عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا۔۔.....۔قسط نمبر43.

چند دن بعد بوڑھا عباس اپنی دونوں بیٹیوں یعنی شہزادی حمیرا اور مریم کے ہمراہ ادرنہ کے ایک محلے میں منتقل ہوگیا ۔ اربان بھی ان کے ساتھ تھا ۔ شہزادی حمیراکے پاس اس کے قیمتی زیورات تھے۔ جنہیں بیچ کر انہوں نے سرائے کے مالک کی مدد سے ایک خوبصورت مکان خریدا ۔ بوڑھے عباس نے وسیلہ روزگار کے طور پر انہیں پیسوں سے چھوٹا موٹا کا روبار شروع کیا ۔ اربان کی تنخواہ بھی اسی گھر میں آنے لگی۔ اور یوں یہ لوگ ادرنہ میں رہائش پذیر ہوگئے۔ اربان نے ابھی تک باقاعدہ طور پر اسلام قبول نہ کیا تھا ۔ لیکن فی الحقیقت وہ دل سے مسلمان ہوچکا تھا 


اسی اثناء میں سلطان مراد خان ثانی دوسری مرتبہ گوشہ نشین ہوگیا ۔ اس نے اپنے نوعمر بیٹے شہزادہ محمد کو پھر تخت نشین کیا ۔ قاسم کو اس کا خاص مشیر مقرر کیا اور خود دوبارہ ’’ایدین‘‘ چلا گیا ۔ اب حالات کی صورت بڑی عجیب تھی۔ قاسم کو کسی حد تک یقین ہوچلا تھا کہ مارسی شہید ہوچکی ہے۔ بوسنیا کی شہزادی نے اپنے آپ کو ظاہر نہ کیا تھا ۔ ہونیاڈے ، شاہ لارڈسلاس کی ہلاکت کے بعد ہنگری کا تخت خود سنبھال چکا تھا.مارسی شہید نہ ہوئی تھی اور وہ زندہ سلامت سکندر بیگ کے محل میں پہنچ چکی تھی ۔ جبکہ طبیب سلیم پاشا ابھی تک ادرنہ میں موجود تھا۔ اور اس کے جاسوس ہونے کا راز کسی کو معلوم نہ تھا 
عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا۔۔۔قسط نمبر42پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
جونہی سلطان دوبارہ گوشہء عزلت جا بیٹھا اور نوعمر شہزادہ تخت نشین ہوا۔ سلیم پاشا کا کام پھر آسان ہوگیا ۔اب ابوجعفر تو ادرنہ میں نہ تھا ۔ لیکن سلیم پاشا کو ابوجعفر کی ضرورت بھی نہ تھی۔ اس نے ابوجعفر سے زیادہ تیزی دکھائی اور سلطان کی عدم موجودگی سے فائدہ اٹھا کر ینی چری میں پھر سے بغاوت کا بیج بودیا ۔اس نے مدتوں پرانا تنخواہوں کا مسئلہ پیدا کرکے نوجوان سپاہیوں میں شرارت کی آگ لگا دی ۔ یہ آگ جنگل کی آگ کی طرح پھیلی اور اس نے دیکھتے ہیں دیکھتے پوری سلطنت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ یہ 1445ء کے آغاز کا واقعہ ہے
سلیم پاشا کو بغاوت پھیلانے میں اس لیے بھی آسانی میسر آئی، کہ ابوجعفر گزشتہ بیس سالوں سے اسی سازش کے تانے بانے بنتا رہا تھا ۔ سپاہیوں کی بغاوت سے عثمانی سلطنت لرز کر رہ گئی۔ نوعمر سلطان محمد خان بوکھلا گیا ۔ شہر میں باغیوں نے بلوائیوں کا روپ دھار لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہنستے بستے خوشحال ادرنہ کو ایک دہشت زدہ شہر بنادیا۔ ہر طرف بلوائیوں کے جتھے قتل و غارت کرنے لگے۔ اور جگہ جگہ سرکاری املاک کو نذرِ آتش کیا جانے لگا۔ یہ صورتحال سلطان محمد خان کے لیے انتہائی پریشان کن تھی۔ اسے کچھ سجھائی نہ دیتا تھا کہ وہ اس بغاوت پر کیسے قابو پائے۔ بہرام خان شہر بھر میں دوڑدوڑ کر تھک گیا تھا ۔ لیکن وہ اس سازش کے سرغنہ کو نہ پکڑسکا۔ کو توالِ شہر بھی جگہ جگہ چھاپے مار رہا تھا ۔ لیکن بات تھی کہ بنتی نظر نہ آتی تھی۔ اس مرتبہ قاسم بھی کچھ نہ کرسکا ، کیونکہ اب وہ شاہی سراغ رساں نہیں تھا ۔ اور مارسی کی جدائی نے اسے ذہنی طور پر مفلوج کر رکھا تھا .........کئی روز گزر گئے۔ اور بلوائی شہر میں لوگوں کے جان و مال کو نقصان پہنچاتے رہے
