہنگر کے ساتھ کام کر رہا ہوں۔ اب تو میرا نمونہ تقریباً تیار ہے۔ اور میں جلد ہیسلطان سے ملنے کی کوشش کروں گا۔‘‘
بوڑھے عباس نے بھی اربان کو اپنی ادرنہ میں آمد کا مقصدبتایا اس نے کہاکہ اب ہم اپنے مسلمان بھائیوں کے درمیان باقی ماندہ زندگی بسر کریں گے۔ پھر وہ دیر تک اپنے آئندہ لائحہ عمل سے متعلق باتیں کرتے رہے


 

No comments:

Post a Comment