اللہ والوں کے قصّے۔۔><۔قسط نمبر 41

حضرت محمد بن اسلم طوسی ؒ قرض لے کر فقراء کو دے دیا کرتے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ کسی یہودی نے اپنا قرض طلب کیا لیکن آپ کے پاس دینے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا۔ لیکن آپ نے اُسی وقت اپنا قلم تراشا اور اُسی تراش کا ایک ٹکڑا زمین پر سے اُٹھا کر یہودی کر دیتے ہوئے فرمایا۔ ’’ یہ لے جاؤ۔‘‘
جب یہودی نے وہ ٹکڑا ہاتھ میں لے کر غور سے دیکھا تو وہ سونا تھا۔ چنانچہ یہودی کو خیال ہوا کہ جس مذہب میں ایسے ایسے خدارسیدہ ہوں وہ مذہب کبھی باطل نہیں ہوسکتا اس بات کا خیال کرتے ہی وہ یہودی مسلمان ہوگیا
حضرت حاتم اصمؒ نے امام احمد بن حنبلؒ سے سوال کیا کہ آپ رزق کی جستجو کرتے ہیں یا نہیں؟


امام صاحب نے جواب دیا کہ یقیناًمتلاشی رہتاہوں۔آپ نے پوچھا۔ ’’ قبل ازوقت یا بعد از وقت تلاش کرتے ہو‘‘
یہ سن کر امام صاحب سکتہ میں آگئے ۔ اس لیے کہ اگر یہ کہیں کہ قبل از وقت تلاش کرتا ہوں تو فرمائیں گے کہ تم تضیع اوقات کرتے ہو اور اگر بعد ازوقت کہہ دوں تو کہیں گے کہ گزشتہ شے کی تلاش بے معنی ہے اور یہی کہوں کہ بروقت تلاش کرتا ہوں تو فرمائیں گے موجودہ شے کی جستجو سے کیا فائدہ۔ لیکن اس واقعہ کے بارے میں ایک بزرگ نے یہ فرمایا۔ ’’ تلاش رزق نہ قرض ہے نہ سُنت اس لیے اس کی جستجو ہی بے سود ہے کیونکہ رزق تو ہم کو خود تلاش کرتا پھرتا ہے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں ہے۔ ’’ رزق تو خود تمہارے پاس پہنچتا ہے تمہیں جستجو کی کیا ضرورت ہے؟
حضرت ابراہیم بن ادھم ؒ کو سفرِ حج کے دوران کہیں سے بھی کھانا نہ ملا۔ اس پر ابلیس نے سامنے آکر کہا۔ ’’ سلطنت چھوڑ کر سوائے فاقہ کشی کے اور کیا ملا؟‘‘ اس وقت آپ نے اپنے دل میں اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہوئے عرض کیا ’’ کہ دشمن کو دوست کے پیچھے کیوں لگا دیا؟‘‘
اس پر جواب ملا، ’’ تمہاری جیب میں جو چیز ہے اُسے پھینک دو تاکہ تمہیں اس کا راز معلوم ہوجائے
چنانچہ جب آپ نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو تھوڑی سی چاندی برآمد ہوئی ۔ جونہی آپ نے اُسے پھینکا ابلیس اُسی وقت رفو چکر ہوگیا
انتقال کے وقت بشرحافی ؒ شدید مضطرب ہوئے۔ اس پر لوگوں نے پوچھا۔ ’’ کیا ترک دُنیا کا غم ہے۔ ؟‘‘
آپ نے فرمایا۔ ’’ نہیں بلکہ بارگاہ خداوندی میں جانے کا خوف ہے۔‘‘ایک شخص نے آپ کی موت کے وقت اپنی مفلسی کا رونا رویا۔ اس پر آپ نے اسے اپنا پیرا ہن اُتار کر دے دیا اور خود دوسرے کا مستعارِ لے کر پہن لیا۔ آپ کا فرمان ہے ’’ تین کام بہت مشکل ہیں۔ اوّل مفلسی میں سخاوت ، دوم خوف میں صداقت ، سوم خلوت میں تقویٰ
ایک مرتبہ حضرت ذوالنون مصریؒ کشتی پر سفر کر رہے تھے کہ کسی بیوپاری کاموتی کھو گیا۔ سب نے آپ پر شک کرتے ہوئے آپ کو مارنا پیٹنا شروع کردیا۔ آپ نے آسمان کی جاب نظر اُٹھا کر کہا۔ ’’ اے اللہ ! تو علیم ہے کہ میں نے کبھی چوری نہیں کی۔ ‘‘
آپ نے یہ کہا تو اُسی وقت دریا میں سے صدہا مچھلیاں منہ میں ایک ایک موتی دبائے نمودار ہوگئیں۔ اس پر آپ نے ایک مچھلی کے منہ سے موتی نکال کر اُس بیوپاری کو دے دیا۔ اس کرامت کے مشاہدے کے بعد تمام مسافروں نے آپ سے معافی طلب کی۔ اسی واقعہ پر آپ کا خطاب ذوالنون پڑگیا


 


No comments:

Post a Comment