ینی چری ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگی۔ اور سلطنتِ عثمانیہ کی سالمیت کو ایک مرتبہ پھر خطرات لاحق ہوگئے۔ امراء سلطنت نوعمر سلطان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسے ایک مرتبہ پھر سلطان مراد خان ثانی کو واپس بلانے پر آمادہ کرلیا۔ اس مرتبہ بھی نو عمر سلطان نے قاسم بن ہشام کو یہ ذمہ داری سونپی.........لیکن اس مرتبہ قاسم کے ہمراہ خواجہ خیری کی بجائے اس کا اپنا بھائی طاہر بن ہشام تھا ۔ سلطان محمد خان کا حکم ملتے ہی یہ دونوں بھائی ایدین کی طرف روانہ ہوگئے۔
یہ جمعہ کا روز تھا ۔ لوگ ڈر کے مارے دبک کر گھروں میں بیٹھے تھے۔ شہر کی گلیوں میں ینی چری کے باغی دستے دندناتے پھر رہے تھے۔ کبھی کسی گلی سے کوئی جلوس نمودار ہوتا جو نعرے لگاتا، پتھر پھینکتا اور آگ لگاتا چلا جاتا ۔ بلوائیوں نے کوتوالِ شہر کو یرغمال بنالیا تھا
فی الحقیقت ان حالات کی اصل باگ ڈور سلیم پاشا کے ہاتھ میں تھی۔ حالانکہ وہ خود ہمہ وقت نو عمر سلطان محمد خان کے نزدیک موجود رہتا ۔ وہ صرف شاہی طبیب ہی نہ تھا عمائدین سلطنت میں بھی اس کو اچھا خاصا مقام حاصل تھا ۔ جس وقت سلطان محمد خان نے قاسم بن ہشام کو ایدین کی طرف روانہ کیا ۔ سلیم پاشا وہیں موجود تھا ۔ اس کے لیے یہ خبر........کہ سلطان مراد خان ثانی کو واپس بلایا جارہاتھا ۔ پریشان کن تھی۔ لیکن قاسم اور اس کے بھائی کے ایدین روانہ ہونے کی خبر سن کر نہ جانے کیوں اس کی آنکھوں میں ایک مکارانہ سی چمک لہرائی۔ اور پھر جب قاسم طاہر کے ساتھ سلطان کو لانے کے لیے ایدین چلا گیا ۔ تو سلیم پاشا فوراً اپنے خفیہ گماشتوں کو طلب کرکے حکم دیا:
قاسم بن ہشام اور طاہر بن ہشام ادرنہ سے جاچکے ہیں۔ تم لوگ ان کے گھر کا دھیان رکھو۔کہیں ایسا نہ ہو کہ شہر میں پھیلے فتنہ گر اور بلوائی ان کے اہلِ خانہ کو کوئی نقصان پہنچادیں۔‘‘
اس کے ہونٹوں پر مکارانہ مسکراہٹ تیر رہی تھی۔ اور آنکھوں میں شیطنیت رقصاں تھی۔ وہ بغاوت کا سرغنہ تھا اور ادرنہ میں ابوجعفر کا نائب تھا ۔ اس کے خفیہ گماشتوں نے اس کی بات کا مطلب بخوبی سمجھ لیا ۔ اور فوراً تعمیل کرنے کے لیے چل کھڑے ہوئے۔
سلیم پاشا کے حکم سے تقریباً ایک گھنٹہ بعد بلوائیوں کا ایک دستہ جو لگ بھگ پچاس افراد پر مشتمل رہا ہوگا نعرے مارتا اور توڑ پھوڑ کرتا ہوا قاسم کے گھر کے سامنے پہنچا۔ یہ لوگ ایک طے شدہ منصوبے کے تحت یہاں آئے تھے۔
قاسم کے گھر پر موجود افرادِ خانہ نے گلی میں جلوس کا شور و غل سنا اور یہ سوچ کر اندر سے دروازے بند کر لیے ، کہ بلوائیوں کا گروہ تخریب کاری کی غرض سے گھر میں نہ گھس آئے۔ چھوٹے بچے عمر اور علی بے خوف و خطر مکان کی چھت پر چڑھ گئے اور گلی میں موجود جلوس دیکھنے لگے۔ قاسم کے بوڑھے باپ ہشام نے عہد رفتہ کو آواز دی۔ اور ننگی تلوار ہاتھ میں لے کر اپنی بیوی، بہو اور پوتوں کی حفاظت کے لیے گھر کے بند دروازے کے پاس سینہ تان کر کھڑا ہوگیا ۔
