اللہ والوں کے قصّے------...قسط نمبر 5.

ایک دفعہ حضرت علیؓ اور حضرت عمرؓ نے حضرت اویس قرنیؓ سے ملاقات کی۔ باتوں کے دوران حضرت عمرؓ نے آپ سے استدعا کی آپ کچھ دیر اسی جگہ قیام فرمائیں۔ میں آپ کے لیے کچھ لے کر آتا ہوں۔

اس پر حضرت اویسؓ نے اپنی جیب سے دو درہم نکال کر دکھاتے ہوئے کہا ۔  یہ اونٹ چرانے کا معاوضہ ہے۔ اگر آپ یہ ضمانت دیں کہ یہ درہم خرچ ہونے سے پہلے میرے موت نہیں آئے گی تو پھر آپ کو جو جی چاہے عنایت فرمائیں ورنہ یہ دو درہم میرے لیے بہت کافی ہیں۔

اس کے بعد آپؓ نے فرمایا۔ ’’ یہاں تک پہنچنے میں آپؓ حضرات کو جو اذیت ہوئی اس کے لیے میں معذرت خواہ ہوں اور اب آپؓ دونوں واپس ہوجائیں۔ کیونکہ روزِ حشر قریب ہے اور میں زادِ آخرت کی فکر میں ہوں

اس پر حضرت علیؓ اور حضرت عمرؓ واپس چلے آئے

شیخ بو علی سیناؒ حضرت ابو الحسن خرقانیؒ کا شہرہ سُن کر خرقان پہنچے مگر آپ کہیں باہر گئے ہوئے تھے۔ آپؒ کی بیوی سے پوچھا۔

’’شیخ کہاں ہیںآپ کی بیوی سخت بد مزاج تھی۔ سُن کر بولی

 اس ملحد و زندیق کا کیا پوچھتے ہو؟ان الفاظ سے بوعلی سیناؒ کا اعتفاد کچھ سست پڑ گیا۔ جب بیوی ہی کواُن کی فکر ہے تو اوروں کاکیا ذکر ؟ غرض باہر چلے گئے

پھر بو علی سیناؒ جنگل میں پہنچے۔ تو آپؒ نے دیکھا کہ حضرت خرقانیؒ ایک شیر پر سوار اور کچھ بوجھ رکھے ہوئے تشریف لا رہے ہیں۔ بوعلی سیناؒ نے پوچھا۔ ’’ یہ کیا حالت ہے ؟‘‘

آپؒ نے فرمایا ۔اگر ہم عورت کا بارنہ اُٹھائیں تو شیر ہمارا بوجھ کب اُٹھا سکتے ہیں۔‘‘یہ سُن کر بو علی سیناؒ کا اعتقاد پھر سے بحال ہوگیا اور انہیں ولایت کے بوجھ کی بھی سمجھ آگئی۔

ایک دفعہ روم کا ایک آتش پرست حضرت ابو العباسؒ نہاوندی کا امتحان لینے کی غرض سے آیا مگر اپنا لباس بدل کر مسلمان درویش کی صورت میں آیا۔ جونہی اُن کی نگاہ اس پر پڑی ، فرمایا’ اے بیگانے ! بیگانوں کے کوچے میں تیرا کیا کام؟

وہاں سے وہ نکل کر سامنے آیا۔ آپؒ نے اس سے کچھ نہ کہا۔ پھر وہ چار ماہ تک ٹھہرا رہا۔ درویشوں کے ساتھ وضو کرتا۔ نماز پڑھتا۔ آخر ایک دن چلنے کا ارادہ کیا تو شیخ نے فرمایا۔

’’ جب نان و نمک کا حق ہوگیا تو یہ جوانمردی سے بعید ہے کہ بیگانہ وار رہو اور بیگانہ وار جئے جاؤ۔‘‘یہ سُن کروہ صدق دل سے مسلمان ہوگیا اور اس قدر ریاضت کی کہ آپؒ کے بعد ہی آپ کا خلیفہ ہوا۔

ایک بار لوگوں کے پوچھنے پر حضرت ابو وراقؒ نے فرمایا۔

آدمی تین طرح کے ہوتے ہیں۔

۱۔ امرأ ۲۔ علمأ ۳۔ فقرأ

جب امرأ تباہ ہوتے ہیں تو خلقت کی معاش تباہ ہوجاتی ہے۔

جب عالم تباہ ہوتے ہیں تو خلقت کا اخلاق تباہ ہوجاتاہے۔

جب فقرأ تباہ ہوتے ہیں تو خلقت کا دل تباہ ہوجاتا ہے۔

زہد ، تین حروف سے مرکب ہے:

ز سے ترک زینت

ہ سے ترک ہوش

د سے ترکِ دُنیا

حضرت ابو محمد مرتعشؒ نے ایک مرتبہ فرمایا:

’’میں نے تیس سال تک محض توکل پر حج کیے لیکن جب غور سے دیکھا تو وہ سب کے سب ہوائے نفس سے تھے۔ ان میں سے ایک بھی حج درست نہیں تھا۔

فرمایا۔’ میرے والد نے فرمایا، پانی کا گھڑا لے آؤ۔ ان کا یہ حکم مجھ پر ناگوار گزرا جس سے معلوم ہوگیا کہ میرے تمام کے تمام حج خواہشات نفسانی کے ماتحت تھے

حضرت قطب الاولیا ابی اسحٰق ابراہیم بن شہریار گازرونیؒ نے لوگوں کے پوچھنے پر بتایا۔

 بخیل، کاہل اور ملول قسمِ کے انسان کبھی فلاح نہیں پاسکتے۔ خدا دوست کبھی دنیا کا دوست اور دنیا کا دوست کبھی خدا دوست نہیں ہو سکتا


 

No comments:

Post a Comment