جنگ کی خوشی پالنا امیروں کا شوق ہے












جنگ کی خوشی پالنا امیروں کا شوق ہے


جابہ: ’جنگ کی خوشی پالنا امیروں کا شوق ہے‘



کانگڑ گاؤں سات گھروں پر مشتمل ہے جو چاروں طرف سے وادیوں میں گھرا ہوا ہے
"یہاں پر کسی کو کچھ نہیں ہوا ہے سوائے ایک آدمی نوران شاہ کے جس کے سر پر چوٹ آئی ہے، اور اس کوّے کے جو یہاں مرا ملا ہے۔"

یہ بات ضلع مانسہرہ کے علاقے جابہ کے گاؤں کانگڑ کے رہائشی مراد نے بتائی جب میں نے ان سے 26 فروری کو ہونے والے واقعے کے بارے میں پوچھ گچھ کی۔ اسلام آباد سے تین گھنٹے کی دوری پر واقع یہ گاؤں سات گھروں پر مشتمل ہے اور آج صبح سے یہاں کے رہائشیوں کی آمد و رفت پر پابندی لگائی گئی ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں موجود یہ گاؤں چاروں طرف سے وادیوں سے گھرا ہوا ہے۔ یہاں کے زیادہ تر لوگ ہند کو اور پشتو زبان بولتے ہیں اور زراعت سے منسلک ہیں اور زیادہ تر الگ تھلگ رہنا ہی پسند کرتے ہیں۔




’ایک نہیں بلکہ تقریباً پانچ دھماکے ہوئے، علاقہ لرز اٹھا‘

انڈیا کا پاکستان کی حدود میں حملہ، مفروضے اور حقائق

’انڈین طیارے تین منٹ تک پاکستان میں رہے‘

Image caption
یہ گڑھے دو سے ڈھائی فٹ گہرے ہیں اور آس پاس کیچڑ ہے
26 فروری کی رات انڈین جنگی جہازوں کی طرف سے چار بم گرانے کے واقعے کے بعد ضلع مانسہرہ کے علاقے جابہ کا گاؤں کانگڑ خبروں میں ہے۔ صبح سے اب تک یہاں میڈیا کی تین سے چار ٹیمیں آچُکی ہیں جس کے دوران رہائشیوں نے کئی بار دھماکے کی آوازیں سننے اور دھماکوں کے نتیجے میں ہونے والے چار گڑہوں کے متعلق بیانات دیے ہیں۔ لیکن وہ اس بارے میں اپنی کوئی رائے دینے سے گریز کرتے ہیں۔کئی بار میڈیا کے ’پرجوش‘ اصرار پر لوگوں کو پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے کا بھی کہا گیا۔ نعرے لگانے کے کچھ دیر بعد یہ علاقہ پھر پہلے جیسے خاموش ہوجاتا ہے۔ جب میں وہاں پہنچی تو اس وقت مراد وہاں علاقے کے کچھ اور لوگوں کے ساتھ موجود تھے۔ ان کی بات شروع ہونے سے پہلے ہی وہاں پاکستان کی فوج کے اہلکار بھی پہنچ گئے۔ جن کے بقول میڈیا کی ایک ٹیم آئی ایس پی آر کے ساتھ وہاں پہنچ رہی ہے اور ہمیں کہا گیا کہ ہم ان کا انتظار کریں۔

