اللہ والوں کے قصّے۔<>۔۔قسط نمبر 39

حضرت فضیل بن عیاضؒ کے تائب ہونے کا واقعہ یوں ہے کہ ایک مرتبہ کوئی قافلہ آپ کے قرب میں آکر ٹھہرا ۔ اس قافلہ میں کوئی شخص یہ آیت تلاوت کر رہا تھا۔ 

(ترجمہ) کیا اہل ایمان کے لیے وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے قلوب اللہ کے ذکر سے خوفزدہ ہوجائیں۔‘‘ 
اس آیت کا فضیل کے قلب پر ایسا اثر ہوا کہ جیسے کسی نے تیر ماردیا ہو۔ آپ نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا۔ ’’ یہ غارت گری کا کھیل کب تک جاری رہے گا اور اب وہ وقت آچکا ہے کہ ہم اللہ کی راہ میں چل پڑیں۔ ‘‘ یہ کہہ کر کافی دیر تک زاردو قطار روتے رہے۔اس کے بعد آپ عبادت میں مشغول ہوگئے۔ پھر ایک صحرا میں جانکلے جہاں ایک قافلہ پڑاؤ ڈالے ہوئے تھا۔ اہل قافلہ میں سے کوئی کہہ رہا تھا کہ اس راستے میں فضیل ڈاکے مارتا ہے۔ لہٰذا ہمیں راستہ تبدیل کر لینا چاہیے۔ یہ سن کر آپ نے قافلہ والوں سے فرمایا۔ ’’ اب قطعاً بے خوف ہوجاؤ۔ اس لیے کہ میں نے راہزنی سے توبہ کرلی ہے
پھر آپ نے اُن تمام لوگوں سے جن کو آپ سے اذیتیں پہنچی تھیں۔ معافی طلب کر لی لیکن ایک یہودی نے آپ کو معاف کرنے سے انکا کر دیا۔ اس نے معاف کرنے کے لیے یہ شرط پیش کی’’ اگر تم سامنے والی پہاڑی کو یہاں سے ہٹا دو تو میں معاف کردوں گا۔ 
چنانچہ آپ نے اس پہاڑی کی مٹی ہٹانی شروع کردی اور اتفاق سے ایک دن ایسی آندھی آئی کہ وہ پوری پہاڑی اپنی جگہ سے ختم ہوگئی۔ یہودی نے جب یہ دیکھا۔ تو اس نے اپنے دل سے اپنی دشمنی ختم کردی اور عرض کیا
 میں نے اپنے دل میں عہد کیا تھا کہ جب تک تم میرا لوٹا ہوا مال واپس نہیں کرو گے میں تمہیں معاف نہیں کروں گا لہٰذا اس وقت میرے تکیے کے نیچے اشرفیوں کی ایک تھیلی رکھی ہوئی ہے وہ آپ اٹھا کر مجھے دے دیں تاکہ میری قسم کا کفارہ ادا ہوجائے۔ ‘‘ چنانچہ آپ نے وہ تھیلی اُٹھا کر اُسے دے دی۔ اس کے بعد اُس یہودی نے یہ شرط پیش کی کہ پہلے مجھے مسلمان کرو۔ پھر معاف کر دوں گا۔ اس پر آپ نے اسے کلمہ پڑھا کر مسلمان کیا۔ 
اسلام لانے کے بعد اُس نے آپ کو بتایا۔ ’’ میرے مسلمان ہونے کی وجہ یہ ہے ۔ کہ میں نے تورات میں پڑھا تھا کہ اگر صدق دلی سے تائب ہونے والا خاک کو ہاتھ لگا دیتا ہے تو وہ سونا بن جاتی ہے لیکن مجھے اس پر یقین نہیں تھا۔ اور آپ جبکہ میری تھیلی میں مٹی بھری ہوئی تھی اور آپ نے اُسے اُٹھا کر مجھے دی تو اس میں سے واقعی سونا نکل آیا اور مجھے یقین ہوگیا کہ نہ صرف آپ کی توبہ سچی ہے بلکہ آپ دین بھی سچا ہے
