اللہ والوں کے قصّے........... قسط نمبر 11.


ایک رات ہارون الرشید نے فضل برمکی کو حکم دیا کہ مجھے کسی درویش سے ملواؤ۔چنانچہ وہ اسے سفیان ثوری کی خدمت میں لے گیا۔اور دستک دینے کے بعد حب حضرت سفیان ؒ نے پوچھا ’’کون ہے۔‘‘
فضل نے جواب دیا ’’ امیرالمومنین ہارون الرشید تشریف لائے ہیں‘‘۔
حضرت سفیانؒ نے فرمایا ۔’’کاش مجھے پہلے سے علم ہوتا تو میں خود استقبال کیلئے حاضر ہوتا۔‘‘
یہ جواب سن کر ہارون الرشید نے فضل سے کہا۔’’میں جیسے درویش کا متلاشی تھا ان میں وہ اوصاف نہیں ہیں اور تم مجھے یہاں لے کر کیوں آئے
فضل نے عرض کیا۔’’آپ جس قسم کے بزرگ کی تلاش میں ہیں وہ اوصاف حضرت فضیل بن عیاضؒ میں ہیں‘‘۔
یہ کہہ کر فضل ہارون الرشید کو فضیل بن عیاضؒ کے ہاں لے گیا۔اس وقت آپ یہ تلاوت فر مارہے تھے۔
)ترجمہ( ’’کیا یہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے بُرے کام کیے۔ہم ان کو نیک کام کرنے والوں کے برابر کر دیں گے۔‘‘
یہ سن کر ہارون نے کہا کہ اس سے بڑی نصیحت او ر کیا ہو سکتی ہے اور پھر جب دروازے پر دستک دینے کے جواب میں حضرت فضیلؒ نے پوچھا۔’’کون ہے
تو فضل برمکی نے کہا ۔’’امیرالمومنین تشریف لائے ہیں‘‘۔
آپؒ نے اندر ہی سے فرمایا ’’ ان کامیرے پاس کیا کام؟ اور مجھے ان سے کیا واسطہ،
میری مشغولیت میں آپ لوگ حارج نہ ہوں۔‘‘
فضل نے کہا۔’’اولامر کی اطاعت فرض ہے۔‘‘
آپ نے فرمایا کہ’’مجھے اذیت نہ دو
پھر فضل نے کہا ’’ آپ اندر داخلے کی اجازت نہیں دیتے تو ہم بلا اجازت داخل ہوجائیں گے۔‘‘
آپؒ نے فرمایا’’میں تو اجازت نہیں دیتاویسے بلا اجازت داخلے میں تم مختار ہو۔‘‘اور جب دونوں اندر داخل ہوئے تو آپ نے شمع بجھا دی تاکہ ہارون کو شکل نظر نہ آئے لیکن اتفاق سے تاریکی میں ہارون کا ہاتھ آپ کے دست مبارک پر پڑ گیا تو آپؒ نے فرمایا ’’کتنا نرم ہاتھ ہے۔کاش جہنم سے نجات حاصل کر سکے۔‘‘یہ فرما کر نماز میں مشغول ہو گئے اور فراغت نما ز کے بعد جب ہارون نے عرض کیا۔’’آپ کچھ ارشاد فرمائیں
آپؒ نے فرمایا۔’’تمہارے والد حضور نبی اکرمﷺ کے چچا تھے اور جب انہوں نے حضورؐ سے استدعا کی کہ مجھے کسی ملک کا حکمران بنا دیجئے تو حضورؐ نے فرمایا کہ میں تمہیں تمہارے نفس کا حکمران بناتا ہوں۔کیوں کہ دنیاوی حکومت تو روز محشر وجہ ندامت بن جائے گی‘‘۔
یہ سن کر ہاروں نے عرض کی۔’’کچھ اور ارشاد فرمائیں‘‘
آپؒ نے فرمایا ’’جب عمر بن عبدالعزیزؒ کو سلطنت حاصل ہوئی تو انہوں نے کچھ ذی عقل لوگوں کو جمع کرکے فرمایا کہ میرے اُوپر ایک ایسا بارگراں ڈال دیا گیا ہے کہ جس سے چھٹکارے کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی۔اُن میں سے ایک نے مشورہ دیا۔آپ ہر سن رسیدہ کو باپ کی جگہ تصور کریں اور ہر جوان کو بمنزلہ بھائی کے اور بیٹے کے تصور کریں اور عورتوں کو ماں بیٹی اور بہن سمجھیں اور انہیں رشتوں کے مطابق ان سے حسن سلوک سے پیش آئیں
ہارون الرشید نے پھر عرض کیا۔’’ کچھ اور نصیحت فرمائیں‘‘۔
