عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا۔۔۔ قسط نمبر 9.

انہی ایام میں مغربی یورپ کی لڑائیوں میں شریک رہنے والا تجربہ کار سپہ سالار ’’جان ہنی ڈیز‘‘ یعنی ’’ہونیاڈے‘‘ ہنگری لوٹ آیاتھا۔ ہونیاڈے ’’شاہ سجمنڈ‘‘ کا ناجائز بیٹا تھااور اس کی ماں ’’ایلزبتھ مارسی‘‘ ایک حسین اور فاحشہ عورت تھی۔ ہونیاڈے نے ہنگری میں آکر فورا سپہ سالاری کا منصب سنبھال لیا تھا۔ اس نے آتے ہی ترکوں کے خلاف اعلان جنگ بلند کر دیا۔ اس نے صوبہ ’’ٹرانسلونیا‘‘ سے ترکوں کو خارج کردیا تھا۔ ترکی جرنیل ’’فرید بیگ‘‘ جو سلطان کی طرف سے وہاں کا عامل اور منتظم تھا، ہونیاڈے کے ہاتھوں شہید ہوچکاتھا۔ فرید بیگ کا جوان بیٹا اور تقریبا بیس ہزار عثمانی فوج ہونیاڈے کی تلواروں کا لقمہ بن چکی تھی۔ جو ترک فوجی زندہ قید کرلیے گئے تھے ان کے ساتھ ہونیاڈے نے انتہائی وحشیانہ سلوک کیا تھا۔ ان نے فتح کی خوشی میں ہنگری کے اندر ہونے والی تقریبات اور ضیافتوں میں ان مسلمان قیدیوں کو بے دردی سے وقتا فوقتا قتل کرنا شروع کردیا۔ اس طرح گویا خوشی کے جلسوں میں ان ترک قیدیوں کا قتل کرنا ایک دلچسپ سامان تفریح سمجھا جاتا تھا۔
سلطان مرادخان ثانی کے پاس سپہ سالار فرید بیگ ، بیس ہزار سپاہیوں کی شہادت اور قیدیوں کے بے رحمانہ قتل کی خبریں پہنچیں تو اس نے ہونیاڈے سے انتقام لینے کے لیے اسی ہزار کی فوج روانہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن اسے یہ معلوم نہ تھا کہ اس مرتبہ عیسائی دنیا ایک بار پھر پوری طرح متحد ہوکر مسلمانوں کوبراعظم یورپ سے نکالنے کے لیے اکھٹی ہوچکی ہے۔یورپ میں اب کی مرتبہ ایسا جوش و خروش پیدا ہواتھا کہ اس سے پہلے کبھی نہ دیکھا گیا۔ ہنگری کا بادشاہ’’لارڈ سلاس‘‘ اور ہنگری کا سپہ سالار ’’ہونیاڈے ‘‘ اس یلغار میں پیش پیش تھے۔ اور ’’فرید بیگ‘‘ کے قتل کے بعد ان کی بہادری کے افسانے اس طرح یورپ میں پھیل گئے تھے کہ پورے یورپ کا ہر عیسائی نوجوان ان کی فوج میں شریک ہونے اور مجاہد کہلانے کے لیے بے تاب تھا۔ ادھر رومن کلیسا کے پوپ نے اس جنگ کو مقدس جنگ کہہ دیا تھااور اپنے کارڈنیل ’’جولین‘‘ کو اس صلیبی جنگ کے لیے خصوصی طور پر روم سے روانہ کیا
کارڈ نیل جولین نے مشرقی اور مغربی یورپ کا طوفانی دورہ کیا اور ہر شہر میں مسلمانوں اور ترکوں کے خلاف بڑے روح پرور وعظ کئے۔ وہ جہاں جاتا مسلمانوں کے مظالم کی جھوٹی کہانیاں لوگوں کو سناتا اور یورپ کے عیسائیوں کو خواب غفلت سے بیدار ہونے کی تلقین کرتا ۔ کارڈنیل جولین نے گیارہویں صدی کے ’’بطرس ہرکولیس ‘‘ کی زندگی کا مطالعہ کر رکھا تھا جس نے اولین صلیبی جنگوں کی بنیاد رکھی تھی اور ’’سلطان صلاح الدین ایوبی‘‘ کے مقابلہ میں پورے یورپ کی عظیم فوج اکٹھی کر کے لے آیاتھا۔ پطرس ہرکولیس بھی پادری تھا اور مسلمانوں کا سخت دشمن تھا۔ وہ اپنی جوان بیٹی کو ننگے سر اور پھٹے کپڑوں سمیت گلیوں میں پھراتا............اس کے عقب میں عیسائی راہبوں کی ایک فوج ہوتی ۔ ان سب لوگوں نے گردنوں میں بڑی بڑی صلیبیں لٹکا رکھی ہوتیں اور صلیب اعظم کو سب سے آگے رکھتے ۔ وہ لوگوں کو بتاتے کہ مسلمانوں نے صلیب اعظم کو کوڑوں سے پیٹا ہے اور مقدس صلیب کی توہین کی ہے