ایک مرتبہ حضرت رابعہ بصریؒ نے سات شب و روز روزے رکھے اور رات وقت قطعاً آرام بھی نہ کیا لیکن جب آٹھویں روز بھوک کی شدت پر نفس نے یہ فریاد کی کہ مجھے کب تک اذیت دوگی۔ اسی وقت ایک شخص کھانے کی کوئی شے پیالے میں لیے ہوئے حاضر ہوا۔ آپ نے اس شخص سے پیالہ لے کر رکھ دیا پھر شمع روشن کرنے اُٹھیں اور اسی وقت ایک بلی کہیں سے آئی اور اُس نے وہ پیالہ اُلٹ دیا اور جب پانی سے روزہ کھولنے اُٹھیں تو شمع بجھ گئی اور پانی کا آبخورہ بھی ہاتھ سے گر کر ٹوٹ گیا۔ اس وقت آپ نے ایک دلدوز آہ بھر کر اللہ تعالیٰ سے عرض کیا۔ ’’ میری ساتھ یہ کیسا معاملہ کیا جا رہا ہے
ندا آئی ۔ ’’ اگر دنیاوی نعمتوں کی طلب گار ہو تو ہم عطا کیے دیتے ہیں لیکن اس کے عوض اپنا درد تمہارے دل سے نکال لیں گے۔ اس لیے کہ ہمارے غم اور دنیاوی غم کا ایک دل میں جمع ہونا ممکن نہیں اور نہ کبھی جدا گانہ مرادیں ایک دل میں جمع ہوسکتی ہیں۔ ‘‘ یہ ندا سنتے ہی آپ نے دامن اُمید چھوڑ کر اپنا دل حب دنیا سے اس طرح خالی کرلیا کہ جس طرح موت کے وقت مرنے والا اُمید زندگی ترک کرکے قلب کو دنیاوی تصورات سے خالی کر دیتا ہے۔ اس کے بعد آپ بھی دنیا سے اس طرح کنارہ کش ہوگئیں کہ ہر صبح یہ دعا کرتیں۔ 
’’ اے اللہ ! مجھے اس طرح اپنی طرف متوجہ فرمالے کہ اہل جہاں مجھے تیرے سوا کسی کام میں مشغول نہ دیکھ سکیں۔ 
تیس برس تک حضرت فضیل عیاضؒ کو کبھی کسی نے ہنستے ہوئے نہیں دیکھا تھا لیکن جب آُپ کے صاحبزادے کا انتقال ہوا تو آپ مسکرا رہے تھے اور جب لوگوں نے آپ سے مسکرانے کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا۔ ’’ چونکہ اللہ تعالیٰ اس کے مرنے سے خوش ہوا۔ لہٰذا میں بھی اس کی رضا میں خوش ہو کر مسکرا دیا۔‘‘ 
ایک قافلہ حج کی نیت سے روانہ ہونے لگا تو اہل قافلہ نے حضرت بشر حافیؒ کو بھی ہمراہ چلنے کے لیے عرض کیا ۔ لیکن آپ نے ساتھ چلنے کے لیے تین شرطیں پیش کردیں۔ ’’ اوّل یہ کہ کوئی شخص اپنے ہمراہ توشہ نہ لے۔ دوئم یہ کہ کسی سے کبھی کچھ طلب نہ کرے۔ سوئم یہ کہ اگر کوئی کچھ پیش بھی کرے تو قبول نہ کرے
یہ سن کر اہل قافلہ نے عرض کیا کہ پہلی دوشرطیں تو ہمیں منظور ہیں لیکن تیسرے شرط قابل قبول نہیں۔ اس پر آپ نے فرمایا۔ 
’’ توکل حجاج کا توشہ سفر ہے اور اگر تم یہ قصد کر لیتے کہ کسی سے کچھ نہ لیں گے تو خدا پر توکل بھی ہوجاتا اور درجہ ولایت بھی حاصل ہوجات


 

No comments:

Post a Comment