عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا۔------۔۔قسط نمبر 17.

اب قاسم سنبھل چکا تھا ۔ لہٰذا اس نے دشمن کا دوسرا وار تلوار کی چمک دیکھ کر اپنی تلوار پر روکا۔ لوہے سے لوہا ٹکرایا اور ٹن کی آواز پیدا ہوئی۔ لیکن اسے یہ جان کر بے پناہ حیرت ہوئی کہ برآمدے سے بھی ٹن ٹن کی آواز آرہی تھی۔ گویا دشمن صرف اکیلا نہیں تھا بلکہ اس کا کوئی ساتھی بھی باہر کہیں چھپا ہوا تھا جو آغا حسن پر حملہ آور ہوا تھا۔ اس کا مطلب تو یہ تھا کہ اسلم خان اور اس کے ساتھ پہلے سے گھات لگا کر بیٹھے تھے۔ قاسم اندھیرے میں ہی ان دیکھے دشمن کے وار روکتا رہا۔ اور پھر اچانک اس نے ایک زبردست داؤ کھیلا ۔ اس نے ایک دم اپنا پیر پھسلایا اور زمین پر گر گیا۔ اگلے لمحے وہ پھسلتا ہوا مد مقابل کی ٹانگوں سے جا ٹکرایا تھا۔ مد مقابل اوندھے منہ نیچے آرہا۔ قاسم نے لیٹے لیٹے اپنی تلوار کا رخ اوپر کی جانب کردیا۔ مد مقابل تلوار پر گرا اور تلوار اس کے پیٹ سے آر پار ہوگئی۔ فضا ایک دلدوز چیخ سے گونجی اور مدمقابل کے پیٹ سے خون کے فوارے چھوٹ پڑے ۔ قاسم دشمن کو گرا کر تیزی سے اٹھا اور باہر کی جانب تیزی سے لپکا۔ لیکن یہاں آغا حسن پہلے ہی دشمن کی گردن کاٹ چکا تھا
آغاحسن اور قاسم کو اچانک سیڑھیوں پر دوڑتے ہوئے قدموں کی آواز سنائی دی۔ اور پھر تھوڑی دیر بعد دو تلواریں ٹکرانے کی آواز آنے لگی ۔ گویا امیر خان کی مڈبھیڑ بھی دشمن سے ہوگئی تھی۔ آغا حسن اور قاسم زینے کی جانب دوڑے، لیکن اس سے پہلے کہ وہ زینے پھلانگتے، اوپر سے کوئی گٹھڑی سی لڑھکتی ہوئی نیچے آنے لگی۔ گٹھڑی قاسم کے پیروں میں آکر رکنے کی بجائے ایک دم اٹھ کر کھڑی ہوگئی۔آغا حسن نے چاند کی روشنی میں پہچانا، یہ اسلم خان تھا۔ اس کی تلوار گر چکی تھی اور وہ زینوں سے لڑھک کر صحیح سالم بچ گیا تھا۔ قاسم نے اپنی تلوار سیدھی کی اور اسلم خان کی ٹھوڑی پر ٹکا دی۔ اسلم نے جرأت کر کے خاصی بلند آواز میں کہا
’کک..............کون ہو تم لوگ؟ اور کیا چاہتے ہو مجھ سے؟‘‘
اسلم نے آواز نکالی تو قاسم نے تلوار کا دباؤ بڑھا دیا اور سانپ کی طرح پھنکار تے ہوئے کہا۔
’’تم ہمیں اچھی طرح پہچانتے ہو اسلم خان! ہم اسلام کے غداروں کی موت ہیں۔ تم اگر کچھ رعایت چاہتے ہو تو یاد رکھو تمہاری بھلائی اسی میں ہے کہ تم سب کچھ اگل دو۔‘‘
’’کک..کیا اگل دوں؟.. مم.