پطرس ہر کولیس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ’’جولین ‘‘ نے بھی وہی انداز و اطوار اختیار کئے اور یورپ کے باشندوں کو بتایا کہ تمام عیسائی دنیا ترکوں کے ہاتھوں تباہ ہونے والی ہے اور اگر اس وقت بھی عیسائی نوجوا ن میدان جنگ میں نہ اترے تو مسیح کا نام لیوا کوئی بھی دنیا میں نہ بچے گا۔ چنانچہ بہت جلد ہنگری ، سربیا، والیشیاء، پولینڈ، جرمنی، اٹلی ، فرانس، آسٹریا اور بوسنیا کی فوجیں ہونیاڈے کے جھنڈے تلے جمع ہونا شروع ہوگئیں۔

ابو جعفر کا خاص مہرہ سکندر بیگ انہیں حالات میں البانیہ کی طرف روانہ ہوا تھا

سکندر بیگ مختصر وقت کے لیے اپنی جاگیر میں رہا۔ اسے ترکوں کے خلاف ہونیاڈے کی تیاری کا انتظار تھا۔ جونہی ہونیاڈے کا لشکر مکمل ہوتا سکندر ، خاص البانیہ کی جانب چل پڑتا۔ اور پھر وہی ہوا........

سلطان مراد خان ثانی کا منہ بولا بیٹا، اس کے محل میں اولاد کی طرح پرورش پانے والا سکندر.......... جس کے ساتھ سلطان کو بے حد محبت تھی اور جسے سلطان نے محض اٹھارہ سال کی عمر میں ایک ’’سنجق‘‘ کا حاکم مقرر کیا تھا اور سکندر بیگ کے لقب سے سرفراز کیا تھا.......... غدار نکلا۔ سکندر نے اپنے کردار سے ثابت کر دیا کہ وہ اس سانپ کی طرح ہے جسے سلطان نے دودھ پلا پلا کر جوان کیا تھا۔سکندر ادرنہ سے روانہ ہوا تو مارسی کو اپنے ساتھ لے جانا چاہتاتھا ۔ لیکن ابو جعفر نے اسے مشورہ دیا کہ ’’مارسی کوابھی ساتھ مت لے جاؤ..........البانیہ میں اپنی خاندانی بادشاہت بحال کر نے کے بعد تمہارے لیے محل کی کنیز مارتھا اور اس کی بیٹی کو بلالینا مشکل نہ ہوگا۔ کیونکہ یہ دونوں ماں بیٹی ابھی تک عیسائی مذہب پر قائم ہیں

کندر کو ابو جعفر کی بات معقول لگی۔ چنانچہ جب مارتھا اندر کمرے سے اپنی بیٹی کے ساتھ باتیں کر کے واپس آئی تو ابوجعفر اور سکندر پہلے سے ہی یہی فیصلہ کرچکے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ مارتھا کے بتانے پر کہ مارسی ابھی ساتھ نہیں چل سکتی ، سکندر نے کچھ برانہ منایا تھا۔

وہاں سے سکندر مغربی سرحدات کی جانب آیا اور چند ماہ مغربی سرحدات میں رہ کر ’’ہونیاڈے ‘‘ کی افواج کے منظم ہونے کا انتظار کرتا رہا۔ جونہی 1443ء میں ترکی فوج کو ہونیاڈے کے مقابلے میں شکست ہوئی، ’’فرید بیگ‘‘ اور اس کا بیٹا مارا گیااور بیس ہزار ترک فوجی شہید کر دیئے گئے تو سکندر بھی اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر مغربی سرحدات کی جاگیر سے نکلا۔ اس کے ہمراہ صرف ایک محافظ دستہ تھا۔ سکندر انتہائی تیز رفتاری سے سفر کرتا ہوا اورخفیہ راستوں کو اختیار کرتا ہوا سلطانی لشکر گاہ تک پہنچا۔ سکندر نے لشکر گاہ سے چند کوس پہلے شام ڈھلنے اور رات اترنے کا انتظار کیا

