عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا۔۔/////۔قسط نمبر38

قاسم اور قاسم کے ساتھیوں کی نظر اس کے چہرے پر پڑی تو وہ تینوں حیرت سے اچھلے.......یہ تو وہی لڑکی تھی جو بوسنیا کے محل میں شاہی خواتین کی حفاظت کرتے ہوئے قاسم کے ساتھ ٹکرائی تھی۔ یہ تو شہزادی تھی۔ بوسنیا کے شاہی خاندان کی ایک حسین و جمیل شہزادی ۔ قاسم نے اسے دیکھا تو اس حسین اتفاق پر انگشت بدنداں رہ گیا ۔ اس نے سوچا بوڑھے بارٹا کوزین کے گھر پناہ لینے والی لڑکی بوسنیا کی یہی شہزادی ہوسکتی ہے۔ حیرت کے مارے وہ کچھ اور تو نہ کہہ سکا۔ صرف اتنا کہہ کر رہ گیا ۔
’’آ.......آپ؟؟؟‘
’’جی !.......میں !!‘‘
شہزادی مسکرارہی تھی۔اس کی آنکھوں میں بیک وقت تشکر ، احسان مندی ، محبت اور عقیدت کے جذبات تھے۔ وہ اپنے حسین و جمیل چہرے کو اٹھائے قاسم کے سامنے بے حد مرعوب و متأثر کھڑی تھی۔ اس کی آنکھوں میں قاسم کے لیے عقیدت کے آنسو تھے۔جو پچھلی رات کے ستاروں کی طرح جھلملا رہے تھے۔قاسم کو وہ اس انداز میں بہت پیاری لگی۔ لیکن وہ ایک مسلمان مجاہد تھا ۔ اس نے فوراً نظریں جھکالیں۔ شہزادی قاسم سے مخاطب ہوئی:
’میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ مسلمان ایسے ہوتے ہیں۔ ہمارے دربار میں تو کارڈنیل جولین نے چند ماہ قبل پاپائے روم کا پیغام پہنچایا ۔ اور مسلمانوں کے متعلق جو تقریر کی وہ مسلمانوں کو اس زمین کے بددترین درندے ثابت کرتی تھی۔ لیکن کل سے اب تک مسلمان سپاہیوں کے اندازو اطوار دیکھ کر مجھے یقین ہوگیا کہ پاپائے روم کا نائب کارڈ نیل جولین جھوٹ بکتا تھا ۔‘‘
قاسم بدستور مسکرارہاتھا ۔ اس نے دھیمے سے لہجے میں کہا:۔
’’شاید آپ کو یہ جان کر کیسا لگے ؟.........کہ پاپائے روم کے نائب کارڈ نیل جولین کو رزمگاہ میں میں نے خود اپنے ہاتھوں سے دو ٹکڑوں میں کاٹ دیا ہے۔ حالانکہ کارڈ نیل نے عیسائیوں کی فتح کا دعویٰ کرتے ہوئے معاہدہ شکنی کا گناہ اپنے سر لے لیا تھا ۔ میں نے اسے عبرت ناک انجام سے دوچار کرکے عیسائی دنیا کے سامنے ثابت کردیا ہے کہ عیسائیت اپنے دین سے گمراہ ہوچکی ہے۔.......محترم شہزادی ! آپ یقین کیجیے کہ اسلام کے سائے میں سلگتے جسموں کی ٹھنڈک اور چٹختی روحوں کی تسکین موجود ہے
قاسم کی بات سن کر بارٹاکوزین ایک قدم آگے بڑھا اور کہنے لگا:۔’’قاسم بن ہشام ! کیا تمہارے مذہب میں کوئی ایسا بوڑھا شخص بھی داخل ہوسکتا ہے جس نے اپنی تمام گزشتہ زندگی عیسائیت پر گزاری ہو؟‘‘
بارٹا کوزین کے جملے سے قاسم چونک گیا ۔ اور اس کی آنکھوں میں خوشی کی لہر نظر آئی۔ اس نے فوراً بارٹا کوزین کی جانب مڑ کر دیکھا او ر بوڑھے بارٹا کوزین کے دونوں ہاتھ تھام لیے۔
’’ہمارے مذہب میں کوئی بھی شخص اپنی سانس کے آخری لمحوں میں بھی داخل ہوسکتا ہے۔ میں آپ کو اسلام میں خوش آمدید کہتا ہوں۔ آپ میرے ساتھ چل کر ہمارے سلطان سے ملیے۔ اور سلطانِ معظم کے ہاتھ پر اسلام قبول کیجیے
لیکن بارٹا کوزین کا جواب سن کر قاسم اور بھی زیادہ حیران ہوا۔ بوڑھے بارٹا کوزین نے کہا:۔’’نہیں میں تمہارے ہاتھ پر اسلام قبول کروں گا۔........مجھے عرصہء دراز سے حق کی تلاش تھی۔ میں نے اسی پیاس کو بجھانے کے لیے بہت دور دور کے سفر کیے۔ لیکن تمہارے ساتھ چند باتیں کرکے مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میر تشنگی پہلی مرتبہ بجھنے لگی ہے۔ میرے لیے جس قدر قابلِ احترام تم ہو ۔ تمہارا سلطان نہیں ہوسکتا ۔‘‘
