اللہ والوں کے قصّے۔><۔۔قسط نمبر 40


 حضرت احمد حربؒ کا ایک ہمسایہ آتش پرست تھا۔ ایک دفعہ دورانِ سفر اُس آتش پرست کو ڈاکوؤں نے لوٹ لیا۔ آپ دل جوئی کے لیے اس کے یہاں تشریف لے گئے۔ وہ بڑے احترام کے ساتھ پیش آیا چونکہ وہ زمانہ قحط سالی کا تھا اس لیے آتش پرست نے اپنے دل میں خیال کیا کہ شاید آپ کھانا کھانے کی غرض سے پہلے آئے ہیں۔ چنانچہ اس نے کھانے کا انتظام کرنا چاہا۔ اس پر آپ نے اُسے فرمایا۔’’ ہم کھانے کی غرض سے نہیں بلکہ دلجوئی کے لیے آئے ہیں۔ ‘‘ 
اس پر آتش پرست نے جواب میں عرض کیا۔ ’’ میرا مال لٹ گیا لیکن تین چیزیں لائق شکر ہیں۔ اول یہ کہ دوسروں نے میرا مال لوٹا لیکن میں نے کبھی کسی کا مال نہیں لوٹا دوم یہ کہ اب بھی میری پاس نصف دولت باقی ہے۔ سوم یہ کہ میرا مذہب محفوظ رہ گیا
یہ سن کر آپ نے پوچھا ۔ ’’ تم آگ کیوں پوجتے ہو؟‘‘ 
اس نے کہا۔ ’’ محض اس لیے کہ روزِ محشر جہنم کی آگ سے بھی محفوظ رہوں اور خدا کا قرب بھی حاصل ہوجائے۔ ‘‘ 
آپ نے فرمایا۔ ’’ آگ کی حقیقت تو اتنی سی ہے کہ اگر ایک بچہ اس پر پانی ڈال دے تو بجھ جائے گی۔ اس کے علاوہ تم 17 سال سے آگ پوج رہے ہو لیکن آج تک اس آگے نے تمہارے ساتھ کیا حسن سلوک کیا کہ جس کی بنا پر تم قیامت کے روز اس سے بہتری کی توقع رکھتے ہو
آپ کیے اس قول سے متاثر ہو کر اُس نے عرض کیا۔ ’’ اگر آپ میرے چارسوالوں کا جواب دے دیں تو میں آپ کے دین پر ایمان لا سکتا ہوں۔ اوّل خدا نے مخلوق کو کیوں تخلیق کیا؟ دوم تخلیق کے بعد رزق کیوں دیا ؟ سوم رزق دینے کے بعد موت سے کیوں دو چار کیا؟ چہارم مارنے کے بعد زندہ کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟‘‘ 
آپ نے جواب دیا۔ ’’ تخلیق مخلوق کا مقصد یہ ہے کہ خالق کی شناخت ہوسکے۔ رزق عطا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس کی رزاقی کا اندازہ کیا جا سکے اور موت کا مقصد اس کی جباری و قہاری کا اندازہ کرنا ہے اور موت کے بعد زندگی کا مقصد یہ ہے کہ اس کے قادر ہونے کا تسلیم کیا جا سکے۔ ‘‘ اتنا کہنے کے بعد آپ بہت دیر تک آگ میں ہاتھ ڈالے بیٹھے رہے لیکن آگ سے آپ کا ہاتھ متاثر نہ ہوا۔ یہ دیکھ کر وہ آتش پرست فوراً مسلمان ہوگیا
حضرت حاتم اصمؒ نے ایک دن بغداد میں خلیفہ سے ملاقات کے وقت فرمایا۔ ’’ السلام و علیکم یا زاہد!‘‘
خلیفہ نے کہا۔ ’’میں تو زاہد نہیں ہوں بلکہ آپ زاہد ہیں۔ ‘‘ 
آپؒ نے فرمایا۔ ’’ خدا کا یہ فرمان ہے’’ قل متاع الدنیا قلیل ‘‘ یعنی اے نبیؐ! فرما دیجئے کہ دنیا کی متاع بہت تھوڑی ہے اور چونکہ توقلیل شے پر قانع ہوگیا اس لیے زاہد ہے اور میں دنیا و آخرت پر بھی قانع نہ ہوسکا اس لیے میں کیسے زاہد ہو سکتا ہوں
ایک دن کچھ لوگوں نے حضرت صالح بن عبدالکریمؒ سے سوال کیا کہ خوف اور اُمید میں کون سی شے بہتر ہے۔ ‘‘ 
آپ نے فرمایا۔ ’’ بہتر تویہ ہے کہ دونوں ہی ہوں لیکن اُمید سے خوف کا پلڑا بھاری ہے۔ ‘‘ اور جب اسی قول کو حضرت سلیمان دارالیؒ کے سامنے نقل کیا گیا تو آپ نے فرمایا۔ ’’ میرے نزدیک تو تمام عبادات کا دارومدار ہی خوف پر ہے۔ کیونکہ اُمید عبادت سے بے نیاز کردیتی ہے اور دین و دنیا کی بنیاد ہی خوف پر قائم ہے، اور جب خوف پر اُمید کا غلبہ ہوجاتا ہے تو قلب کی شامت آجاتی ہے اور خوف کی زیادتی سے عبادت میں بھی زیادتی رونماہوجاتی ہے۔ ’’ لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی تھی کہ خدا سے اتنا ڈرو کہ رحمت سے مایوس نہ ہو اور نہ اتنی اُمید رکھو کہ عذاب سے بے خوف ہوجاؤ
 

No comments:

Post a Comment