Image caption
جس مقام پر انڈین جہازوں نے بم گرائے،2001 میں اس کے آس پاس جیش محمد کا کیمپ ہوا کرتا تھا
کسی کا انتظار کیے بغیر ہم لوگ نوران شاہ کے گھر کی طرف چل پڑے۔ ایک رہائشی محمد شفیق نے بتایا کہ جس مقام پر انڈین جنگی جہازوں نے بم گرائے ہیں،2001 میں اس کے آس پاس جیش محمد کا کیمپ ہوا کرتا تھا۔ ’اس کیمپ کو بعد میں گرا دیا گیا جس کے بعد اب وہاں بچوں کے لیے مدرسہ بنایا گیا ہے۔` اس کے علاوہ اسی علاقے کے اردگرد حزب المجاہدین کے کیمپ بھی موجود تھے جن کے بارے میں یہاں کی آبادی جانتی تھی۔ ساتھ ہی ایک سکیورٹی اہلکار نے بتایا کہ حملہ 26 فروری کی رات دو بج کر پچپن منٹ پر پیش آیا۔ جس میں بھارت کے چار جنگی جہاز مظفرآباد کی جانب سے داخل ہوکر جابہ کی جانب آئے تھے۔ اور بقول سکیورٹی ذرائع، بوکھلا کر چار بم گرا کر چلے گئے۔

Image caption
پہلا بم نوران شاہ کے گھر سے دس قدم کے فاصلے پر گرا تھا
ہمیں راستے میں یکے بعد دیگرے چار گڑھے نظر آئے جن میں سے پہلا نوران شاہ کے گھر سے دس قدم کے فاصلے پر تھا جہاں پہلا بم گرا تھا۔ دوسرا وہاں سے 20 میٹر کے فاصلے پر جبکہ تیسرا اور چوتھا گڑھا ساتھ ساتھ تھے جو نوران شاہ کے گھر سے 300 میٹر کے فاصلے پر اونچائی پر تھے۔ یہ گڑھے دو سے ڈھائی فٹ گہرے ہیں اور آس پاس کیچڑ ہے جس کی وجہ سے اس جگہ تک رسائی مشکل سے ہوتی ہے۔ مراد ہمیں نوران شاہ کے گھر کے سامنے لے آیا جہاں اب تک کی اطلاعات کے مطابق 13 درخت گر چکے ہیں۔

Image caption
نوران شاہ کے گھر کے سامنے موجود زیادہ تر درخت گرچکے ہیں اور گندم کی فصل تباہ ہوچکی ہے
کانگٹر گاؤں کے 63سالہ رہائشی نوران شاہ نے مجھے بتایا کہ ’فروری 26 کی رات جب انڈین جنگی جہاز گاؤں میں داخل ہوئے تو میں جاگ گیا تھا۔ میں جہاز کی آواز سن کر اٹھ گیا اور جلدی سے دروازے کے پاس آگیا۔ اس کے کچھ لمحے بعد 20 میٹر کی دوری پر دھماکہ ہوا جس کے بعد ہمارے گھر کی دیواریں اور کھڑکیاں ٹوٹ گئیں۔ مجھے لگا کہ میرا آخری وقت آگیا ہے۔ اور میں مرنے کے لیے تیار تھا، اس کے بعد مزید تین دھماکے ہوئے اور میں، میری بیوی اور بیٹی گھر کے ییچوں بیچ سر چھپا کر بیٹھ گے۔‘

Image caption
رہائشیوں نے ان گڑھوں کے پاس بم کے باقیات جمع کرکے کھانا بنانے کے برتنوں کے پاس رکھے تھے
نوران شاہ کچے گھر میں رہتے ہیں جس میں انھوں نے حال ہی میں کھڑکیاں اور دروازے لگائے تھے۔ وہ اس مقام پر پچاس سال سے رہ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ ان کا کوئی اور ٹھکانہ نہیں ہے۔ اپنے سر پر بندھی ہوئی پٹی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ان کو سر کے علاوہ کمر اور ٹانگ پر بھی چوٹ لگی ہے۔

انھوں نے کہا کہ پچھلی جنگوں میں بھی ایسا نہیں ہوا کہ جنگی جہاز ان کے گھر کے دروازے کے سامنے تک پہنچے ہوں۔ ’یہ میری زندگی کا پہلا ایسا واقعہ ہے جس میں میں اس مغالطے میں رہا کہ شاید جنگی مشقیں کی جارہی ہیں مگر بعد میں پتا چلا کہ یہ بھارتی جنگی جہاز تھے۔ یہ ایک معجزہ ہے کہ ہم لوگ بچ گئے۔‘