آدھی رات کے قریب سکندر اپنے ساتھیوں سمیت سلطانی لشکر کے خیموں تک آپہنچا۔ یہاں سکندر نے اپنے دستے کو ایک حصار کی صورت میں اپنے گرد پھیلا دیا اور خود سلطان کے رئیس الآفندی (میر منشی) کے خیمے میں گھس گیا۔ رئیس الآفندی خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہاتھا کہ سکندر کی تلوار اس کی گردن پر جاٹکی۔ سکندر نے تلوار کی نوک سے اس کی گردن پر ٹھوکہ دیا تو رئیس الآفندی اچھل کر اٹھ بیٹھا۔ اس کی آنکھ کھلی تو اس نے موت کو اپنی گردن پر سوار دیکھا۔ رئیس الآفندی کو صورتحال کی سمجھ آئی تو اسے سکندر کی پھنکار سنائی دی۔

’’رئیس الآفندی ! ہم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ ابھی اور اسی وقت البانیہ کے صوبیدار کے نام شاہی مکتوب لکھو!.............اسے لکھو کہ سکندر بیگ کو جو سلطان کی طرف سے بطور وائسرائے تمہارے پاس پہنچا ہے، البانیہ کے دارالسلطنت اور تمام علاقے کا چارج دے دو۔‘‘

رئیس الآفندی کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ سلطان کا چہیتا سکندر بیگ اس حد تک جاسکتا ہے۔ رئیس الآفندی کو اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔ چنانچہ اس نے ذرا سا تامل کیا۔ سکندر نے فورا تلوار کی نوک پر زور بڑھا دیا۔ رئیس الآفندی کی گھگھی بندھ گئی۔ اس نے فورا حکم کی تعمیل کر نے کا اشارہ کیا ۔ اور سکندر نے تلوار ہٹالی۔ 

رئیس الآفندی ہانپتے کانپتے اٹھا اور جلدی جلدی سلطانی حکم نامہ لکھنے لگا۔ رئیس الآفندی نے مکتوب کی تحریر مکمل کر کے اس پر سلطان مراد خان کی مہر ثبت کی اور مکتوب سکندر کے حوالے کر دیا۔ سکندر نے بائیں ہاتھ سے مکتوب کو پکڑا اور دائیں ہاتھ سے ایک بھرپور وار کر کے کمزور رئیس الآفندی کا سر دھڑ سے الگ کر دیا۔ اس نے البانیہ کے شہر ’’کروٹیہ‘‘ کے ترک صوبیدار کے نام حکم نامہ حاصل کیا تھا۔ اس فرمان کے ذریعے وہ البانیہ پر قبضہ کرنا چاہتا تھا۔

سکندر اپنی واردات کامیابی سے مکمل کرنے کے بعد خیمے سے نکلا ۔ اس کے ساتھی مستعدی سے پہرہ دے رہے تھے۔ سکندر اپنے دستے کو لے کر رات کے اندھیرے میں طوفانی رفتار سے البانیہ کی طرف چل دیا۔ وہ اپنے سفر کے تیسرے دن کروٹیہ (آق حصار) میں تھا۔ سکندر نے شاہی فرمان کے ذریعے ترک صوبیدار سے اپنے باپ کا تخت حاصل کیا اور ترک دستوں کو فی الفور البانیہ سے نکل جانے کا حکم دے دیا۔ البانیہ پر قابض ہونے کے بعد اگلے دن اس نے شہر میں منادی کروائی کہ وہ دین اسلام کو ترک کرکے دوبارہ دین عیسوی میں داخل ہوگیاہے۔ البانوی عوام نے اپنے سابق بادشاہ کے بیٹے کو اس طرح شجاعت سے حکومت سنبھالتے دیکھا تو بہت خوش ہوئے۔ انہوں نے سکندر بیگ کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور ذوق و شوق سے اس کی فوج میں بھرتی ہونے لگے۔

سلطان مرادخان ثانی کے لیے ترک سالار ’’فرید بیگ‘‘ کی شکست کے بعد یہ اطلاع ایک بہت بڑا صدمہ ثابت ہوئی۔ وہ چند دنوں میں ہی ٹوٹ پھوٹ گیا۔ سکندر بیگ کو اس نے بڑے ناز و نعم سے پالا تھا۔ سکندر بیگ کی بے وفائی سے سلطان کو ایسا دھچکا لگا کہ وہ بیمار رہنے لگا۔ آج کل ابوجعفر کے چہرے پر بیک وقت خوشی بھی تھی اور سنسنی بھی۔ کیونکہ اس کی تیار کردہ سازش بھر پور طریقے سے کامیاب ہوئی تھی۔ ابھی سلطان ان جھٹکوں سے ذہنی طور پر سنبھل بھی نہ پایا تھا کہ سلطان کے پاس ایک اور بری خبر پہنچی۔ اس کی سلطنت کے ایشائی حصہ ایشیائے کوچک کے شہر ’’قونیا‘‘ میں قیصر کے جاسوسوں نے ایک بہت بڑی بغاوت کی سازش کو مکمل کر لیاتھا۔ قونیہ کے سرداروں نے اعلان بغاوت بلند کیا تو سلطان جیسے نیند سے بیدار ہوگیا۔ یہ تیسری بری خبر بیمار سلطان کے لیے پیغام موت کی بجائے نوید زندگی بن گئی۔ وہ آندھی اور طوفان کی طرح اٹھا اور اپنی تلوار نیام سے نکال کر سیدھا دربار سلطنت کی طرف بڑھا۔