آپؒ نے فرمایا’’پوری مملکت اسلامیہ کے باشندوں کو اپنی اولاد تصور کرو۔بزرگوں پر مہربانی کرو۔چھوٹوں سے بھائیوں اور اولادوں کی طرح پیش آؤپھر فرمایا کہ مجھے خوف ہے کہ کہیں تمہاری حسین و جمیل صورت نارجہنم کا ایندھن نہ بن جائے کیونکہ کہ محشر میں بہت سی حسین صورتوں کا نار جہنم میں جا کر حلیہ ہی تبدیل ہو جائے گااور بہت سے امیر اسیر ہو جائیں گے۔اﷲ سے خائف رہتے ہوئے محشر میں جوب دہی کیلئے ہمیشہ چوکس رہو۔کیوں کہ وہاں تم سے ایک ایک مسلمان کی باز پرس ہو گی او اگر تمہاری قلمرو میں ایک غریب عورت بھی بھوکی سو گئی تو محشر میں تمہارا گریبان پکڑ لے گی
ہارون پر یہ پرنصیحت گفتگو کو سنتے ہی غشی طاری ہو گئی اور فضل برمکیؒ نے حضرت فضیل سے کہا۔’’جناب بس کیجئے،آپؒ نے تو امیرالمومنین کو نیم مردہ ہی کر دیا ‘‘
حضرت فضیلؒ نے فرمایا۔’’ خاموش ہو جا،میں نے نہیں بلکہ تم نے اور تمہاری جماعت نے ہارون کو زندہ درگو کر دیا ہے۔‘‘
یہ سن کر ہارون پر مزید رقّت طاری ہو گئی۔پھر ہارون نے پوچھا ’’ آپ کسی کے مقروض تو نہیں ہیں‘‘۔
فرمایا۔’’بے شک اﷲتعالیٰ کا قرض دار ہوں اور اس کی ادائیگی صرف اطاعت کے ساتھ ہو سکتی ہے لیکن اس کی ادائیگی بھی میرے بس سے باہر سے کیوں کہ روز محشر میرے پاس کسی سوال کا جواب نہ ہوگا۔ اوریہ کہ اﷲتعالیٰ کی عطا کردہ نعمتیں ہی اتنی ہیں کہ مجھے قرض لینے کی ضرورت نہیں‘‘اس کے باوجود ہارون نے بطور نذرانہ ایک ہزار دینار کی تھیلی پیش کرتے ہوئے عرض کیا۔’’یہ رقم مجھے اپنی والدہ کے ورثہ میں ملی ہوئی ہے۔اس لیے قطعاً حلال ہے۔‘‘
یہ سن کرآپؒ نے فرمایا’’صد حیف میری تمام پندونصائح بے سود ہو کر رہ گئیں کیونکہ تم مجھے قصر ہلاکت میں جھونک دینا چاہتے ہو۔کیونکہ جو مال مستحقین کو ملنا چاہئیے وہ تم غیر مستحقین میں تقسیم کرنے کے خواہاں ہو۔اس کے بعد ہارون نے رخصت ہوتے وقت فضل سے کہا۔
یہ واقعی صاحب فضل بزرگوں میں سے ہیں۔‘‘
حضرت فضیل بن عیاضؒ کے انتقال کے وقت دو صاحبزادیاں تھیں۔ چنانچہ آپؒ نے اپنی زوجہ محترمہ سے فرمایا کہ میرے بعد ان دونوں کو کوہ قبیس پر لے جا کر اﷲتعالیٰ سے عرض کرنا۔’’فضیل نے زندگی بھر انہیں پرورش کیا اور اب جب کہ وہ قبر میں جا چکا ہے۔تو یہ دونوں تیرے سپرد ہیں‘‘
چنانچہ بیوی نے وصیت پر عمل کیا اور ابھی دعا ہی میں مشغول تھیں کہ سلطان یمن ادھر آنکلا اور اس نے دونوں صاحبزادیوں کو اپنی کفالت میں لیکر ان کی والدہ سے اجازت کے بعد اپنے دو لڑکوں سے ان دونوں کی شادیاں کردیں۔
حضرت مالک دینارؒ کسی مریض کی مزاج پُرسی کیلئے تشریف لے گئے اور وہ چونکہ قریب المرگ تھا۔اس لیے آپ نے اس کو کلمہ پڑھنے کی تلقین فرمائی لیکن وہ کلمہ پڑھنے کے بجائے بار بار دس اور گیارہ کہتا رہا۔
پھر جب آپ ؒ نے زیادہ اصرار کیا تو اس نے کہا’’میرے سامنے ایک آگ کا پہاڑ ہے اور جب میں کلمہ پڑھنے کا قصد کرتا ہوں تو وہ آگ میری طرف جھپٹتی ہے۔‘‘
آپ نے جب لوگوں سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ سود خور بھی تھا اور کم تولنے والا بھی
 

No comments:

Post a Comment