عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا۔۔۔قسط نمبر44.

 


ہشام نے گرے ہوئے دروازے کے پٹ کو اٹھا کر پھر اسی جگہ پھنسا دیا جہاں سے وہ گرا تھا ۔ اور گھر کے دروازے کو اس طرح ناپختہ طور پر بند کر دیا ۔ ابھی ہشام پوری طرح مطمئن نہیں تھا ۔ چنانچہ اس نے مہلت ملتے ہی اپنے اہلِ خانہ کو پڑوسیوں کے ہاں منتقل کرنے کا ارادہ کیا ۔ تاکہ اگر بلوائی دوبارہ حملہ آور ہوں تو گھر کی خواتین اور بچے محفوظ رہ سکیں۔ لیکن سکینہ نے اپنا مورچہ چھوڑنے سے انکار کردیا ۔ اس نے کہا:۔
’’ابا جان! میں آپ کے شانہ بشانہ دشمن کا مقابلہ کروں گی۔ ہم امی جان، بچوں اور غزالہ کی خادمہ کو ہسایوں کے گھر میں بھیج دیتے ہیں۔ 


چے اور ہشا م کی بیوی اب نیچے اترآئے تھے۔ لیکن ان کے چہروں پر خوف اور دہشت کی زردی چھاگئی تھی۔ ہشام کو یہ اچھا نہ لگا۔ اس نے عمر اور علی سے مخاطب ہوکر کہا:۔
’’عمر اور علی !.........ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ دیکھو ! تمہارے بوڑھے دادا نے سارے دشمنوں کو بھگادیا ۔ یاد رکھو! شیر کی ایک دن کی زندگی گیڈر کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے
بچوں کو دادا کی بات سے حوصلہ ملا نہ ملا، لیکن وہ اگلے چند لمحوں میں پڑوس کے گھر میں منتقل ہوچکے تھے۔ ان کے پڑوس میں بھی ایک بوڑھے سالار کا گھر تھا ۔ بوڑھا سالار خود تو مرچکا تھا لیکن اس کے گھر کی خواتین اور ایک بیٹا یہاں رہتے تھے۔ گھر میں اس وقت خواتین کے علاوہ صرف ایک خادم تھا۔ ہشام نے اسے انتہائی عجلت میں کچھ باتیں سمجھائیں اور اپنے اصطبل سے ایک عمدہ گھوڑا دے کر کسی جانب رانہ کردیا ۔ اس پورے دورانیے میں گلی خالی پڑی رہی تھی۔ بلوائی جاچکے تھے۔ لیکن ان کی واپسی کا خطرہ موجود تھا ۔ اگر شہر کی گلیوں اور بازاروں میں جگہ جگہ بغاوت ، فسادات اور آتش بازی نہ ہوتی تو ہشام بھی کسی اور جانب چل پڑتا ۔ لیکن ادرنہ شہر تو بلا کا سماں پیش کر رہا تھا ۔ چنانچہ ہشام نے اپنے گھر میں رہ کر دشمن کا مقابلہ کرنا ہی مناسب سمجھا۔
ادھر سلیم پاشا کو جب یہ خبر ملی کہ قاسم اور طاہر کے بوڑھے باپ نے باغیوں کے پچاس افراد پر مشتمل دستہ کے دانت کھٹے کردیے ہیں۔ تو وہ پیچ وتاب کھاکر رہ گیا ۔ اسے بے حد غصہ آیا ۔ اور وہ اپنے ماتحت باغیوں کو بری طرح ڈانٹنے لگا۔ وہ قاسم کی عدم موجودگی سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتا تھا ۔ چناچہ وہ ناکامی کی خبر ملتے ہی فوراً اٹھا اور اپنے چہرے پر ڈھاٹا باندھ کر خود اس شیطانی مشن کی تکمیل کے لیے چل کھڑا ہوا۔ اس مرتبہ اس کے ہمراہ عام بلوائی نہ تھے۔ بلکہ ینی چری کے بہترین تلوار باز تھے۔ اور یہ لوگ گھوڑوں پر سوار تھے۔ وہ ہر حال میں قاسم کو صدمہ پہنچاکر مفلوج کرنا چاہتا تھا ۔ گھڑ سواروں کا یہ دستہ تیزی کے ساتھ قاسم کے محلے کی طرف اڑا چلا جارہاتھا ۔
