عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا۔۔۔قسط نمبر46.


حمیرا اور مریم اور عباس کو وہ جانتا تھا ۔ بلکہ یہ نام بھی اس کے اپنے تجویز کردہ تھے۔ وہ بوسنیا کی شہزادی کو کیسے بھول سکتا تھا ۔ جس نے پہلے روز ہی ینی چری کے ایک پنج ہزاری سالار کے ساتھ ٹکرا جانا چاہا۔ وہ بوڑھے عباس اور اس کی بیٹی مریم کو بھی نہ بھول سکتا تھا ۔ اسے اس بات پر بھی بے حد حیرت تھی کہ یہ لوگ کب اور کیسے ادرنہ آنکلے تھے۔ اور یہی نہیں کہ ادرنہ آپہنچے تھے بلکہ اربان اور یہ سب ایک ساتھ ادرنہ کے ایک محلے میں مقیم تھے۔ اس کی آنکھیں پھٹی ہوئی تھیں۔ اور اسے اپنی لاعلمی پر افسوس ہورہا تھا ۔
وہ اربان کو لے کر ایک قہوہ خانے میں جابیٹھا اور دیر تک اس کے ساتھ بوسنیائی مہمانوں کے موضوع پر باتیں کرتا رہا۔ اربان نے اسے یہ بھی بتایا کہ وہ ایک عجیب و غریب منجنیق جسے توپ کہا جائے گا۔ مسلم سپاہ کے لیے بنانا چاہتا تھا ۔ اور سلطان سے بھی ملنے کا خواہشمند تھا۔قاسم کے لیے یہ تمام خبریں نئی اور حیران کن تھیں۔ اس نے اربان کے ساتھ وعدہ کیا کہ وہ اسے کل ہی سلطان کی خدمت میں لے جائے گا۔ اس نے اربان سے اس کے گھر کا پتہ بھی معلوم کرلیا اور یہ کہہ کر رخصت ہوا کہ وہ اب سیدھا قصرِ سلطانی میں سلطان مراد خان کے ساتھ اربان کی جدید توپ کے سلسلے میں ملنے کے لیے جائیگا۔ اور سلطان سے کل کے لیے ملاقات کا وقت حاصل کرنے کی کوشش کریگا۔ ایک طویل ملاقات کے بعد وہ قہوہ خانے سے اٹھا۔اور قصرِ سلطانی کی جانب چل دیا۔
قاسم نے سلطان کو اربان کے بارے میں بتایا تو سلطان کی باچھیں کھل گئیں۔ اور اسے اربان سے ملنے کا بے حد اشتیاق پیدا ہوا۔ قاسم تو کل کا وقت لینے کے لیے حاضر ہوا تھا ۔ لیکن سلطان کل تک صبر نہ کرسکا۔ اس نے قاسم کو محل میں ٹھہرنے کے لیے کہا اور قاسم سے اربان کا پتہ حاصل کرکے اپنے خاص ہرکارے اربان کو عزت کے ساتھ محل میں لانے کے لیے دوڑا دیے۔قاسم نے اربان کی بابت تو سلطان کو سب کچھ بتادیاتھا ۔ لیکن بوسنیائی شہزادی اور عباس کا مطلق ذکر نہ کیا ۔ نہ جانے ا س میں قاسم کی کیا مصلحت تھی۔ قاسم سلطان کی ہدایت کے مطابق محل میں ٹھہر کراربان کا انتظار کرنے لگا۔
بہت کم وقت گزرا تھا کہ عظیم آہنگر اربان کو بڑے عزت اور احترام کے ساتھ سلطان مراد خان ثانی کی خدمت میں پیش کردیا گیا ۔ یہ سلطان کا دیوانِ خاص تھا ۔ جہاں اس وقت سلطان عظیم آہنگر اربان اور قاسم بن ہشام موجود تھے۔ اربان کے چہرے پر اس طرح اچانک بلائے جانے سے کسی قدر حیرت تو تھی، لیکن خوف یا مرعوبیت کا کوئی شائبہ نہ تھا۔ سلطان نے اس آہنگر کا اٹھ کر استقبال کیا تو آہنگر اربان کی آنکھوں میں پہلی بار شدید حیرت کی چمک نظر آئی۔ وہ عیسائیت کے شہنشاہ قیصرِ قسطنطنیہ کے دربار میں بھی حاضر ہوتا تھا لیکن مسلمانوں کے سلطان کو دیکھ کر اس کے دل کی کیفیت عجیب تھی۔ اس نے سوچا کیا بادشاہ بادشاہوں کے علاوہ بھی کسی کا اٹھ کر استقبال کرتے ہیں۔ لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ سلطان مراد خان ثانی ایک درویش صفت بادشاہ ہے۔اربان خود بھی فلسفی اور درویش مزاج شخص تھا۔ چنانچہ اس نے سلطان کی مسکراہٹ میں اپنے لیے اپنائیت اور شفقت محسوس کی۔ سلطان نے اربان کے ساتھ گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے پہلا جملہ یہ کہا:۔
’’ہم اپنے معزز مہمان سے ناراض ہیں۔ کیونکہ قسطنطنیہ کا عظیم آہن گر ہمارے دارالسلطنت میں گزشتہ چار ماہ سے موجود ہے۔ لیکن ہمیں ملنے کے لیے نہیں آیا‘‘۔
لیکن اربان نے جواب میں ایک عجیب بات کہہ کر عثمانی سلطنت کے فرما نروا مراد خان کو لرزا دیا۔ اس نے کہا:۔
’’ہم ذوقِ سلطانی سمجھتے ہیںیہ کھلونوں سے بہل جایا کرتا ہے۔ خانہ بدوشوں کا کوئی بادشاہ نہیں ہوتا جس کی خدمت میں وہ حاضری دیں.........مجھے ظلم سے نفرت ہے۔ اس لیے میں ظلم کو مٹانے کی غرض سے اسلامی افواج کی خاطر ایک تاریخ ساز اسلحہ ایجاد کرنا چاہتا ہوں ۔ فقیر بے پرواہ ہے ان انعامات واکرامات سے جو ایسے فنکاروں کو سلطان دیا کرتے ہیں۔‘‘
سلطان کے لیے ایک آہن گر کی یہ باتیں جن میں گہری معنویت تھی، اجنبی اور غیر مانوس تھیں۔ لیکن وہ درویش تھا ۔ اس نے کسی بات کا برا نہ منایا بلکہ کسی قدر خفیف مسکراہٹ کے ساتھ کہا:۔
’’ہم جانتے ہیں شاہی انعامات معزز آہنگر کے فن کی قیمت نہیں ہوسکتے ۔ لیکن پھر بھی شاہی انعامات ظلِ سبحانی کا عطیہ ہوتے ہیں۔ جنہیں فخر کے ساتھ قبول کرنا چاہیے۔‘‘
لیکن اس مرتبہ بھی سلطان کو ایک سچے درویش کا انوکھا جواب سننا پڑا۔
’’سلطانِ معظم ! انعام تو ہم آپ کو دیں گے اور فی الحقیقت ہمارے انعام کو ہی رہتی دنیا تک ظلِ سبحانی کا عطیہ سمجھا جائے گا۔ وہ ہیرے جواہرات جو ایک سلطان کسی فنکار کو بخشیش کرتا ہے چند ماہ یا چند سال ہی باقی نہیں رہتے۔ لیکن وہ انعام جو ہم سلطنتِ عثمانیہ کو بخشیں گے ۔ ہزاروں سال تک سلطنتِ عثمانیہ کے لیے فخر و صباحات کا باعث رہے گا
اب سلطان کی آنکھوں میں آہنگر کے لیے تحسین کے جذبات امڈ آئے۔ اس کے چہرے پر سلطانی غصے کی ایک لکیر بھی نہ تھی۔ اس نے آگے بڑھ کر اربان کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا ۔ اور کہا:۔
’’زہے نصیب!........ہم سلطنتِ عثمانیہ کے لیے معزز فنکار کا انعام بہ سرو چشم قبول کریں گے ۔ ہمیں تسلیم ہے کہ ہم نے اتنے عظیم فنکار کو اپنے حضور طلب کرکے غلطی کی۔ حق تو یہ تھا کہ ہم فن کے اس شہنشاہ کے حضور خود حاضر ہوتے ہمیں آپ کی باتیں بے حد پسند آئی ہیں۔ اور ہم نے آپ کی توپ کے بارے میں بھی سن لیا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ اس جدید اسلحہ کو سلطنت کے شاہی خزانے سے تیار کریں۔ ہم آج ہی ایک بڑا کارخانہ بنانے کا حکم جاری کرتے ہیں۔ جہاں آپ اپنی نگرانی میں ہر طرح کا سازو سامان نصب کروائیں۔‘‘