مجھے کچھ معلوم نہیں ۔ تم لوگوں نے مجھے کچھ کہا تو خود بھی نہ بچ سکو گے۔ تم ینی چری کے ایک سالار پر ہاتھ اٹھا رہے ہو‘‘ اب اسلم خان کا حوصلہ بحال ہورہاتھا
اچانک قاسم نے اسلم کی ٹھوڑی سے تلوار پیچھے ہٹالی ۔ اسلم نے حیرت سے قاسم کی جانب دیکھا۔ لیکن اگلے لمحے اس کی درد ناک چیخ نے پوری فضا کو چیردیا۔ قاسم نے پوری کی پوری تلوار اس کی دائیں ران میں گھونپ دی تھی۔ تکلیف کی شدت سے اس کی چیخ بہت بلند آواز میں پیدا ہوئی۔ یقیناً آس پاس کے مکانوں میں سنی گئی ہوگی۔ اب قاسم اور آغاحسن کو جو کچھ بھی کرنا تھا ، آناًفاناً کرنا تھا۔ امیر خان ابھی تک چھت پر ہی تھا۔ اس نے ایک اچھے سپاہی کی طرح اپنی طے شدہ جگہ نہ چھوڑی تھی۔ قاسم نے اسلم کی ران میں تلوار گھونپی ، لیکن واپس نہ کھینچی ۔ اسلم تکلیف کی شدت سے زمین پر گر چکا تھا۔ وہ اور بھی چیختا ، لیکن آغا حسن نے آگے بڑھ کر اس کا منہ ہاتھ سے بھینچ کر بند کر دیا تھا۔ قاسم خونخوار انداز سے اسلم کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا
اسلم خان! زندگی سے زیادہ قیمتی کوئی چیز نہیں ، خصوصاً تمہارے جیسے غداروں کے لیے۔ تم اگر جینا چاہتے ہو تو سچ سچ بتاؤ کہ تمہارا آدمی ہماری باتیں کیوں سن رہا تھا؟.............. یہ بھی بتاؤ کہ ابوجعفر کے ساتھ تمہارا کیا تعلق ہے؟ اور ینی چری میں تمہارے علاوہ اور کون کون سے لوگ قیصر کے جاسوس ہیں؟...........اور یاد رکھو کہ اب چیخنا مت ورنہ اب کی بار میں تمہاری کان کاٹ دوں گا۔‘‘
قاسم کے لہجے میں بے پناہ سفاکی اور بے رحمی تھی۔ اسلم تو درکنا ر ، قاسم کی آواز سے آغاحسن بھی کانپ اٹھا۔ آغا حسن قاسم کے اشارے پر اسلم کے منہ پر سے ہاتھ ہٹا چکا تھا ۔ اسلم قاسم کی سفاکی سے اس قدر خوفزدہ ہوا کہ بے پناہ درد کے باجود زبان سے خاموش رہا۔ قاسم کے دوبارہ پوچھنے پر وہ طوطے کی طرح بولنے لگا۔ اس نے بتایا کہ ابوجعفر درحقیقت قیصر کا جاسوس ہے اور سلطنت عثمانیہ کی تباہی کے غرض سے ادرنہ میں مقیم ہے۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ ابوجعفر نے ینی چری میں اپنی سازش کا جال بچھا رکھا ہے۔ لیکن وہ ینی چری میں موجود قیصر کے جاسوسوں کے مکمل نام نہ بتا سکا۔ اس نے ایک سالار کا نام لیا ہی تھا کہ اس کی گردن ڈھلک گئی۔ وہ شاید بے ہوش ہو چکا تھا ۔ اتنے میں چھت پر سے امیر خان کے تیز سرگوشی کرتے ہوئے کہا
ساتھ کے مکان میں ہلچل سی دکھائی دے رہی ہے آپ لوگ جلدی سے اپنا کام نمٹانے کی کوشش کیجیے۔‘‘