ہشام ابھی تک پچھلی لڑائی کی تھکن بھی دور نہ کرسکاتھا ۔ کہ سلیم پاشا کا نقاب پوش دستہ اس کے دروازے کا پٹ گراتا ہوا، اندھا دھند اندر داخل ہوا ۔ ہشام نے حسب سابق ان کا استقبال ڈیوڑھی میں ہی کیا .........اور سکینہ نے بھی کمان کے چلے پر چڑھا تیر چھوڑ دیا ۔ لیکن اس مرتبہ شاید قسمت بوڑھے ہشام کا ساتھ دینے سے انکار کرچکی تھی۔ اس نے غداروں کا جان توڑ مقابلہ کیا ۔ پئے در پئے تین بہترین سپاہی واصل جہنم کردیے۔ سکینہ کی بوچھاڑ سے بھی کئی سپاہی زخمی ہوئے۔ لیکن سپاہیوں کی تعداد زیادہ تھی۔ اور ہشام کے بوڑھے بازوؤں میں سکت ختم ہوچکی تھی۔ بالآخر ہشام کی تلوار دشمن کے وار روکنے میں ناکام ہوگئی۔ اور بوڑھا عرب شمشیر زن آخر دم تک مردانہ وار لڑتا ہوا شہید ہوگیا ۔
ہشام کے گرتے ہی سلیم پاشا کے دہشت گرد پورے مکان میں پھیل گئے۔ سلیم پاشا خود ابھی تک صحیح سلامت تھا ۔ اس نے خود عملی طور پر ہشام کے خلاف لڑائی میں حصہ ہی نہیں لیا تھا ۔ جس کمرے میں سکینہ تھی۔ دہشت گرد اس کمرے میں داخل ہونے سے ہچکچارہے تھے۔ سکینہ بھی اب کمان چھوڑ کر تلوار اٹھا چکی تھی........وہ اپنے کمرے میں دروازے کے پیچھے چھپ کر کھڑی تھی۔ دہشت گرد ہچکچاتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے ۔ سب سے آگے ایک نقاب پوش تھا ۔ اور اس کے پیچھے سلیم پاشا تلوار سونت کر داخل ہورہا تھا ۔ وہ احتیاط سے کمرے میں داخل ہوئے.......لیکن ان کی احتیاط ان کے کسی کام نہ آئی۔ سکینہ کسی بھوکی شیرنی کی طرح دروازے کے عقب سے نکلی اور جھپٹ کر نقاب پوشوں پر حملہ کردیا ۔ اس نے پہلے ہی وار میں اگلے نقاب پوش کا کام تمام کر دیا ۔ اور کسی ماہر اور مشاق تلوار باز کی طرح سلیم پاشا پر حملہ آور ہوئی۔ سلیم پاشا اس کی پھرتی اور چابکدستی دیکھ کر بوکھلا گیا ۔ وہ ایک طبیب تھا ۔ سپاہی نہ تھا ۔ جبکہ سکینہ ہشام کی بہو اور طاہر کی بیوی تھی ۔ اس نے سکینہ کی جھپٹ پلٹ دیکھی تو ڈر کر پیچھے ہٹ گیا ۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ خود کو بچا کر پوری طرح پیچھے ہٹتا ۔ سکینہ کا دیوانہ وار حملہ کام کر گیا ۔ اور سکینہ کی تلوار طبیب کے تلوار والے ہاتھ پر پڑی تلوار سلیم پاشا کے دستے پر گری اور اس کے ہاتھ کی تین انگلیاں کاٹتی ہوئی فرش سے جاٹکرائی ۔ سلیم پاشا کسی ذبح ہوتی ہوئی بکری کی طرح چیخا اور اپنا ہاتھ پکڑ کر چلا تا ہوا یک کونے کی طرف بھاگا۔ اب وہ نہتا تھا ۔ سکینہ اس کے پیچھے لپکی۔ لیکن اس تک نہ پہنچ سکی۔ کیونکہ عقب سے تین چار نقاب پوشوں نے بیک وقت اس دلیر خاتون پر حملہ کردیا تھا ۔سکینہ تین چار تلواروں کو ایک ساتھ نہ روک سکی۔ اور بری طرح زخمی ہوگئی۔ اس کا بایاں کندھا کٹ چکا تھا ۔ اور سر پر بھی تلوار کی کاری ضرب پڑی تھی۔ ایک دم اس کی آنکھوں کے سامنے ستارے سے ناچنے لگے ۔اور پھروہ بیہوش ہو کر زمین پر گر پڑی۔ نقاب پوش اس بہادر عورت کی جانب سے مطمئن ہوکر طبیب سلیم پاشا کی مدد کو پہنچے..........کیونکہ وہ درد کی شدت سے بری طرح لوٹ پوٹ رہا تھا ۔ اس اثناء میں باقی کے حملہ آور بھی اسی کمرے میں آگئے ۔ انہوں نے پورا گھر اچھی طرح چھان لیا تھا ۔ گھر میں ان دونوں کے علاوہ اور کوئی نہ تھا ۔ سلیم پاشا نے درد سے کراہتے ہوئے کہا:
اتنی جلدی باقی لو گ کہاں جاسکتے ہیں؟.......یقیناًوہ لوگ پڑوس کے مکان میں ہونگے۔ تم فوراً آس پاس کے دونوں مکان پر حملہ کردو.........‘‘
سلیم پاشا کی بات ابھی مکمل نہ ہوئی تھی کہ باہر گلی میں دوڑتے ہوئے گھوڑوں کی آواز سنائی دی۔ یہ سب لوگ چوکنے ہوگئے۔ اور سلیم پاشا کی چھٹی حس خطرے کا الارم بجانے لگی۔ اس نے ایک لمحے کی دیر بھی مناسب نہ سمجھی اور باہر کی طرف لپکا ..........اس کے سپاہی اس کے پیچھے تھے۔ وہ گلی میں پہنچے ہی تھے کہ انہیں ایک جانب سے گھڑ سوار سپاہیوں کا .......ایک دستہ اسی جانب آتا دکھائی دیا ۔ دستہ ان لوگوں کے سروں پر پہنچنے ہی والا تھا ۔
یہ وہی لوگ تھے جنہیں بلانے کے لیے ’’ہشام نے پڑوسیوں کے خادم کو روانہ کیا تھا ۔یہ آغا حسن کے سپاہی تھے ۔ قاسم بن ہشام کے دوست آغا حسن نے دہشت گردوں کو قاسم کے مکان سے نکلتے دیکھا اور نعرمارتے ہوئے ان پر حملہ کر نے کے لیے گھوڑا بڑھا دیا ۔ لیکن سلیم پاشا کے سپاہی ان لوگوں سے لڑنے کی ہمت نہ کر سکتے تھے ۔ چنانچہ وہ سب دم دبا کر بھاگے..........آغا حسن نے انہیں للکارتے ہوئے اپنا گھوڑا ان کے پیچھے ڈال دیا ۔ اور بہت جلد قاسم کے باپ اور بھابھی کے قاتلوں کو جالیا ۔ انہوں نے آن کی آن میں تمام دہشت گردوں کا صفایا کر دیا ........لیکن۔
