حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات <<<<<<>>>>>>>>>>>>>>>>>> تیسری قسط

ابولہب بیٹھا بیٹھا پھر بولنے لگا:
’’ابھی ایک سال بھی نہیں گزرا۔ سب اُس کے دوست تھے، اُس کی عزت کرتے تھے۔ اُس وقت کسی کو اُس پر ہنسنے کی جرات نہیں تھی۔ وہ تمھارے درمیان فیصلے کراتا تھا، تمھارے قضأ چکاتا تھا۔ لوگ اس کے پاس جاتے تھے اور اُسے عادل و منصف سمجھ کر اپنے اپنے معاملوں میں رہبری حاصل کرتے تھے۔ صرف ایک سال پہلے!‘‘


ابولہب نے اپنے غلام کو اشارہ کیا۔ اُسے جو کہنا تھا وہ کہہ چکا تھا۔ آخری وقت میں اُس نے ہمیشہ غلط فیصلہ کیاتھا۔
ابوجہل کچھ سوچ رہا تھا، لگتا تھا کوئی اہم فیصلہ کر رہا ہے
مجھے یہ فکر نہیں ہے کہ وہ ہمارے خداؤں کے بارے میں کیا الٹی سیدھی باتیں کرتا ہے۔ ہمارے خدا اُس سے خود نمٹ لیں گے لیکن وہ انسانوں کو جو پٹی پڑھا رہا ہے، وہ بے حد خطرناک ہے مگر اس کا فیصلہ جلد ہو جائے گا۔ سب سے پہلے ہم اُن غلاموں اور لاوارثوں سے نمٹیں گے جو اُس کے گرد جمع رہتے ہیں۔‘‘
ایک اور ہم زبان
جس وقت وہ عمار کو لے کر آئے۔ میں غلاموں کے مخصوص انداز میں دیوار سے لگا کھڑا تھا۔ انہوں نے اُسے دھکا دے کر زمین پر گرا دیا۔ زمین پر گرتے ہی عمار نے سر اٹھا کر انہیں دیکھنا شروع کر دیا۔ میں نے دل میں کہا اب خیر نہیں! غلام کا کیا کام کہ سر اُٹھائے۔ اُس کی توعافیت ہی سرجھکائے رکھنے میں ہے لیکن عمار مجھ جیسا غلام نہیں تھا، اُسے غلام بنایا گیا تھا۔ وہ بھی مجھ جیسا ہوتا تو اسے اس رمز سے آشنائی ہوتی۔ وہ تو یوں لگتا تھا جیسے اپنا حق طلب کر رہا ہو، بالکل آزاد لوگوں کی طرح جو اپنے حق کی خاطر مقابلے پر اُتر آتے ہیں
محمدؐ تمہیں کیا سکھاتا ہے‘‘؟ ابوسفیان نے پوچھا۔
’’وہ سکھاتے ہیں کہ اللہ کی نظر میں سب انسان برابر ہیں، بالکل ایسے جیسے کنگھے کے دندانے‘‘۔
میں دیوار سے پشت لگائے ہوئے، عمار کے یہ الفاظ سُن کر سر سے پاؤں تک لرز گیا۔ میرے جسم میں ایک سرد لہر دوڑ گئی مگر اُدھر اُمیہ کا چہرہ تپ کر سرخ ہو گیا تھا۔ غلام اور آقا کی نبضیں ایک سی نہیں ہوتیں!
مجھے آج بھی حیرت ہے کہ عمار کو آخر سوجھی کیا۔ اللہ کے بندے تجھے اتنی بہادری دکھانے کی ضرورت کیا تھی! تُو بڑی آسانی سے کہہ سکتا تھا کہ محمدؐ عبادت کرنا سکھاتے ہیں، سچ بولنا سکھاتے ہیں، ہمسایوں کی خبر گیری کی تلقین کرتے ہیں۔ اس کے بعد وہ یقیناً تجھے چھوڑ دیتے لیکن تُونے تو ایک فقرے میں وہ ساری کی ساری بنیاد ہلا کر رکھ دی جس پر مکے کے مردم آزاد، استحصالی معاشرے کی عمارت تعمیر تھی۔ اس پر بھی بس نہیں۔ایک بار پھر عمار کی آواز آئی
محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں سکھاتے ہیں کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرو۔‘‘
