انڈیا، پاکستان 2001 میں جنگ کے دہانے سے کیسے واپس آئے؟
کہا جا رہا ہے کہ سنہ 1971 کی پاکستان-انڈیا جنگ کے بعد یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ دونوں ممالک میں سے کوئی ایک دوسرے کی فضائی حدود کے اندر داخل ہوا ہے۔ موجودہ حالات میں جوہری ہتھیاروں سے لیس ان دونوں ممالک کے لیے اب چیلنج یہ ہے کہ حالات قابو سے باہر ہونے سے پہلے کشیدگی کو کم کیسے کیا جائے۔
تاہم یہ پہلی بار نہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان یہ نوبت آئی ہو: دونوں ممالک کشمیر کو اپنا حصہ مانتے ہیں اور اس مسئلے پر 1947 کے بعد سے چار جنگیں بھی لڑ چکے ہیں۔
سنہ 2001 میں بھی دونوں ہمسائیوں کے درمیان نوبت جنگ تک پہنچ گئی تھی، لیکن پھر فوجیں واپس بلا لی گئیں اور کشیدگی میں کمی ہوگئی۔
ماضی کے چند اہم واقعات کے تناظر میں ہم نے یہ جاننے کے لیے کہ اُس وقت حالات اتنے کشیدہ کیسے ہوئے، فوجوں کی سرحدوں سے واپسی کیوں کر ممکن ہوئی، موجودہ کشیدگی کی وجوہات اور اس میں کمی کیسے ممکن ہو سکتی ہے، پاکستان کے سابقہ وزیرِ خارجہ خورشید محمود قصوری سے بات کی۔
خورشید قصوری کے بقول جب وہ وزیرِ خارجہ بنے تو اس وقت دس لاکھ فوجی سرحد پر آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑے تھے۔ ’دوسری جنگِ عظیم کے بعد یہ فوجیوں کی سب سے بڑی موومنٹ تھی۔ دنیا اپنی سانس روکے دو نیوکلئیر پاورز کو دیکھ رہی تھی۔ گیارہ مہینے تک دونوں ملکوں کی فوجیں آمنے سامنے کھڑی رہیں۔‘
اس وقت حالات اس نہج پر کیسے پہنچے تھے؟
اس کی وجہ بتاتے ہوئے خورشید محمود قصوری کہتے ہیں ’13 دسمبر 2001 کو انڈیا کی پارلیمنٹ پر جو حملہ ہوا تھا، اس کے ردِعمل میں وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ پاکستان نے کروایا ہے۔ لیکن اس حملے میں پاکستان کے ملوث ہونے کے کوئی ثبوت نہیں دیے گئے اور نہ ہی یہ کسی طرح ثابت ہوا۔‘
اُس وقت پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی بڑھنے کی وجہ بھی یہی بنی۔
خورشید قصوری کہتے ہیں کہ گیارہ مہینے تک فوجیں آمنے سامنے رہیں۔ ’غصے میں کوئی بھی گولی چلائے بغیر انڈیا نے اتنی بڑی موبلائزیشن کی۔ اُن کے اپنے وزیرِدفاع کے مطابق اِس کے نتیجہ میں انڈین آرمی کے ہزار سے زیادہ فوجی ہلاک ہوگئے۔‘
’امریکہ کو بہت تشویش ہوئی‘
اتنی بڑی تعداد میں فوجیوں کی ہلاکت کے بعد آخر کشیدگی کم کیسے ہوئی؟
خورشید قصوری کہتے ہیں کہ ’امریکہ بہت ڈسٹرب ہوگیا تھا۔ اگرچہ جنیوا معاہدے کے مطابق وہ 1989 میں افغانستان سے نکل گیا تھا، لیکن ایک یا دوسری طرح سے امریکہ افغانستان میں بہت دلچسپی رکھتا تھا۔ 1979 سے امریکہ کا پاکستان کے ساتھ گہرا تعاون رہا۔ اس کی افواج افغانستان میں پھنسی ہوئی تھیں جن کی پاکستان مدد کر رہا تھا اور امریکہ نہیں چاہتا تھا کہ اس خطے میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ چھڑ جائے۔‘
وہ مزید کہتے ہیں ’جب گیارہ مہینے فوجیں آمنے سامنے کھڑی رہیں تو امریکہ اور باقی دنیا کی طاقتوں کو یہ ڈر پڑ گیا کہ یہ دو جوہری طاقتیں ہیں اور یہ جس طرح آمنے سامنے آ رہی ہیں یہ بڑی خطرے کی بات ہے۔‘
’اگرچہ فوجیں اس طرح بارڈر پر کھڑی رکھ کر انڈیا نے پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی بھر پور کوششیں کیں، لیکن انڈیا اور بین القوامی کمیونٹی کو یہ احساس تھا کہ وہ ایک حد سے آگے نہیں جا سکتے۔‘
خورشید قصوری مانتے ہیں کہ اُس طرح سے ملوث ہونا یا اب وہ کردار ادا کرنا اگرچہ صدر ٹرمپ کی پالیسی کا حصہ نہیں، نہ ہی ان کی خطے میں موجودگی ویسی ہے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’اُس وقت کی ذہنی حالت کے برعکس آج امریکہ ’آئسولیشن اور ود ڈرال‘ (یعنی تنہائی اور اخراج) کی طرف جا رہا ہے۔ اُن دنوں میں ایسا نہیں تھا، لیکن چونکہ پاکستان نے افغان طالبان اور امریکہ کو ایک میز پر لانے میں مدد کی ہے تو اِس وقت یقیناً امریکہ کی دلچسپی اِس مسئلے کے حل میں ہے۔‘
