موذن رسولﷺ کی ایمان افروز داستان حیات <> دوسری قسط.

آج میرے سامنے پیالے میں دمشق کا ٹھنڈا اور میٹھا پانی رکھا ہے لیکن کوئی میرے دل سے پوچھے، اس پانی کا زمزم کے تیکھے، نمکیات ملے پانی سے کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ خانہء کعبہ کے صحن میں زمین سے اُبلتا ہوا زمزم کا پانی مجھ جیسے غلام چلوؤں سے پیا کرتے تھے۔

ایسا کیوں تھا؟ کیا سحر تھا مکے کی فضا میں؟ ایک غیر ذی زرع وادی میں سورج کی حدت سے تپتا ہوا یہ شہر! نہ کوئی درخت، نہ سبزہ، نہ پرندے، نہ تتلیاں۔ فطرت کی چھوٹی سے چھوٹی توجہ سے بھی محروم یہ نگری!کیا بات تھی اس میں کہ سب کے دلوں میں گھر کر رکھا تھا! ذہنوں پر کچھ اس طرح قبضہ کر رکھا تھا اس شہر نے کہ ہر دل کی دھڑکن بنا ہوا تھا اس کا صرف ایک جواب تھا۔ نہایت واضح اور مختصر۔ خانہء کعبہ کی سیاہ مکعب نما عمارت جو ایک آسمانی نگینے کی طرح اس ریگ زار کا زیور بنی ہوئی تھی، اس کے سائے میں سوکھجوروں کے سایوں کا سُرور تھا۔ یوں کہیے کہ یہ کرۂ ارض کا سب سے خوشگوار نخلستان تھا۔ جاہلیت کے دور میں بھی یہ امن کا گہوارہ تھا۔ کسی کو یہاں تلوار اٹھانے کی اجازت نہیں تھی۔ کوئی اپنے دشمن پر بھی ہاتھ نہیں اُٹھا سکتا تھا۔ کوئی جھگڑا، کوئی فساد، کوئی تنازعہ، کوئی جنگ خانہء کعبہ کی حدود میں نہیں لائی جا سکتی تھی

خانہء کعبہ، اللہ کا یہ گھر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا۔ صرف ایک اللہ وحدہ‘ لاشریک کی عبادت کے لئے لیکن پھر انسانی ذہنوں میں کچھ ایسا خلفشار پیدا ہوا کہ یہ عظیم عبادت گاہ لکڑی اور پتھروں سے بنائے ہوئے بُتوں کا گودام بن گئی۔ ان بُتوں کو عرب اپنے خداؤں کا درجہ دیتے تھے، یعنی پہلے تو اُس قادرِ مطلق کا تصور گم ہوا، پھر اُس کی جگہ بُتوں نے لے لی اور پھر ایک نہیں سینکڑوں خداؤں کا تصور اُبھرا، اور پھر وحدانیتِ الٰہی کی یہ قدیم علامت تین سو ساٹھ بُتوں کا مسکن بن گئی جو بیچے جاتے تھے، خریدے جاتے تھے اور ہر خرید و فروخت پر منافع کمایا جاتا تھا۔ کوئی دن کے خدا تھے، کوئی رات کے۔ کوئی معذوروں کے خدا تھے، کوئی صحت مندوں کے۔ خوش نصیبی کے خدا الگ، سفر کے الگ اور سب کے سب دنیوی منفعت کے لئے

ابدی بہبود اور اُخروی بہتری کا کوئی عنصر ان کی عبادت میں شامل نہیں تھا۔ خانہء کعبہ میں آنے جانے والے قافلوں کے پاس صرف نفع کمانے کا تصور تھا جو بازاروں اور منڈیوں میں نظر آتا ہے۔

ہر سال ایک خاص مہینے میں عرب کے قبائل میلوں کی مسافت طے کر کے اپنے اپنے خداؤں کے حضور حاضری کے لئے آتے تھے۔ ایک میلہ سا لگ جاتا تھا۔ شام کے تاجر، یمن کے سمندری تجارت کرنے والے تاجر، فارس کے تاجر اور دور دراز مقامات سے آئے ہوئے غلاموں کی خرید و فروخت کرنے والے تاجر، سبھی یہاں جمع ہوتے تھے۔ اس میلے میں سونا، چاندی، کپڑے، خوشبوئیں بھی فروخت ہوتی تھیں، غلام بھی اور خدا بھی!

اُسے دیکھو، وہ کہتا ہے کہ وہ خدا سے باتیں کرتا ہے‘‘ ابوجہل کی آواز نے ہم غلاموں کو چونکا دیا۔ اُس کا غلام آواز سنتے ہی ہڑبڑا کر اُٹھ کھڑا ہوا مگر ابوجہل کا فقرہ جلد ہی قہقہوں میں ڈوب گیا اور اُس کا غلام دوبارہ بیٹھ گیا۔

’’پیغمبر صاحب(ﷺ) آپ ہمیں پانی پرچل کر کیوں نہیں دکھاتے۔‘‘

اب کے میں اُٹھ کھڑا ہوا۔ یہ اُمیہ کی آواز تھی۔ میرے بدنصیب آقا کی جو آج جہنم میں اپنی اس ہر زہ سرائی کا جواب سُن رہا ہے۔