لیکن سلیم پاشا ........نکل چکا تھا ۔ وہ سب سے پہلے باہر آیا تھا اور سب سے پہلے اپنے گھوڑے سے سوار ہوکر یہاں سے فرار ہوگیا تھا ۔ آغا حسن دہشت گردوں سے نمٹ کر واپس لوٹ آیا ۔ لیکن اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا ۔ اور اس کے ذہن میں طرح طرح کے خیالات پیدا ہو رہے تھے.........کہیں دشمن نے قاسم کے اہل خانہ کو کوئی نقصان نہ پہنچا دیا ہو۔ یہی سوچتا ہوا ۔ وہ قاسم کے گھر میں داخل ہوا۔ اور ڈیوڑھی میں ہی اس کا دل دھک سے رہ گیا ۔ قاسم کا باپ ہشام اپنی تلوار کے دستے کو مضبوطی سے پکڑے ڈیوڑھی میں ہی لہو لہان پڑ ا تھا اس کے چہرے پر اب بھی بلا کا رعب تھا ۔ اس کے دائیں بائیں۔ دہشت گردوں کی کئی لاشیں پڑی تھی۔ جنہیں اس اکیلے شخص اور اس کی بہو نے مل کر جہنم رسید کیا تھا ۔ گھر میں موت کا سناٹا تھا اور ہر طرف خون کی لکریں بہہ رہی تھیں۔ آغا حسن غمزدہ دل کے ساتھ آگے بڑھا اور اس نے بوڑھے ہشام کی لاش کو اٹھالیا ۔ اب وہ اندر کے کمروں کی جانب بڑھ رہا تھا ۔ اسے یقین ہوچکاتھا کہ قاسم کے اہل خانہ شہید ہوچکے ہیں۔ وہ کمرے میں داخل ہوا تو اسے ایک خاتون کی لاش نظر ائی۔ جس کا سر اور کندھا زخمی تھا اور باوقار خاتون بھی اپنی شمشیر اپنے ہاتھ میں لیے اوندھے منہ پڑی تھی۔ کمرے میں ایک نقاب پوش کی لاش بھی پڑی تھی۔ اور فرش پر خون ہی خون تھا ۔ آغا حسن کے لیے یہ بہت بڑا صدمہ تھا ۔ اسے رہ رہ کر خیال آرہا تھا ۔ کہ وہ اپنے دوست قاسم کے گھر والوں کو نہ بچا سکا۔ گھر کا سامان بری طرح بکھرا پڑا تھا ۔ اور ہر چیز پر سرخ لہو کے چھینٹے تھے ۔ وہ ابھی تک گم صم کھڑا کمرے کا جائزہ لے رہا تھا ۔ اس نے ہشام کی لاش ایک تخت پر رکھی اور اپنے ساتھیوں کو پورے مکان کا جائزہ لینے کے لیے کہا۔
اچانک اسے ایک نسوانی کراہ سنائی دی۔ یہ غالباً سکینہ کی آواز تھی۔ وہ اچھل کر زخمی سکینہ کی جانب بھاگا ۔ گویا .........خاتون ابھی تک زندہ تھی۔ وہ تیزی سے اس کے قریب پہنچا اور اوندھی پڑی خاتون کو احتیاط کے ساتھ سیدھا کردیا ۔ سکینہ کی آنکھیں کھلی تھیں۔ وہ ہوش میں آچکی تھی۔ اس نے آغا حسن کو دیکھا اور مدھم سی آواز میں کچھ بڑ بڑائی ۔ آغا حسن نے فوراً کہا:۔
میں آغا حسن ہوں.......قاسم کا دوست ........بچے کہاں ہیں؟‘‘ اب سکینہ کے چہرے پر ایک عارفانہ سی مسکراہٹ نظرآئی ۔ اس نے سر اوپر اٹھانے کی کوشش کی ۔ تو آغا حسن نے تیزی سے آگے بڑھ کر اس کا سر اپنے بازو پر رکھ لیا ۔ اور آواز دے کر اپنے ایک سپاہی سے پانی لانے کے لیے کہا.........سکینہ ، حسرت بھری نظرو ں سے اس کو دیکھ رہی تھی اور ہونٹوں سے انتہائی مدھم اور نحیف آواز کچھ الفاظ نکل رہے تھے۔