قاسم کے لیے سلطان اور اربان کے مابین ہونے والی گفتگو دلچسپ بھی تھی اور پر لطف بھی اسے اربان کی جرأتِ گفتار پر بھی حیرت تھی۔ اور سلطان کی فیاض پر بھی۔ لیکن ابھی وہ اس گفتگو کا مزا لے ہی رہا تھا کہ شاہی دربان نے حاضر ہوکر اس کی تمام حسیات کو یک دم بیدار کردیا ۔ کیونکہ شاہی دربان نے سلطان سے کورنش بجالانے کے بعد کہا:۔
’’سلطانِ معظم! طبیب سلیم پاشا طویل علالت کے بعد شرفِ قدم بوسی کے لیے حاضری کی اجازت چاہتے ہیں۔‘‘
قاسم کے لیے طبیب سلیم پاشا کانام عجیب سنسنی کا حامل تھا ۔ یہی شخص تھا جس نے اس کی پیاری بھابھی کا بروقت علاج کرنے سے انکار کردیا تھا ۔اسے تو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ یہ شخص کب علیل ہوا اور کب صحت یاب۔ ہاں ! البتہ اس نے کئی روز سے طبیب سلیم پاشا کی شکل نہ دیکھی تھی۔ اب دربان نے سلیم پاشا کا نام لیا تو قاسم کی چھٹی حس بیدار ہوگئی۔ اس نے سرکاری سراغ رساں بننے کے بعد اپنی حکمتِ عملی میں یہ بھی سوچ رکھا تھا کہ وہ کسی وقت اس شخص کا حدودِ اربعہ معلوم کرنے کی کوشش ضرور کرے گا۔ لیکن آج اتفاق سے طبیب سلیم پاشا اچانک اس کے سامنے آگیا تھا ۔
سلیم پاشا دیوانِ خاص میں داخل ہوا تو اس کا سر فرطِ اد ب سے جھکا ہوا تھا ۔ وہ سلطان کے حضور پہنچتے پہنچتے کمر تک جھک گیا ۔ لیکن جونہی اس نے سر اوپر اٹھایا اور اس کی نظر قاسم بن ہشام پر پڑی تو اس کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ وہ اپنے پیروں پر بری طرح لڑکھڑا یا۔ اور دیوان، خاص کے فرش پر گرتے گرتے بچا۔سلطان اور اربان نے اس کی اس حرکت کو بڑی عجیب نظروں سے دیکھا۔ سلیم پاشا کے چہرے کی ہوائیاں اڑرہی تھی۔ اور وہ غیر ارادی طور پر اپنے زخمی ہاتھ کو جس پر پٹی بندھی تھی اپنی قباء میں چھپانے کی کوشش کر نے لگا۔اسی حرکت سے اس کی بد نصیبی کا آغاز ہوا۔ کیونکہ قاسم کے لیے اس کا زخمی ہاتھ بے حد اہمیت رکھتا تھا ۔ قاسم کو حیرت تھی کہ ایک غیر جنگجو طبیب کا ہاتھ کیسے زخمی ہوگیا ۔ اس کے ذہن میں اپنی بھابھی کے آخری جملے گونجنے لگے جو اس نے آغاحسن سے سنے تھے۔ اس کی بھابھی نے جان دیتے وقت کہاتھا .............کہ اس نے نقاب پوشوں کے سردار کو زخمی کردیاتھا .........یہی بات سلیم پاشا کا ہاتھ دیکھ کر اسے کیوں یاد آئی۔ اس کا دماغ سنسنانے لگا۔ اور بدن کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ اسے آغاحسن کا بتایا ہوا اپنی شہید بھابھی کا آخری وقت پوری طرح یاد آنے لگا۔ جب اس کی بھابھی نے طبیب سلیم پاشا کو دیکھ کر حیرت کا اظہار کیا تھا ۔ اور انگلی کا اشارہ کرکے کوئی بات کہنے کی کوشش کی تھی۔ قاسم کو ایسا محسوس ہوا جیسے اس کی بھابھی نے آخری وقت میں اپنے قاتل کو پہچان لیا تھا ۔ اور اس کی جانب انگلی سے اشارہ کیاتھا ۔
