عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا۔۔۔ قسط نمبر 10.

در بار میں کچھ دیر خاموشی رہی ۔ پھر ایک وزیر سلطنت نے اٹھ کر ادب سے عرض کی۔ ’’ سلطان معظم‘‘کا فیصلہ یقیناً دور اندیشی پر مبنی ہے۔ لیکن اگر سلطان معظم پہلے ہونیاڈے کی بغاوت اور پھر ایشیائے کوچک کی بغاوت ختم کرنے پر توجہ فرمائیں تو شاید دونوں محاذ آسانی سے فتح کئے جاسکیں

وزیر سلطنت نے کانپتے لرزتے اپنا مشورہ دیا تھا۔ سلطان مشورہ سن کر مسکرایا اور نرم لہجے میں کہنے لگا۔

’’ہم ایسا ہی کریں گے۔ شہاب الدین پاشا کا لشکر ابھی صفیں درست نہ کر پائے گا کہ میں قونیا کی بغاوت فرو کر کے اس کے ساتھ آملوں گا

وزیر سلطنت سلطان کر جواب سن کر مطمئن ہوگیا۔ اب سلطان کے چہرے کی سختی دور ہو چکی تھی اور دربار میں موجود لوگ حالات حاضرہ پر کھسر پھسر کرنے لگے تھے۔ اتنے میں سلطان کی خاص فوج ینی چری کا سپہ سالار آگے بڑھا اور مؤدب لہجے میں سلطان سے مخاطب ہوا

سلطان معظم!.............میرے لیے کیا حکم ہے؟‘‘

سلطان نے جواب دیا۔

’’ تم بھی شہاب الدین پاشا کے پرچم تلے یورپ کی مہم پر جاؤ گے۔ میرے ہمراہ ینی چری کے صرف پانچ ہزار سپاہی چلیں گے۔ جبکہ باقی دوسری فوج ہوگی۔‘‘

سلطان کی بات مکمل ہوئی تو سپہ سالار پھر بولا۔

’’سلطان معظم کے ہمراہ ینی چری کے کون سے پنج ہزاری دستہ مقر ر کیا جائے؟‘‘

سلطان نے کچھ دیر خاموشی سے سوچا اور پھر اچانک اس کے چہرے پر چونکنے کی سی کیفیت پیدا ہوئی۔ اس نے حکم دیا ۔

وہ عرب نوجوان کہاں ہے جس نے تہوار والے روز سکندر بیگ کو شکست دی تھی۔ اسے فورا بلاؤ اور ہمارے ہمراہ تیاری کا حکم دو

ینی چری کے سپہ سالار نے تعمیل کے انداز میں سر ہلایا اور پیچھے ہٹ گیا۔ اس کے بعد کئی گھنٹے تک دربار میں لشکر وں کی روانگی سے متعلق بات چیت ہوتی رہی۔ا س دوران قاسم بن ہشام کو بھی بلوالیا گیاتھا ۔ قاسم ، سلطان کے سامنے نمودار ہوا تو اس نے سلطان کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی۔سلطان نے قاسم کو اپنے سامنے طلب کیا اور کہا۔

’’قاسم بن ہشام! تم ہمارے ساتھ پرسوں علی الصبح قونیا کی مہم پر روانہ ہو رہے ہو۔ تمہیں اس سلسلے میں کچھ کہنا ہو یا تمہیں کسی چیز کی ضرورت ہو تو بلا تامل کہہ سکتے ہو

قاسم نے کچھ کہنا چاہا لیکن جھجک گیا۔ وہ پہلی بار کسی سلطان کے دربار میں حاضر ہوا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ الفاظ اس کی زبان پر اٹک رہے تھے۔ سلطان نے فورا کہا۔

ہاں ہاں، کہو! تم کیا کہنا چاہتے ہو؟‘‘

قاسم نے جھجکتے ہوئے زبان کھولی۔

’’سلطان معظم! میں صرف ایک عاجزانہ سا مشورہ پیش کر نا چاہتا ہوں۔سلطان معظم ایک لشکر سالار شہاب الدین پاشا کی سرکردگی میں یورپ کی جانب روانہ کر رہے ہیں اور خود ایشیائے کوچک کی مہم پر روانہ ہونا چاہتے ہیں۔ مجھے اندیشہ ہے کہ ’’ادرنہ‘‘ کو خالی کر دینے سے قیصر قسطنطنیہ کو یہاں اپنی ریشہ دوانیوں کا کھلا موقع مل جائے گا۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ ادرنہ میں بعض خفیہ ہاتھ سلطان معظم کے خلاف سازش میں مصروف ہیں۔ یہ وہی ہاتھ ہیں جنہوں نے سکندر بیگ کو بغاوت کے لیے تیار کیا۔