’’آپ نے پہنچنے میں دیر کر دی....... زندگی الوداع ہوا.......ہوا چاہتی ہے.......بچے پڑوس کے گھر میں تھے .......ہم نے ...ہم نے.....خوب مقابلہ کیا ........ابا........ابا جی، شہید ، ہوچکے ہیں۔.....وہ .......بہت سے نقاب پوش پوش تھے ........دو .........دو .......مر مرتبہ حملہ آور ہوئے تھے.......میں نے نے .....ان ان .........کے .......سرد،دار.........کو زخم .......زخم.......‘‘
سکینہ کی سانسیں اکھڑنے لگیں ۔ آغا حسن کا ساتھی پانی لے آیا تھا ۔ آغا حسن پانی کا پیالہ سکینہ کے ہونٹوں سے لگانے لگا۔ کچھ پانی تڑپتی ہوئی سکینہ کے منہ میں گرا ۔ اور کچھ باہر بہہ گیا ۔ پانی کے قطرے سکینہ کے حلق میں اترے تو وہ ایک بار پھر سنبھلی اور کہنے لگی:۔
’’میرے .......بچے ........بچے.......لے آؤ.......میرے بچے کہاں کہاں ہیں۔؟‘‘
آغاحسن نے فوراً اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ پڑوس کے گھر سے بچوں کو لے آئیں۔ وہ سکینہ کو تسلی دینے لگا۔’’بہادر خاتون ! ہم سب سپاہی آ پ کی عظمت کو سلام کرتے ہیں۔ آپ گھبرائیے مت! آپ صرف زخمی ہیں ۔ میں ابھی آپ کو طبیب کے پاس لے چلتا ہوں۔‘‘
لیکن اس کی آنکھوں میں مایوسی کی جھلک تھی۔ اسے اپنے زندہ بچ رہنے کی کوئی امید نہ تھی۔ کچھ یہ دیر بعد گھر کے صحن میں قاسم کی ماں کے رونے کی آواز سنائی دی ۔ لگتا تھا سکینہ کے بچے آگئے تھے ۔ یہ بڑا دردناک سماں تھا ۔ عمر اور علی گم صم کمرے میں داخل ہوئے ۔ ان کے چہرے ہلدی کی طرح زرد ہورہے تھے ۔ ننھے عمر اور علی کی آنکھوں میں ایک انجانی سی حسرت اور معصومانہ .......یاس کی کیفیت تھی۔ ننھے عمر اور علی اپنی شہید ہوتی ہوئی ماں سے ملنے جارہے تھے ۔ آغا حسن سے یہ منظر دیکھا نہ گیا ۔ بچے ماں کے پاس آئے اور ماں کے ساتھ لگ کر بیٹھ گئے۔ قاسم کی ماں بھی روتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی ۔ اچانک کسی خیال کے تحت آغا حسن نے اپنے سپاہیوں سے کہا:۔


’’جتنی جلدی ممکن ہوسکے ۔ ایک آرام دہ بگھی لے آؤ۔ ہم انہیں سب سے اچھے طبیب کے پاس لے چلتے ہیں‘‘
لیکن آغا حسن پوری طرح پر امید نہیں تھا ۔ سپاہی بجلی کی طرح دوڑتے چلے گئے ۔ سکینہ نے بچوں کو دیکھا تو ایک ہاتھ اٹھا کر ان کے رخساروں کو چھونے کی کوشش کی ۔ لیکن وہ ایسا نہ کرسکی۔ اس کاا ٹھا ہوا ہاتھ گر گیا ۔ اور وہ پھر بے ہوش ہوگئی۔

No comments:

Post a Comment