اب اس کا خون کھو ل رہاتھا ۔ اس نے مسند شاہی پر بیٹھتے ہی فوراً دربار طلب کیا..........خاصہ دار دوڑتے چلے گئے اور چند لمحوں بعد عثمانی دربار میں تمام بڑے بڑے وزیر ، امراء اور سالار جمع ہوگئے۔ آج ہر شخص کے چہرے پر تجسس صاف دیکھا جاسکتا تھا۔ دربار میں اس قدر سناٹا تھا کہ سوئی گرنے کی آواز بھی سنی جاسکتی تھی۔ سلطان یک لخت اپنی تلوار زمین پر ٹکا کر اٹھ کھڑا ہوا اور شیر کی طرح گرج کر بولا۔

’’عمائدین سلطنت !وزراء !امراء اور سپاہیو..........!

ہمارے پاس پے درپے بری خبریں پہنچ رہی ہیں۔ سب سے پہلے شاہ سربیا نے بغاوت کی تھی۔ جس کی سزا ہم اسے دے چکے ہیں اور میدان جنگ میں عیسائی لشکر کے ستر ہزار سپاہیوں کو قید کر کے انہیں نافرمانی کی سزا بھی دے چکے ہیں ۔ یہ بات آپ سب لوگ جانتے ہیں ، لیکن اب پھر صرف تین سال کے اندر اندر یورپ کے تمام عیسائی ہونیاڈے کے پرچم تلے جمع ہوچکے ہیں۔ انہوں نے ہمارا صوبہ ’’ٹرانسلونیا‘‘ ہم سے چھین لیا ہے اور ہمارے بہادر جرنیل’’فرید بیگ‘‘ اور اس کے بیٹے کو شہید کردیا ہے ۔ کینہ پرور عیسائیوں نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ وہ اپنی ہر ضیافت میں ترک قیدیوں کی گردنیں کاٹ کر اپنی بزدلی اور بدفطرتی کا ثبوت دیتے رہے ہیں۔

اور پھر آپ سب جانتے ہیں کہ ہمارے لیے سکندر کی بے وفائی بھی ایک جانکاہ خبر تھی۔ لیکن یاد رکھیے! کہ سلطان معمولی حادثات سے دل گرفتہ نہیں ہوا کرتے۔ چنانچہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ان بغاوتوں کا سر پوری طاقت سے کچل دیا جائے۔

پہلے ہم اپنے فیصلے پر عمل درآمد میں کسی قدر دیر کر رہے تھے ۔ لیکن ہمیں ابھی ابھی اطلاع ملی ہے کہ ایشیائے کوچک میں ہمارے شہر ’’قونیا‘‘ کے سرداروں نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کردی ہے۔ لہٰذا ہم نے فی الفور بہ یک وقت دو لشکر وں کی کوچ کا فیصلہ کیا ہے۔ ایک اسی ہزار افواج پر مشتمل لشکر ’’شہاب الدین پاشا‘‘ کی سرکردگی میں یورپ کی جانب روانہ ہوگا اور دوسرا لشکر لے کر میں خود ’’قونیا‘‘ کی بغاوت کا خاتمہ کرنے کے لیے ایشیائے کوچک کی طرف جاؤں گا۔ چنانچہ تمام سالاروں ، سپاہیوں اور عمائدین سلطنت کو یہ حکم دیا جاتا ہے کہ ابھی اور اسی وقت سے ان دونوں لشکروں کی تیاری میں مصروف ہوجائیں۔

سلطان مشتعل تھا۔ اس نے جذبات میں پوری تقریر کر ڈالی۔ وہ اپنی بات ختم کر کے مسند شاہی پر بیٹھ گیا۔ دربار میں مکمل خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ سب لوگ سلطان کے اچانک فیصلے سے حیران تھے کیونکہ یہ بہت بڑا فیصلہ تھا۔ بیک وقت دور دراز کے دو محاذوں پر دو بڑے لشکر روانہ کر نا کوئی معمولی بات نہ تھی۔(جاری ہے)


 

No comments:

Post a Comment