قاسم نے مایوسی سے بے ہوش اسلم کی جانب دیکھا اور اگلے لمحے بے رحمی سے اپنی تلوار واپس کھینچ لی۔ اسلم بے ہوشی کے عالم میں تڑپا ، لیکن اس نے آنکھیں نہ کھولیں۔ قاسم نے اسلم کو وہیں پڑے ہوئے چھوڑا اور آغاحسن کو اوپر امیر خان کے پاس جانے کی ہدایت کرتاہوا خود مکان کے دوسرے بند دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ قاسم کے اندازے کے مطابق یہاں اسلم کی بیوی بند تھی۔ وہ کمرے کے دروازے پر پہنچا اور دروازے کو دھکیل کر کھولنے کی کوشش کی۔ قاسم نے دیا سلائی جلائی اور برآمدے کی دیوار میں اٹکی مشعل کو روشن کر دیا۔ اب مشعل قاسم کے ہاتھ میں تھی۔ اس نے بائیں کندھے کے زو ر سے دروازے کو توڑنے کی کوشش کی۔اور کچھ ہی دیر میں کڑاک کی آواز سے دروازہ ٹوٹ گیا۔ لیکن اسے کمرے میں داخل ہونا نصیب نہ ہوا۔ نہ جانے زینوں کے پاس بے ہوش لیٹا ہوا اسلم خان کب ہوش میں آیا اور زمین پر گھسٹتے ہوئے کب قاسم کے عقب میں پہنچ گیا۔ اب اس کے ہاتھ میں ایک لمبا خنجر چمک رہاتھا۔ قاسم نے جونہی دروازے کے پٹ کو توڑا، اسلم نے آدھا دھڑ اوپر اٹھاتے ہوئے قاسم کی پشت پر خنجر کا وار کردیا۔ بالکل آخری وقت میں قاسم کو اپنے پیچھے حرکت کی آواز سنائی دی اور وہ تیزی سے مڑا۔ لیکن اب دیر ہوچکی تھی۔ اسلم خان کا خنجر قاسم کے دائیں پہلو پر پڑا اور اس کے کولہے کا گوشت چیرتا ہوا دوسری طرف نکل گیا۔ اس طرح گویا اسلم خان نے اپنے زخم کا بدلہ لے لیا تھا۔ قاسم کی زوردار سسکی بلند ہوئی۔ لیکن وہ اپنی جگہ پر ثابت قدم رہا۔ اس کے ہاتھ سے مشعل گر چکی تھی لیکن مشعل کی روشنی بدستور قاسم اور اسلم پر پڑ رہی تھی۔قاسم نے اپنے زخم کی پرواہ نہ کر تے ہوئے پوری قوت سے تلوار گھمائی اور اسلم خان کا سرکٹ کر کمرے کے اندر جا گرا۔ مشعل کی روشنی اندر تک جارہی تھی۔ اسلم کا کٹا ہوا سر کمرے میں لڑھکتا ہو ا چلا گیا۔ اور پھر اگلے کمرے سے ایک نسوانی چیخ بلند ہوئی۔ یہ اسلم کی بیوی کی چیخ تھی
قاسم نے گری ہوئی مشعل اٹھائی اور کمرے کے اندرداخل ہوگیا۔ مشعل کی روشنی میں اس نے دیکھا کہ کمرے میں ایک خاتون موجود تھی جس کا بدن تھر تھر کانپ رہا تھا اور اس کے پیروں میں ایک ہلکی سی تلوار پڑی تھی۔ غالباً یہ تلوار اسلم نے اپنی بیوی کو حفاظت کے لیے دی تھی۔لیکن وہ کمزور دل خاتون اسے استعمال نہ کرسکی اور مارے ڈر کے نیچے پھینک دی۔ اسلم کی بیوی نے اپنے خاوند کا کٹا ہوا سر دیکھا تو اس کا دماغی توازن ٹھکانے نہ رہا۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے کچھ دیر نقاب پوش قاسم کی جانب دیکھتی رہی اور پھر یکلخت اس نے اپنے سامنے پڑی تلوار دونوں ہاتھوں سے اٹھالی اور کسی پاگل درندے کی طرح قاسم پر حملہ کر نے کے لیے دوڑی۔ قاسم نے دو قدم پیچھے ہٹ کر اس اناڑی خاتون کی تلوار پر اپنی تلوار سے وار کیا تو اس کی تلوار اس کے ہاتھ سے نکل کر دیوار سے جاٹکرائی ۔ اتنی دیر میں باہر دوڑتے ہوئے قدموں کی آواز سنائی دی۔ یہ آغاحسن تھا جو قاسم کو یہ بتانے کے لیے آیا تھا کہ کچھ مسلح افراد مکان کو سامنے کی جانب سے گھیرے میں لینے کی کوشش کررہے ہیں۔ قاسم نے سنا تو بجلی کی تیزی سے باہر کی طرف جانب جست لگائی اور کسی چھلاوے کی طرح تین تین زینے پھلانگتا مکان کی چھت پر جاپہنچا۔ آغاحسن بھی اس کے عقب میں تھا۔چھت پر امیر خان پہلے سے موجود تھا ور اس نے سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے واپسی کے لیے چھت کے ساتھ کمند پہلے سے لٹکا رکھی تھی۔ کمند کا آنکڑا چھت کے ساتھ چپکا ہوا تھا اور کمند کی مضبوط رسی نیچے زمین تک چلی گئی تھی۔ سب سے پہلے آغاحسن نیچے اترا.............. پھر قاسم اور سب سے آخر میں امیر خان بھی نیچے اتر آیا۔ اب وہ محفوظ تھے۔ تینوں دبکی چال سے چلتے ہوئے شہتوت کے درختوں تک آئے اور اس سے پہلے کہ مسلح افراد مکان میں داخل ہوتے، ینی چری کے یہ تینوں سالار اپنا کام کر کے چھاؤنی کے علاقے سے نکل چکے تھے۔
صبح ہوئی تو ادرنہ کے لوگوں نے عجیب عجیب خبریں سنیں۔ ہر طرف سنسنی پھیلی ہوئی تھی۔ اور لوگ جگہ جگہ کل کے واقعات پر تبصرہ کر رہے تھے۔ ایک ہی دن میں ینی چری کے معسکر اور چھاؤنی میں قتل کی چار سنسنی خیزوارداتیں ہوئی تھی۔ ہر شخص کی زبان پر یہی بات تھی کہ قیصر کے جاسوس ادرنہ میں پھیل چکے ہیں۔
لیکن قاسم کسی اور ہی فکر میں تھا۔ اس کے پاس وقت کم تھا ۔ اور ابھی اسے بہت سے کام نمٹانے تھے۔ اس وقت وہ بغدادی دروازے کے قریب منڈلا رہاتھا ۔ ابوجعفر کی رہائش اسی علاقے میں تھی۔ یہ دن کا وقت تھا اور قاسم اکیلا تھا۔ وہ غالباً یہاں کوئی کاروائی کرنے کی بجائے محض موقع کا جائزہ لینے کے لیے آیا تھا۔ آج بازار میں خوب گہما گہمی تھی۔ لوگ ترکی ٹوپیاں پہنے اور بھاری بھرکم لباس زیب تن کئے کاروبار زندگی میں مصروف تھے۔ قاسم آہستہ قدموں سے چلتا ہوا بازار سے گزر نے لگا۔ یہاں جگہ جگہ دو یا چار آدمی کل کے واقعات پر زور و شور سے محو گفتگو تھے۔ قاسم کے بدن پر ڈھیلا ڈھالا عربی لباس تھا۔ جس کی قمیض گھٹنوں سے نیچے تک تھی۔ اس نے سر پر بھی حجازی طرز کا عمامہ باندھ رکھا تھا۔ وہ بازار کی چہل پہل سے بے پرواہ بغدادی دروازے کی طرف چلتا چلا گیا۔ اسے بغدادی دروازے کی جامعہ مسجد میں جانا تھا۔ وہ ابھی جامعہ مسجد کی طرف مڑنے ہی والا تھا کہ اس کی نظر مارسی کے کوچوان پر پڑی۔ مارسی کا کوچوان بازار میں کچھ خریداری کرتا پھر رہاتھا ۔ اچانک قاسم کو مارسی کے کوچوان اکبر سے ملنے کا خیال آیا اور وہ ڈھیلے قدموں سے نو عمر لڑکے کی جانب چل دیا۔ جونہی وہ اکبر کے قریب پہنچا تو اکبر نے فوراً قاسم کو پہچان لیا۔
’’ارے ! صاحب جی، آپ !.آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟..مالکن آپ کی بہت تعریفیں کرتی ہیں۔ آج تو ہمارے گھر میں وہ آیا ہوا ہے۔ وہ بڑی مالکن کا دوست کا لے چوغے والا پیشوا۔‘‘