سلطان ، قاسم کی بات سن کر چونک گیا۔ اس کی آنکھوں میں چیتے جیسی چمک نظر آئی اور وہ مسند پر سنبھل کر بیٹھ گیا۔ اس کی آنکھیں قاسم پر جمی ہوئی تھیں اور وہ کوئی اہم بات سوچ رہاتھا۔ تھوڑی دیر بعد سلطان نے کہا۔

’’قاسم بن ہشام ! ہم تمہاری بصیرت کی داد دیتے ہیں۔ یہاں ہمارے پرانے اور دانشمند ساتھی بھی موجود ہیں۔ لیکن تم نے ان سب سے زیادہ اپنی آنکھیں کھلی رکھیں۔ ہم نے ابھی ابھی فیصلہ کیا ہے کہ ہم تمہیں اپنے ہمراہ قونیا لے کر نہیں جائیں گے۔ ہم تمہیں اپنے پیچھے ادرنہ میں شاہی سراغ رساں مقرر کرتے ہیں............. ہمیں خود بھی شک تھا کہ سکندر بیگ کے پیچھے قیصر قسطنطنیہ کا ہاتھ ہے۔ لیکن ہمارا دھیان اس طرف نہ گیا کہ ادرنہ میں کسی سازش پر نظر رکھی جائے۔ ہم تم سے بہت خوش ہیں اور تمام ذمہ دار افراد حکومت کو حکم دیتے ہیں کہ وہ ضرورت پڑنے پر تمہارے ساتھ بھر پور تعاون کریں

قاسم کے لیے سلطان کا یہ فیصلہ بھی غیر متوقع تھا۔ پہلے روز قاسم کو پنج ہزاری سالار مقر ر کرنے کا سلطانی فیصلہ بھی عجیب تھا۔ قاسم نے سوچا........... بادشاہ ایسے ہوتے ہیں جو ہر آن غیر متوقع فیصلے کر سکتے ہیں۔ اب قاسم کے پاس سلطان سے کہنے کے لیے مزید کچھ نہ تھا۔ قاسم نے تعمیل میں سر جھکایا تو سلطان پھر بولا۔

’’تم ہم سے دربار کے بعد تخلیے میں ملو......... ہم کچھ اور ضروری باتیں بھی تم سے کر نا چاہتے ہیں۔ 

قاسم نے دوبارہ تعمیل میں سرجھکایا اور ایک طرف ہٹ گیا۔

دربار برخواست ہوا تو دربان خاص قاسم کو قصر سلطانی کے دروازے تک لے گیا۔ یہاں خادمہ خاص نے قاسم کو وصول کیا اور اپنے ہمراہ لیکر سلطانی رہائش گاہ کی طرف چل دی۔یہ’’ قصر یلدرم‘‘ تھا۔ لمبی لمبی راہداریاں شیشہ و سنگ سے آراستہ و پیراستہ تھیں۔گلستان شاہی میں رنگ برنگے فوارے نصب تھے۔ قاسم دیوان خاص میں داخل ہوا تو سامنے شاہی لباس میں ملبوس ایک خوبصورت نوعمر لڑکا کھڑا تھا۔ 

یہ ’’شہزادہ محمد‘‘ تھا۔ سلطان معظم کا فرزند دوئم۔ سلطان کے بڑے بیٹے کا نام شہزادہ ’’علاؤالدین‘‘ تھا۔ شہزادہ محمد نے مسکراتے ہوئے قاسم کا استقبال کیا تو خادمہء خاص ایک طرف ہٹ کر کھڑی ہوگئی۔ شہزادہ محمد بے تکلفی کے ساتھ قاسم سے بغل گیر ہوا ا ور پھر ہنستے ہوئے کہنے لگا۔

’’میں تہوار والے روز آپ کی شمشیر زنی سے بہت متاثر ہوا۔ اور میں اسی روز سے آپ کی ملاقات کا خواہاں تھا۔ آج آپ کے آنے کا سنا تو میں آپ سے ملنے کے لیے چلا آیا.........آپ سلطان معظم سے ملنے کے بعد میرے پاس ضرور تشریف لائیے گا۔ میں اپنے کمرۂ خاص میں آپ کا انتظار کروں گا۔‘‘

قاسم کو شہزادہ محمد پسند آیا۔ قاسم نے شہزادہ محمد کے ساتھ وعدہ کیا کہ وہ واپسی پر اس سے ضرور ملے گا۔ اور پھر قاسم، خادمہء خاص کی رہنمائی میں سلطان مراد خان ثانی کے سامنے حاضر ہوا۔ سلطان نے قاسم کو شفقت سے اپنے قریب نشست پر بٹھایا اور خادمہء خاص کو قاسم کی تواضع کرنے کا حکم دیا۔ 