ابو سفیان کو دوسرے آقاؤں کے مقابلے میں نیک سمجھا جاتا تھا۔ ہم غلاموں کے حلقے میں اُس کی شہرت اچھی تھی۔ اُس کے اپنے غلام بھی اُس کو بُرا آقا نہیں سمجھتے تھے۔ جہاں جنبشِ ابرو سے کام چل سکتا ہو وہاں وہ زبان کبھی نہیں ہلاتا تھا لیکن مجھے ابوسفیان کی خاموشی اور نرم رویے سے خوف آتا تھا۔ عمار شاید اُس کے اسی دھیمے انداز سے دھوکا کھا گیا تھا جو سب کچھ کہتا چلا گیا۔ جب ابوسفیان نے اُس سے اپنے مخصوص لہجے میں سوال کیا تو عمار یہ سمجھا کہ وہ اُس سے برابر کی حیثیت سے بات کر رہا ہے اور واقعی اُس سے صحیح جواب چاہتا ہے
ایک اللہ؟‘‘ ابوسفیان کے لہجے میں غصہ کم اور تجسس زیادہ تھا۔ ’’لیکن ہمارے تو تین سو ساٹھ خدا ہیں جو ہماری حفاظت کرتے ہیں، ہماری مرادیں برلاتے ہیں۔‘‘
کتنی اچھی طرح یاد ہے مجھے وہ دن اور اس واقعے کا ایک ایک لمحہ، اور کیوں یاد نہ ہوتا کہ اُس دن چند ثانیوں بعد میری ساری کائنات بدل گئی تھی۔
’’محمد کو احساس نہیں ہے کہ ہم مکے میں خداؤں کو گھر مہیا کرتے ہیں۔ یہی ہماری روزی ہے، سب قبیلوں کے اپنے اپنے خدا ہیں جن کی پرستش کے لئے وہ یہاں آتے ہیں۔ خدا ہمارے معبود بھی ہیں اور ہمارا ذریعہء معاش بھی۔ اور کیا ہم لوگ غریبوں، کمزوروں کی نگہداشت نہیں کرتے۔‘‘ ابوسفیان کہتے کہتے رُک گیا، بالکل ڈرامائی انداز میں، جیسے بڑے بڑے مقرر کوئی بات کہہ کر تاثر پیدا کرنے کے لئے تھوڑا سا وقفہ دیتے ہیں
اگر ہم تین سو ساٹھ خداؤں کو چھوڑ کر ایک خدا کو ماننے لگیں جو نظر بھی نہیں آتا اور جوہر جگہ بتایا جاتا ہے۔ اس باغ میں، طائف میں، مدینے میں، یروشلم میں، چاند پر، تو پھر مکہ کہاں جائے گا؟ جب ہر گھر میں خدا ہو گا تو یہاں کوئی کیا کرنے آئے گا؟
اس منطق پر ہر چہرہ مطمئن نظر آ رہا تھا۔ بات یہیں ختم ہو جاتی اور کسی پر کوئی عذاب نہ نازل ہوتا مگر شومئی قسمت کہ میرے آقا نے اچانک مجھے اس معاملے میں الجھانے کا فیصلہ کر لیا۔ اُمیہ اب تک خاموش بیٹھا تھا۔ میری پشت پر کھڑا دیوار کی طرح ساکت! لیکن اگلے ہی لمحے میری پشت پر کوئی دیوار نہیں تھی، کیونکہ میں اپنے آقا کے منہ سے اپنا نام سن کر دوڑ پڑا تھا
اُمیہ اپنے ریشمی ملبوس کے لہراتے ہوئے گھیر میں عمار کے پاس پہنچا:
’’تم کہتے ہو کہ ایک غلام کا رُتبہ اُس کے آقا کے برابر ہے‘‘۔
وہ تیزی سے چلتا ہوا عمار کے پاس آ کر یکایک رُکا تو اس کی ریشمی عبا اُس کی پشت پر لہرا کر ایک لمحے کے لئے اُس کے گرد لپٹ گئی۔
’’یہ سیاہ فام بلال جسے میں نے اپنے پیسے سے خریدا ہے، میرے برابر ہے؟‘‘
یہ کہہ کر وہ رُکا اور بزعِم خود اپنے سوال کی معقولیت، کا لطف اُٹھانے لگا


 


No comments:

Post a Comment