پھر میں نے انہیں دیکھا۔ محمدﷺ بن عبداللہ کو، ہمیشہ کی طرح تنہا، نظریں پہاڑوں کی سمت، جہاں لوگ کہتے تھے ایک فرشتے نے اُن سے بات کی تھی۔ وہ ابوجہل کے طنز سے بے نیاز، کعبے کے گرد چلتے چلتے، نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ اِدھر تاجروں کی محفل میں ہر چہرے پر ہنسی تھی۔ ہر شخص اس مذاق میں شریک تھا۔ صرف ابوسفیان تھا جس کے چہرے پر کوئی مسکراہٹ نہیں تھی

ہم غلاموں کے لئے مقدم تو ہمارے آقا تھے لیکن اپنے آقا کے بعد اگر مکے میں ہم کسی کو قابل اعتنا سمجھتے تھے تو وہ ابوسفیان کی شخصیت تھی۔ اس کی اور ہماری کہانی ایک دوسرے سے ایسے ہی منسلک ہے جیسے شکار اور شکاری کی۔

اچانک وہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ محفل میں سنجیدگی لوٹ آئی۔ وہ کہنے لگا:

’’ایک خدا کو مانننے والا خدا کا منکر ہے‘‘۔

ہمیشہ کی طرح آج بھی ابوسفیان نے دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا تھا کیونکہ سب سے زیادہ تکلیف کفار کو اسی بات کی تھی کہ وہ ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دیتا ہے۔ کفار نے اپنی ضعیف الاعتقادی میں موقع محل کے لحاظ سے کئی خدا بنا رکھے تھے۔ وحدہ‘ لاشریک کا تصور اُن کے دائرہِ فکر سے باہر تھا۔ ابوسفیان فکر مند تھا

’اگر ہم نے اس فتنے کو ختم نہ کیا تو خدا ہم سے ناراض ہو جائیں گے اور اپنی رحمتیں کسی اور شہر پر نچھاور کرنے لگیں گے۔‘‘

ابوجہل جواب تک خاموش تھا، یکایک بول اٹھا:

’’ابولہب! تم اُس کے چچا ہو۔ یہ تم قریبی رشتہ داروں کی ذمہ داری ہے کہ اُسے راہِ راست پر لاؤ‘‘۔

ابولہب گھبرا گیا۔ اُس نے اب تک دانستہ طور پر اپنے آپ کو اس ساری گفتگو سے الگ رکھا تھا۔ وہ اس میں شریک نہیں ہونا چاہتا تھا۔ ابوجہل نے خواہ مخواہ اُسے بیچ میں گھسیٹ لیا۔

’’راہ راست پر لاؤں، کس کو؟ محمدؐ کو ؟ وہ کوئی بچہ ہے؟ چالیس سال کا ہے! اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ سراسر بدنامی کا باعث ہے۔ میرے لئے، اپنے خاندان کے لئے اپنے نسبِ عالی کے لئے۔ کل اُس نے ایک غلام کو اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا ہے، پاگل پن ہے، پاگل پن! جو کوئی اُس سے کچھ مانگتا ہے، اٹھا کر اُس کے حوالے کر دیتا ہے۔ سراسر دیوانگی ہے۔ جہان بھر کے چوروں اچکوں، مقروضوں کو کھانے کھلاتا ہے۔ جب دیکھو اُس کے دروازے پر دس بارہ جمع رہتے ہیں۔ شاید ہی کوئی ہو جو اُس کے گھر سے کوئی بھیڑ یا بکری یا کچھ اور لے کر نہ جائے، ہم کر کیا سکتے ہیں۔ ابن ہشام میرا بھتیجا پاگل ہو گیا ہے، بالکل پاگ

ابولہب باتیں بھی کرتا جاتا تھا اور لوگوں کے چہرے بھی دیکھتا جاتا تھا۔ اس اُمید پر کہ شاید اُن میں سے کوئی بول پڑے اور اس معمے کو سلجھانے میں مدد دے جو وہ خود سلجھا نہیں پا رہا تھا اور جو شاید سلجھایا ہی نہیں جا سکتا تھا۔ پیغمبری کا دعویٰ، کیسی انہونی بات تھی! گھبراہٹ میں اُس نے ابوسفیان کا بازو تھام لیا۔

’’ابوسفیان! تم ہی بتاؤ، ایک جوان شخص، مضبوط، توانا، خوبصورت، سر کا ایک بال سفید نہیں، ایک رئیس عورت کا خاوند، خود عالی نسب، وہ مکے میں جو چاہے کر سکتا ہے مگر کرتا کیا ہے۔ اپنے گھر کا آرام دہِ بستر چھوڑ کر پہاڑوں کے غاروں میں بیٹھا سردی سے ٹھٹھرتا رہتا ہے، محض اس وہم پر کہ ایک فرشتہ اُس سے بات کرتا ہے۔ یہ فرشتہ اُس کی جان کا روگ بن گیا ہے!‘‘

ابولہب تھک ہار کے بیٹھ گیا۔ اُس کے دوست بھی کچھ پریشان، کچھ شرمندہ سے لگ رہے تھے۔ خاندان میں پاگل پن کا واقع ہر ایک کے لئے تشویش ناک ہوتا ہے، کیونکہ ایسے معاملے میں کوئی کچھ نہیں کر سکتا اور نہ ہی کوئی مشورہ دے سکتا ہے، صرف دعا کی جا سکتی ہے

No comments:

Post a Comment