اب قاسم کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی کی لہر برقی رو کی طرح دوڑنے لگی۔اسے اپنے دماغ پر بے حد دباؤ محسوس ہوا۔ اور اس کے جبڑے اکڑگئے۔ کیونکہ یکے بعد دیگرے بہت سی کڑیاں ملتی جارہی تھیں۔ اس لیے کہ اس کے ذہن میں یہ بات تو تھی ہی کہ سلیم پاشا نے آخری وقت میں زخمی خاتون کو دیکھنے سے انکار کردیا تھا ۔ قاسم نے سوچا یقیناًیہی وقت رہا ہوگا۔جب طبیب نے اپنے زخموں کی مرہم پٹی کی ہوگی ۔ اب اس کی آنکھوں میں لال لال ڈورے دوڑنے لگے۔ اوراس کی بھنوی تن کر سیدھی ہوگئیں۔ اس کی نبضوں کی رفتار بھی تیز ہونے لگی۔ اسے یقین ہورہا تھا کہ کہ طبیب سلیم پاشا ہی اس کے خاندان کا قاتل تھا ۔ لیکن سلطان کے الفاظ نے اس کے خیالات کی رو کو اپنی جانب متوجہ کرلیا۔
سلطان سلیم پاشا سے کہہ رہا تھا :۔
’’محترم طبیب ! آپ کا ادب شاہی بجالانے کا انداز ہمیں پسند نہیں آیا۔ ہم رکوع و سجود کو صرف اللہ کے حضور جائز سمجھتے ہیں۔ لیکن بہر حال ہمیں آپ کی علالت کا سن کر افسوس ہواتھا ۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ آپ کے ہاتھ پر پٹی بندھی ہے۔ معلوم ہوتا ہے ۔ آپ کے ہاتھ کی انگلیاں سلامت نہیں رہیں...نصیب دشمناں ! کہیں کٹ تو نہیں گئیں۔ سنا ہے آپ بغاوت کے دنوں میں ہی کسی حادثے کا شکار ہوئے ہیں۔‘‘
بغاوت کے دنوں میں سلیم پاشا کے حادثے کا ذکر قاسم کے لیے ایک اور کڑی تھا۔ تو گویا سلیم پاشا کا زخم بھی انہیں ایام کا ہے ۔ جب اس کی بھابھی شہیدہوئی تھی۔ اور پھر جب سلیم پاشا نے سلطان کو جواب دیا ۔ تو قاسم کے شک کی رہی سہی کسر بھی پوری ہوگئی۔ کیونکہ طبیب کا جواب فی الحقیقت بچگانہ اور غیر معقول تھا ۔ سلیم پاشا نے نے بتایا :۔
’’سلطانِ معظم! میں ناواقفِ آدابِ شاہی ہونے پر بے حد شرمسار ہوں...سلطان معظم نے میرے زخمی ہاتھ کی بابت دریافت فرمایا........میرا یہ ہاتھ ایک نسخہ تیار کرتے ہوئے اچانک تیزاب میں جل کر ضائع ہوگیا ۔ یہی وجہ ہے کہ میں کئی روز سے صاحب فراش ہوں۔‘‘
طبیب کی بات اس لیے غیر معقول تھی کہ اس کی پٹی دیکھ کر صاف پتا چلتا تھا کہ اس کے ہاتھ کی انگلیاں کٹ چکی ہیں۔ اور پھر یہ بات بھی تھی کہ تیزاب میں اچانک ہاتھ پڑجانے سے اس قدر سنگین نقصان ممکن نہیں تھا۔طبیب محل میں بڑے ہونے والے ایک بادشاہ کو تو دھوکہ دے سکتا تھا لیکن قاسم جیسے ذہین دماغ کو فریب نہ دے سکتا تھا ۔

 

No comments:

Post a Comment