اب قاسم کے لیے یہاں رکنا ناگزیر ہوگیا تھا ۔ اسے بارٹا کوزین کو مسلمان کرنا تھا ۔ وہ سوچ رہا تھا کہ صرف کلمہ پڑھا دینے سے کسی شخص کو مسلمان نہیں کیا جاسکتا ۔اس کے لیے ضروری ہے کہ نومسلم کو اسلام کے نظامِ توازن کے بارے میں بتایا جائے۔ چنانچہ قاسم نے بوڑھے بارٹا کوزین سے کہا:
’ٹھیک ہے محترم بزرگ! آپ مجھے اس وقت کچھ دیر کے لیے اجازت دیجیے تاکہ میں اپنی لشکر گاہ تک ہو آؤں۔ میں مغرب کے بعد دوبارہ آپ کے درِ دولت پر حاضری دوں گا۔ اور اس وقت اسلام قبول کرنے سے متعلق ضروری معلومات سے آپ کو آگاہ کروں گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ آپ رات کا کھانا ہمارے ساتھ کھائیں گے۔ اور پھر دیر تک ہم لوگ باتیں کرسکتے ہیں۔‘‘
یہ الفاظ بوسنیائی شہزادی کے تھے ........اگرچہ اس شہزادی نے تبدیلی مذہب کا کوئی عندیہ نہیں دیا تھا ۔ تاہم قاسم کے دل میں یہ بات گھر کر گئی تھی کہ اب بوسنیائی شہزادی بھی اسلام کی طرف ضرور مائل ہوگی۔ بہتری کے اسی خیال کے تحت اس نے واپس آنے کا ارادہ کیا اوران لوگوں سے اجازت لی
وہ بارٹا کوزین سے اجازت لے کر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ سیدھا لشکر گاہ کی جانب آیا ۔ مسلمان سپاہی انتہائی خوش و خرم تھے ۔وارنا سے لے کر بوسنیا تک جو لارڈسٹیفن کے بعد تخت نشین ہواتھا ۔ لارڈسٹیفن کے برعکس مسلمانوں کا جانی دشمن بن گیا تھا ۔ حالانکہ لارڈ سٹیفن کی ایک بہن ’’بایزید یلدرم‘‘ کی بیوی تھی۔ اور اس کی بیٹی شہزادی ’’سروین ‘‘ سلطان مراد خان ثانی کی ملکہ تھی۔اس جنگ میں جارج برنیکووچ کو بھی شکست ہوئی تھی۔ اور سلطان نے سربیا کا ملک مکمل طور پر اپنی سلطنت میں شامل کر لیا تھا ۔ قاسم لشکر گاہ میں داخل ہوا تو اس کے ذہن میں یہی خیال موجزن تھا کہ سلطان نے فی الوقت بوسنیا تک پہنچ کر اپنی موجودہ فتوحات کا سلسلہ مکمل کر لیا ہے۔ اور اب سلطان واپس ادرنہ جانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ قاسم سوچ رہا تھا کہ وہ کسی نہ کسی طرح سلطان سے اجازت لے کر ’’البانیہ‘‘ کی جانب چلا جائے اور اپنی محبت یعنی مظلوم مارسی کو سکندر بیگ کے خونی پنجے سے جھڑا لائے۔ اس نے سوچا کہ کل کسی وقت سلطان سے ملاقات کرکے اپنی خواہش کا اظہار کرے۔
مغرب کی نماز سے فارغ ہوکر قاسم پھر شہر کی جانب چل دیا۔ اس بارہ وہ اکیلا تھا ۔ اس کا رخ بوڑھے بارٹا کوزین کے گھر کی جانب تھا ۔ اور پھر کچھ ہی دیر بعد وہ بارٹا کوزین کے مکان میں اس کے ہمراہ بیٹھا باتیں کررہا تھا ۔ بارٹا کوزین کی بیٹی اس پڑوسن خاتون کو بھی اپنے گھر منتقل کر چکی تھی۔ جس نے آج ایک خوبصورت بچے کو جنم دیا تھا ۔ اسی گھر میں بوسنیا کی بے پناہ حسین شہزادی بھی قاسم کی منتظر تھی۔ بارٹا کوزین کے دو نوجوان بیٹے ’’وینس‘‘ کے جہازوں پر ملازم تھے۔ اور دونوں اپنے بیوی بچوں سمیٹ وینس کے شہر میں رہائش پذیر تھے۔ اس کی اکلوتی بیٹی بیوہ تھی۔ جس کا نوجوان شوہر ایک سال قبل مسلمانوں کے خلاف جنگ میں مارا گیا تھا ۔ بارٹا کوزین کی بیٹی بھی جوان تھی۔ بوسنیا کی شہزادی جب محل سے گرفتار ہونے کی بجائے زندہ سلامت نکل آئی تو اس نے اسی لڑکی کے پاس پناہ لی۔ اور اب صورتحال انتہائی دلچسپ تھی۔ بارٹا کوزین اور اس کی بیٹی اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کرچکے تھے۔ جبکہ شہزادی ابھی تک شش و پنج میں مبتلا تھی ۔ کچھ دیر بعد بوڑھا بارٹا کوزین قاسم کو کھانے کے کمرے میں لے گیا ۔ جہاں دستر خوان پر قاسم ، بارٹا کوزین ، بوسنیائی شہزادی اور بارٹا کوزین کی بیٹی ایک ساتھ کھانا کھانے کے لیے بیٹھ گئ


 

No comments:

Post a Comment