کارگل کی جنگ سے آگرہ سمٹ تک
سنہ 1999 میں کارگل جنگ کے دوران سینکڑوں انڈین فوجیوں کی ہلاکت کہ بعد حالات اتنے کیسے بدلے کہ محض دو سال بعد اُس وقت کے انڈین وزیرِاعظم پاکستان کے چیف ایگزیکٹیو جنرل مشرف سے آگرہ میں مذاکرات پر رضامند ہوگئے؟
اس سربراہی اجلاس کی وجوہات بتاتے ہوئے خورشید قصوری کہتے ہیں ’اُس وقت پاکستان اور انڈیا دونوں ممالک کی معیشیت تیزی سے بڑھ رہی تھیں، لیکن جب ایک سٹیج پر امریکہ اور برطانیہ کی حکومتوں نے ایک ٹریول ایڈوائزری جاری کی جس میں کہا گیا کہ ’یہ دونوں جوہری طاقتیں ہیں، ان کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہیں اور ہم اپنے شہریوں کو ان علاقوں میں جانے کا مشورہ نہیں دیتے‘ تو اسی بنیاد پر کروڑوں ڈالر صرف ایک ہفتے میں انڈیا سے نکل گئے اور اس رقم کا چھٹا یا ساتواں حصہ پاکستان سے بھی نکل گیا۔ ان حالات میں فیڈریشن آف انڈین کامرس اینڈ انڈسٹری نے انڈین گورنمنٹ سے ’ڈی ایسکلیشن‘ کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ملک کی معشیت کو بہت نقصان ہو رہا ہے۔‘
خورشید قصوری کے مطابق دونوں ملکوں کی تاریخ میں پہلی بار متوسط طبقے کی معیشت نے کشیدگی کم کرنے کے لیے ایک کردار ادا کیا اور اپنے اپنے ممالک میں حکومتوں پر زور ڈالا کہ ہمیں اس خطے میں امن چاہیے۔
موجودہ حالات کا ذمہ دار کون ؟
خورشید قصوری کہتے ہیں ’اس دفعہ پاکستان نے یہ شروع نہیں کیا۔‘
پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی کی تاریخ بتاتے ہوئے وہ کہتے ہیں ’انڈیا بہت عرصے سے ایک بڑی طاقت کے طور پر اپنی پوزیشن بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن چونکہ وہ مسئلہ کشمیر نہیں حل کر رہا اور پاکستان کے ساتھ اس کی جارحانہ پالیسی ہے تو وہ یہ کردار نہیں ادا کر پا رہا جب تک کہ وہ پاکستان سے نمٹ نہ لے یا مسئلہ کشمیر نہ حل کر لے۔‘
’انڈیا میں بہت سے لوگوں کو اندازہ ہو گیا ہے کہ یہ پالیسی کارآمد نہیں ہے، لیکن وزیرِاعظم مودی کے سر پر الیکشن سوار ہے اور گجرات سے ان کی یہی پالیسی رہی ہے کہ جتنی ہندو-مسلمان اور انڈیا-پاکستان دشمنی ہو گی، وہ اتنی آسانی سے اپنے ووٹ حاصل کرلیں گے۔ جیسے امریکہ کے صدر ٹرمپ کوشش کرتے ہیں کہ چاہے ساری دنیا ان کو برا بھلا کہتی رہے لیکن ان کا ووٹر ان کی بات سنتا ہے، تو مودی صاحب کا بھی یہ خیال ہے کہ اس قسم کے بیانات سے وہ آنے والے الیکشن میں اپنے ووٹ پختہ کرسکتے ہیں۔‘
خورشید قصوری کا خیال ہے کہ انڈیا نے وزیراعظم عمران خان کی تقریر کے بعد لائن آف کنٹرول عبور کر کے اور فضائی حملہ کر کے ایک نئی طرح کا خطرہ مول لیا ہے۔
یاد رہے گذشتہ ہفتے پاکستان کے وزیرِاعظم عمران خان نے انڈیا کو پلوامہ میں خودکش حملے کی تحقیقات میں مکمل تعاون کی پیشکش کرتے ہوئے متنبہ کیا تھا کہ اگر انڈیا نے پاکستانی سرزمین پر کارروائی کی تو اس کا منھ توڑ جواب دیا جائے گا۔
کشیدگی کم کیسے کی جائے؟
اس حوالے سے خورشید قصوری کا کہنا تھا کہ ’دونوں ممالک کے پاس جوہری ہتھیار ہیں، ان کے درمیان اگر جنگ ہوئی تو اس سے صرف ان دو ملکوں اور خطے کا نہیں بلکہ پوری دنیا کا نقصان ہوگا۔‘
’میرے خیال میں یہی وقت ہے کہ بین الاقوامی کمیونٹی اس مسئلے کے حل میں دلچسپی لے اور سیکیورٹی کونسل، اقوامِ متحدہ کے چارٹر میں جو اس کی ذمہ داریاں درج ہیں انہیں ادا کرے، ورنہ اس کے نتائج کا سامنا ساری دنیا کو کرنا پڑے گا۔‘
’انڈیا میں بھی بہت سے لوگ امن چاہتے ہیں اور مسئلہ کشمیر کا پر امن حل موجود ہے، کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہر دو تین سال بعد ہم اس پر جنگیں کریں یا جنگ کے قریب پہنچ جائیں۔‘
No comments:
Post a Comment