یہ سلطان کا کمرۂ ملاقات تھا۔ چاروں طرف اونچی پشت والی نشستیں رکھی تھیں۔ کمرے کی دیواروں پر سلطنت عثمانیہ کے بہترین خطاطوں اور مصوروں کے فن پارے آویزاں تھے۔ درمیان میں کمرے کی چھت سے ایک قرمزی فانوس لٹک رہاتھا۔ کمرے کے فرش میں یونان کا ’’سنگ احمر‘‘ چمک رہاتھا اور کھڑکیوں کے ساتھ کمخواب کے رنگین پردے لٹک رہے تھے۔ سلطان نے قاسم سے پہلا سوال کیا ۔ 

’’تمہیں کیسے اندازہ ہوا کہ ادرنہ میں قیصر کے جاسوس سرگرم ہیں؟‘‘

’’سلطان معظم ! مجھے کالونی کے راستے پر ایک اجنبی دوشیزہ نے روکا اور اپنا نام و پتہ چھپاتے ہوئے یہ بتایا کہ سکندر بیگ ، سلطان معظم کے خلاف بغاوت کا ارادہ رکھتا ہے۔ میں نے اس لڑکی سے اس کے ذریعہ معلومات اور نام و پتہ پوچھنے کی بے حد کوشش کی لیکن وہ لڑکی دیکھتے ہی دیکھتے اپنی بگھی میں سوار ہو کر میری نظروں سے اوجھل ہوگئی...........سکندر آپ کا عزیز فرزند تھا ۔ چنانچہ میں نے اس دوشیزہ کی بات کو جھوٹ سمجھا اور نظر انداز کردیا۔‘‘ قاسم نے اپنی کو تاہی پر شرمندہ ہونے والے لہجے میں کہا۔

سلطان کی آنکھیں حیرت سے پھٹی ہوئی تھیں۔ اس نے بڑی بے صبری کے ساتھ قاسم سے پوچھا۔ ’’یہ کب کی بات ہے؟ سکندر کے روانہ ہونے سے پہلے کی یا بعد کی ؟‘‘

’’یہ سکندر بیگ کے روانہ ہونے سے بعد کی بات ہے۔‘‘

’’ہوں ںں!...........سلطان نے قاسم کی بات سن کر تفہیمی انداز میں سر ہلایا اور پھر کہا۔

’’اس کا مطلب ہے کہ واقعی سکندر بیگ پہلے سے غدار تھا۔ اور یہ بھی یقینی ہے کہ یہاں ادرنہ میں قیصر کے جاسوس موجود ہیں.............اچھا! اس کے علاوہ تم اور کیا جانتے ہو؟‘‘

قاسم نے کسی قدر جھجکتے ہوئے جواب دیا۔’’ اس کے علاوہ میری نظر ینی چری کے چند سالاروں پر بھی ہے جن کے بارے میں مجھے شک ہے کہ وہ باغیانہ خیالات کے مالک ہیں۔ اور چند دیگر اشخاص بھی میرے خیال میں مشکوک ہیں..............لیکن ابھی تک میرے سامنے صحیح صورتحال واضح نہیں۔ اب جبکہ آپ نے میری ذمہ داری ہی یہی مقرر کردی ہے تو میں انشاء اللہ سر دھڑ کی بازی لگا کر بھی اس سازش کا کھوج نکال لوں گا۔‘‘

’’بہت خوب! ہمیں تم سے یہی توقع ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ قونیا سے واپس آئیں تو تم ہمیں قیصر کے جاسوسوں کے پکڑے جانے کی خوشخبری سناؤ۔ پہلے ہم قونیا سے سیدھا یورپ روانہ ہونے کا ارادہ رکھتے تھے ، لیکن اب ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم ایک بار قونیا سے ادرنہ واپس آئیں گے اور غداروں کو عبرت ناک سزادیں گے۔ ہم تمہارے تعاون کے لیے اپنے خفیہ محکمے کے سربراہ ’’بہرام‘‘ کو بھی مقرر کردیں گے۔ اور کوتوال شہر کو بھی ہدایات جاری کردیں گے۔‘‘

قاسم نے کچھ سوچتے ہوئے سلطان سے کہا۔

’’سلطان معظم!........... آپ نے سر دربار مجھے شاہی سراغ رساں مقر فرمایا ہے، اس سے یقیناًادرنہ میں مصروف جاسوسوں کو میرے بارے میں خبر ہوجائے گی اور وہ محتاط ہو جائیں گے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ ’’بہرام خان‘‘ اور کوتوال شہر کو میرے بارے میں ہدایات جاری نہ کریں۔ میں چاہتا ہوں کہ اپنے دشمنوں کو بے خبری کے عالم میں پکڑوں۔‘‘

سلطان مراد خان ثانی درویش فطرت انسان تھا اور ایک بہادر سپاہی تھا۔ اسے قیصر کی طرح گھناؤنی سازشیں نہ آتی تھیں۔ لیکن سلطنت کے علماء اور دانشور سلطانی بصیرت اور تدبیر کے قائل تھے



 

No comments:

Post a Comment