مارسی کی ادھیڑ عمر خادمہ بھی اس گھر میں مقیم تھی۔ بلوائی دروازے پر پہنچے اور دروازے کو دھڑ دھڑانا شروع کر دیا ۔ ہشام کے اعصاب تن گئے۔ اور اس کے ذہن میں ان جانے خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ اس کا دل کہہ رہا تھا کہ کوئی سانحہ ہونے والا ہے۔ بلوائی ابھی دروازہ دھڑ دھڑا رہے تھے۔ کہ طاہر کی بیوی سکینہ دوڑتی ہوئی ایک کمرے میں گئی اور اپنے شوہر کی کمان اور تیروں سے بھرا ترکش اٹھا کر ایک دریچے میں جابیٹھی۔ ہشام کی بیوی اور قاسم کی ماں کو بچوں کا خیال آیا۔ تو وہ دوڑتی ہوئی چھت پر گئی اور بچوں کو پکارنے لگی۔ عمر اور علی اب تماشہ دیکھنے کی بجائے خوف کے عالم میں ایک پردے کے ساتھ چپک کر سہمے بیٹھے تھے۔ بلوائیوں نے دروازہ دھڑ دھڑاتے ہوئے...’دروازہ کھولو ورنہ توڑدیں گے‘‘ کہنا شروع کردیا ۔ لیکن بوڑھے ہشام کی گرجدار آواز سن کر ایک مرتبہ تو بلوائیوں کے پورے گروہ کو جیسے سانپ سونگھ گیا ۔
ہشام نے کہا تھا :
’’غدارو ! دروازہ توڑ کر تم اپنی موت کو آواز دوگے۔ اندر داخل ہونے سے پہلے ہزار بار سوچ لینا کہ تمہارے سامنے وادیء حجاز کا مایہ ٗ ناز شمشیر زن ہمشام بن عدی کھڑا ہے۔‘‘
لیکن چند ثانیے بعد بلوائیوں کے گروہ میں موجود تین چار نقاب پوشوں نے ہشام کے گھر کا دروازہ توڑنا شروع کردیا ۔ اب ہشام کے اعصاب پوری طرح تن گئے۔ اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا ۔ اور وہ سیدھا تن کر کھڑا ہوگیا ۔ اسی اثناء میں دروازے کا ایک پٹ گرا اور تینوں نقاب پوش بلوائی اندر گھستے چلے آئے۔ لیکن بوڑھا ہشام کسی سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ان کے راستے میں ڈٹ گیا ۔ اس کی تلوار جب جب وار کرنے کے لیے بلند ہوتی تو اس کے حلق سے خالص عربی لہجے میں اللہ اکبر کا نعرہ نکلتا ۔ اب صورتحال یہ تھی کہ ایک اکیلا بوڑھا ہشام اپنی لمبی تلوار پر بہ یک وقت کئی بلوائیو ں کو روکے ہوئے تھا ۔ کسی کی مجال نہ تھی کہ کوئی ایک قدم بھی آگے بڑھ پاتا۔ قیصر کے جاسوسوں کو محسوس ہونے لگا کہ جیسے تنہا یہ شخص ان کے ارادوں کو ناکام بنادے گا۔ ہشام کی ایک تلوار بلوائیوں کی کئی تلواروں کو روکے ہوئے تھی۔ اسی اثناء میں اندرونی کمرے کے دریچے سے سنسناتا ہوا یک تیر آیا اور ایک نقاب پوش کی گردن میں پیوست ہوگیا ۔ نقاب پوش کسی بیل کی طرح ڈکراتا ہوا زمین بوس ہوا ہی تھا کہ ایک اور سنسناتا ہوا تیر بلوائیوں کی طرف لپکا.........ادھر ہشام کی تلوار بھی یکے بعد دیگرے بلوائیوں کے بازو اور گردنیں کاٹ رہی تھی۔ آسمان کی آنکھیں دیکھ رہی تھیں کہ ہشام کی جوانی پھر سے لوٹ آئی تھی۔
سکینہ دریچے سے طاق طاق کر ایسے تیر چلا رہی تھی کہ بلوائیوں کے لیے ڈیوڑھی میں جم کر کھڑا رہنا مشکل ہوگیا ۔ وہ قدم بقدم پسپا ہونے لگے۔ یہ دیکھ کر ہشام کی ہمت اور بڑھی اور اس نے اچھل کر دراز قد نقاب پوش پر کھڑی تلوار کا وار کردیا ۔ نقاب پوش کی گردن کٹ کر دور جاگری۔ یہی شخص بلوائیوں کا سردار تھا ۔ بلوائیوں نے اپنے سردار کو گرتے دیکھا تو الٹے قدموں باہر بھاگے۔ اور آن کی آن میں ڈیوڑھی خالی ہوگئی۔ اب بوڑھا ہشام اپنی خون آلود تلوار لہراتا ہوا دروازے میں آکر کھڑا ہوگیا ۔ اور بزدل بلوائیوں کو للکارنے لگا۔ آج اس نے اپنی شمشیر زنی کے وہ جوہر دکھائی تھے کہ اگر اس کے بیٹے اسے لڑتا ہوا دیکھ لیتے تو اب بھی اس کی مہارت کا لوہا مان جاتے۔ لیکن بلوائیوں کا خطرہ ابھی دور نہ ہواتھا


 

No comments:

Post a Comment