اللہ والوں کے قصّے...........قسط نمبر 14.

ایک مرتبہ ایک شخص سر راہ شرارتاً حضرت شیخ الوالحسن بوشنجیؒ کو گھونسا مار کر بھاگا لیکن جب اسے معلوم ہوا کہ آپ ا ﷲکے پیارے بندے ہیں تو اس نے ندامت کے ساتھ معذرت چاہی لیکن آپؒ نے فرمایا ۔
’’اس فعل کا فاعل میں تمہیں نہیں تصور کرتا کیونکہ جس کو فاعل حقیقی سمجھتا ہوں اس سے غلطی کا امکان نہیں اس لیے نہ مجھے تم سے کوئی شکایت ہے نہ فاعل حقیقی سے شکوہ۔کیونکہ میں اسی قابل تھا
ایک بزرگ ہمیشہ حضرت شیخ محمد علی حکیم ترمذی ؒ کو بُرا بھلا کہتے تھے ۔چنانچہ جب آپ حج سے واپس ہوئے تو آپ کی جھونپڑی میں کُتیا نے بچّے دے رکھے تھے اور آپ ستّر مرتبہ محض اس خیال سے اُس کے سر پر آ کھڑے ہوئے کہ شاید وہ کُتیا دھتکارے بغیر چلی جائے تا کہ میری ذات سے اُسے کوئی تکلیف نہ پہنچے۔
چنانچہ اُسی شب بُرا بھلا کہنے والے بزرگ نے خواب میں دیکھا کہ حضور نبی اکرمؐ فرما رہے ہیں ’’ جو کتے کو بھی اذیت نہ پہنچانا چاہتا ہو تو اس کو برا بھلا کہتا ہے اور اگر تجھے سعادت ابدی حاصل کرنی ہے۔تو اس کی خدمت کر
چنانچہ بزرگ بیدار ہوکر خدمت میں حاضر ہوئے اور تائب ہو کرتا حیات آپؒ کی خدمت میں ہی پڑے رہے۔
حضرت داؤد طائی ؒ کا مکان بہت وسیع تھا لیکن جب اس کا ایک حصہ منہدم ہو گیا تو آپؒ دوسرے حصے میں منتقل ہو گئے۔اور جب وہ حصہ بھی گر گیا تو دروازے میں منتقل ہو گئے لیکن اس کی چھت بھی بہت بوسیدہ تھی او ر جب لوگوں نے دروازے کی چھت ٹھیک کروانے کو کہا تو آپؒ نے فرمایا ۔
’’میں اﷲتعالیٰ سے عہد کر چکا ہوں کہ دُنیا میں تعمیر کا کام نہیں کرواؤں گا۔‘‘
آپؒ کے انتقال کے بعد دروازے کی وہ چھت بھی گر گئی
حضر ت حارث محاسبیؒ کسی مشتبہ کھانے کی جانب ہاتھ بڑھاتے تو انگلیاں شل ہو جاتیں جس کیوجہ سے آپ کو اکل حلال اور اکل حرام کا پتہ چل جاتا تھا۔
چنانچہ ایک مرتبہ آپؒ بُھو ک کی حالت میں حضرت جنید بغدادیؒ کے یہاں پہنچ گئے اور وہاں اتفاق سے کسی شادی میں کھانا آیا ہوا تھا لہذا جب وہ کھانا حارث محاسبیؒ کے سامنے پیش کیا گیا تو ہاتھ بڑھاتے ہی انگلیاں شل ہو گئیں لیکن بطور تو اضع آپؒ نے ایک لقمہ منہ میں رکھ ہی لیا اور جب وہ حلق سے نیچے نہ اتراتو باہر جا کر اگل دیا اور وہیں سے رخصت ہو گئے
حضرت احمد حواریؒ سے روایت ہے کہ جب میں حضرت سماکؒ )جو کہ بیمار تھے(کا قارورہ لیکر طبیب کے یہاں پہنچا تو اتفاق سے وہ آتش پرست تھا اور جب میں وہاں سے واپس ہُوا تو راستے میں ایک بزرگ نے سوال کیا کہ کہاں سے آرہے ہو اور میں نے پورا واقعہ بیان کیا تو انہوں نے فرمایا۔
’’انتہائی حیرت ہے کہ خدا کا محبوب خدا کے دشمن سے مدد حاصل کرے، لہذا تم ان سے یہ کہہ دو کہ درد کے مقام پر ہاتھ رکھ کر یہ دعا پڑھ لیں۔
اعوذ باﷲ من الشیطن الرّ جیم و بالحق انزلنا و بالحق نزل
چنانچہ واپسی میں جب میں نے آپ سے یہ واقعہ بیان کیا تو آپؒ نے دعا پڑھ کر دم کیا اور فوراً ہی صحت حاصل ہو گئی پھر مجھ سے فرمایا کہ وہ حضرت خضر علیہ السّلام تھے۔جاری ہے 



 

No comments:

Post a Comment