نوران شاہ کے گھر کے سامنے موجود زیادہ تر چیڑ کے درخت ہیں جن میں سے بیشتر گرچکے ہیں یا گرنے والے ہیں۔ ان کی گندم کی فصل تباہ ہوچکی ہے جو اس خاندان کا واحد زریعہ معاش ہے۔

Image caption
نوران شاہ اس علاقے میں پچاس سال سے رہ رہے ہیں اور اس کے علاوہ ان کا کوئی اور ٹھکانہ نہیں ہے
میں نے نوران شاہ کی بیٹی سیدہ عرفانہ سے بھی بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا مکان رہنے کے قابل نہیں رہا، جب پہلا دھماکہ ہوا تو میں سمجھی کہ آسمانی بجلی گری ہے۔ دھماکے ایک منٹ سے بھی کم وقفے سے ہورہے تھے۔ مجھے لگتا ہے کہ کہیں کسی سے غلطی ہوئی ہے کیونکہ یہاں کوئی جہادیوں کا کیمپ نہیں ہے بلکہ بچوں کا مدرسہ ہے۔‘

نوران شاہ اور ان کا گھرانہ بھی علاقے کے باقی لوگوں کی طرح اس دن کے بارے میں بات تو کر رہے ہیں لیکن اس حملے پر اپنی رائے نہیں دینا چاہتے۔

نوران شاہ نے اس ساری صورتحال کے بارے میں کہا کہ ’جب موت آئے گی تو ہم اس کے لیے تیار رہیں گے۔ لیکن جنگ کرنے سے پہلے ہم جیسے غریبوں کے بارے میں ضرور سوچا جائے ہماری یہ ہی التجاہے۔‘

Image caption
کانگڑ کے لوگ ہندکو اور پشتو زبان بولتے ہیں اور زیادہ ترزراعت کے شعبے سے منسلک ہیں
ہمیں پہاڑی کے شروع میں ملنے والے فوجی افسران اب سیکیورٹی کے فرائض پر معمور تھے اور مجھے اس جگہ کے بارے میں بتانے کے لیے بلا رہے تھے۔ کانگڑ کی مختصر سی آبادی بم گرنے کے واقعے کو بیان کرنے میں مصروف تھی جبکہ آس پاس کی آبادی کے لوگ بار بار اس جگہ کو دیکھنے کے لیے جمع ہورہے تھے جہاں ایک روز پہلے بم گرے تھے۔جس کے نتیجے میں فوج کے اہلکاروں نے لوگوں کی آمد ورفت پر پابندی لگا کر اس جگہ کو صرف صحافیوں کے لیے کھلا چھوڑ دیا۔

پہاڑی سے اترتے ہوئے یہاں کے لوگ ایک روز قبل ضمنی انتخابات کے نتائج سامنے آنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی جیت کا جشن مناتے ہوئے بھی نظر آئے۔ لیکن میرے وہاں سے نکلنے سے پہلے پاکستان کی فوج کی طرف سے انڈین جہاز گرانے کی خبر جیسے ہی موصول ہوئی تو یہاں کے لوگوں نے اس کا خیر مقدم کیا۔ وہاں پر موجود لوگوں نے کہا کہ ان کے لیے جنگ اہمیت نہیں رکھتی۔ کانگڑ کے رہائشی محمد مسکین نے کہا کہ ’جنگ کی خوشی پالنا بھی امیروں کا شوق ہے۔ ہم تو دعا کرتے ہیں کے جنگ بندی ہو اور لوگوں کے ذریعہ معاش پر فرق نہ پڑے۔ ورنہ اگر جنگ ہوئی تو موت ہم جیسوں کی ہوگی۔`

No comments:

Post a Comment