اکبر نے گویا قاسم کی ساری مشکل ہی آسان کر دی۔ اسے جس کی تلاش تھی، اس کا پتہ خود بخود چل کر قاسم کے پاس آگیا تھا۔ قاسم نے اکبر سے فوراً سوال کیا۔
کون؟ابوجعفر؟
جی ہاں ، وہی ابوجعفر ...نیلی آنکھوں والا
اکبر نے نیلی آنکھوں والا کہا تو قاسم کا ذہن پھر گھومنے لگا۔ نیلی آنکھوں والا عرب باشندہ ابوجعفر ہمیشہ قاسم کے دل میں کھٹکتا تھا۔ قاسم نے فوراً فیصلہ کیا کہ وہ مارسی کے پاس پیغام بھیجے گا۔ چنانچہ اس نے اکبر سے کہا۔
’’میں تمہیں ایک خط لکھ کر دیتا ہوں ۔ کیا تم اسے صحیح سلامت اپنی چھوٹی مالکن تک پہنچا دوگے؟‘‘
’’جی بالکل ! میں وہ خط صرف چھوٹی مالکن کو دوں گا۔‘‘
مارسی کا کوچوان اپنی عمر سے زیادہ چالاک تھا۔ اب قاسم کے لیے مسئلہ تھا اس بازار میں خط لکھنے کا اہتمام کرنا۔ اس نے سوچا کسی سرائے کے منشی کا قلم اور روشنائی ہی اس وقت کام آسکتے ہیں۔ وہ مارسی کے کوچوان اکبر کو لے کر کسی سرائے کی تلاش میں چل کھڑا ہوا۔ بازار میں کافی رش تھا۔ زیادہ تر لوگ پیدل آجارہے تھے۔ اور کچھ لوگ گدھوں اور گھوڑوں پر بازار سے گزر رہے تھے۔ انواع و اقسام کی دکانیں سجی ہوئی تھیں اور زن و مرد خرید و فروخت میں مصروف تھے۔ یہ ادرنہ کا سب سے بڑا بازار تھا۔ یہ بغدادی دروازے سے شروع ہوکر بیچ شہر تک چلا جاتا تھا۔ قاسم اور اکبر سرائے کی تلاش میں بغدادی چوک تک آئے اور اکبر کے بتانے پر قاسم ایک جگہ رک گیا۔ یہ ایک بڑی اور شاندار سرائے تھی۔ قاسم ، اکبر کو لیے اندر داخل ہوا تو سرائے کی عمارت دیکھ کر حیران رہ گیا۔ یہ پتھروں سے بنائی گئی ایک خوشنما عمارت تھی۔
قاسم عمارت کا صحن پار کرکے استقبالیہ چبوترے پر پہنچا۔ وہاں ایک ادھیڑ عمر شخص نے مسکراکر اس کا استقبال کیا۔ قاسم نے بیٹھتے ہی اپنا مدعا بیان کیا ۔ ادھیڑ عمر شخص نے فوراً ایک کاغذ اور قلم قاسم کی جانب بڑھا دیا۔ ساتھ ہی لکڑی کے صندوق پرر وشنائی رکھی تھی۔ قاسم نے مارسی کو لکھا۔
’’ آج پھر چیل تمہارے چمن میں موجود ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ تمہارے نشیمن کو نقصان پہنچائے اس کے عزائم معلوم کرلو۔ ستاروں کی چال کے مطابق آج کادن ہم سب کے لیے بہتر ہے۔ پرندگان چمن کے لیے چیل کا خطرہ کم ہوتا جارہا ہے۔ امید ہے شاہین کے آنے تک چیل کسی شکاری کے تیر کا نشانہ بن جائے گی۔ لیکن اس کی نقل وحرکت پر خصوصاً آج کے دن نظر رکھنا تمہاری ذمہ داری ہے۔ والسلام۔‘‘
یہ ایک طرح سے خفیہ تحریر تھی۔ لیکن مارسی جیسی ذہین لڑکی کے لیے اسے سمجھنا کوئی مسئلہ نہ تھا۔ قاسم نے مارسی کے نام لکھی چٹھی کو تہہ کیا اور چٹھی اکبر کو تھمادی
 

No comments:

Post a Comment