عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا<,>۔۔۔قسط نمبر 25

ادھر طاہر بن ہشام آندھی اور طوفان کی طرح سفر کرتا ہوا لشکر سلطانی کی طرف بڑھا چلا جارہا تھا ۔ لیکن ابھی وہ راستے میں ہی تھا کہ اسے سلطانی لشکر کی واپسی کی خبر ملی۔ وہ پھر بھی تیز رفتاری سے سفر کرتا رہا۔ اس کے پاس شہزادہ محمد کا خط تھا اور اسے اپنے بھائی قاسم کو شہزادہ علاؤ الدین کی قید سے آزاد کرواناتھا ۔وہ درِ دانیال عبور کرکے ایشیائے کوچک میں داخل ہوا تو اسے سلطانی لشکر کی واپسی کے آثار نظر آنے لگے۔ اگلے روز وہ سلطانی لشکر گاہ کے سامنے تھا ۔ وہ اپنے تھکے ہوئے گھوڑے پر سوار لشکر کے پڑاؤ میں داخل ہوا اور کچھ ہی دیر بعد وہ سلطان کی خدمت میں شہزادہ محمد کا خط پیش کر رہاتھا 

سلطان جوں جوں شہزادے کا خط پڑھتا گیا، اس کی بھنویں سکڑتی گئیں اور چہرے پر غصے کے آثار نظر آتے گئے۔ سلطان نے خط پڑھ کر کچھ دیر کے لیے خاموشی اختیار کرلی اور چند لمحوں بعد طاہر سے مخاطب ہوا۔

’’تم نے بہت اچھا کیا جو ہم کو خبر کردی ۔ ہم خود بہت جلد ادرنہ پہنچنے والے ہیں۔ لیکن ہمیں پہنچتے پہنچتے ابھی اتنا وقت لگ جائے گا کہ دشمن ادرنہ میں کوئی بغاوت پھیلا سکے۔ اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ اپنے تیز رفتار قاصد کو تمہارے ہمراہ روانہ کردیں تاکہ قاسم بن ہشام کو شاہی زندان سے رہائی دلائی جاسکے

طاہر بھی یہی چاہتا تھا ۔ چنانچہ اس نے آرام کرنا بھی مناسب نہ سمجھا اور اسی دن شام سے پہلے وہ سلطانی قاصد کے ہمراہ ایشیائے کوچک کی خاک اڑاتا دوبارہ ادرنہ کی جانب روانہ ہوچکاتھا ۔

لیکن اس سے پہلے کہ طاہر ادرنہ پہنچتا، ملکہ معظمہ کے کہنے پر شہزادہ علاؤالدین نے قاسم بن ہشام کو آزاد کردیا تھا ۔ اور جس روز طاہر ادرنہ واپس پہنچا، قاسم گھر میں موجود تھا ۔ طاہر قصرِ سلطانی سے فارغ ہوکر لوٹا تو اس نے قاسم اور مارسی کو گھر کے صحن میں بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے پایا ۔ اس کی نظر قاسم پر پڑی اور یکلخت اس کی ساری تھکاوٹ دور ہوگئی۔ قاسم نے بھی طاہر کوآتے دیکھ لیا تھا چنانچہ اس نے بھاگ کر طاہر کا استقبال کیا اور اپنے بڑے بھائی کے ساتھ بغلگیر ہوگیا ۔ عمر اور علی نے اپنے باپ طاہر کو آتے دیکھا تو چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھالیا۔ وہ .ابو آگئے ، ابو آگئے کی رٹ لگاتے ہوئے باپ کی جانب دوڑے اور اس کی ٹانگوں سے لپٹ گئے۔ بچوں کا شور سن کر سکینہ اور طاہر کے والدین بھی کمروں سے باہر نکل آئے۔ مارسی کے چہرے پر بھی مسرت کی لہر تھی۔ طاہر نے اپنے سارے کنبہ کو مسرت سے لبریز دیکھا اور دل ہی دل میں خدا کاشکر ادا کیا

لیکن ابو جعفر ابھی تک آزاد تھا ۔ شہزادہ علاؤالدین نے قاسم کو رہا تو کردیا تھا ، لیکن اس شرط پر کہ وہ ابوجعفر پر ہاتھ نہیں ڈالے گا۔چنانچہ اس نے ابوجعفر اور اس کے ایک دو مشکوک ساتھیوں کی محض نگرانی کرنے پر اکتفا کیا اور ینی چیری میں اپنے دستے کو بھی کسی قسم کے حالات سے نمٹنے کے لیے ذہنی طور پر تیار کر لیا۔اب وہ سازشی کرداروں کو گرفتار کرنے کی بجائے سلطان کا انتظار کررہا تھا ۔ اس نے شہر میں جگہ جگہ اپنے ماتحت کام کرنے والے ینی چری کے بعض سمجھدار سپاہی پھیلا دیئے اور کسی بھی قسم کے حالات کا سامنا کرنے کا عزم کر لیا۔ اسے بے چینی سے سلطان کی واپسی کا انتظار تھا ۔چند ہی دن بعد سلطان مراد خان ثانی کے لوٹنے کی خبر سارے ادرنہ میں پھیل گئی۔ زور وشور کے ساتھ شہر کی صفائیاں ہونے لگیں اور دربارِ شاہی سے منسلک لوگ ذہنی طور پر تیار ہونے لگے

ابوجعفر کے دل میں بے حد کھٹکا تھا ۔ خصوصاً جب سے قاسم کو آزاد کیا گیا تھا اسے اپنے بھیانک انجام کا ڈر سا رہنے لگاتھا ۔ اس دوران اسے یہ بھی معلوم ہوچکاتھا کہ مارتھا کہ بیٹی مارسی، قاسم بن ہشام کے گھر آتی جاتی رہتی ہے۔ وہ مارسی پر تاؤ کھا کر رہ جاتا۔ کیونکہ اب وہ مارسی کو قاسم کے گھر جانے سے روکنا بھی نہیں چاہتا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ قاسم مزید ثبوت کے کبھی اس پر ہاتھ نہیں ڈالے گا۔ لیکن پھر بھی اس کے دل میں سلطان مراد خان ثانی کا خوف گھر کر چکاتھا ۔ وہ اٹھتے بیٹھے ، سوتے جاگتے آنے والے وقت کے بارے میں سوچتا رہتا ۔ اس نے اپنے ماتحت کام کرنے والے شہر بھر میں موجود قیصر کے جاسوسوں کو چوکنا کردیا تھا ۔ اس کا منصوبہ تھا کہ اگر سلطان نے اسے حراست میں لیا تو قیصر کے جاسوس چہروں پر ڈھاٹے باندھ کر شہر میں جگہ جگہ مختلف عمارات کو آگ لگا دیں، ینی چری میں موجود غداروں کو بھی اس نے اس کا م کے لیے تیار کر رکھا تھا کہ ادھر شہر میں جگہ جگہ آگ لگے اور ادھر وہ شہر میں گھس کر عوام کو لوٹنا اور قتل کرنا شروع کردیں۔ وہ خود ایک پرانا جاسوس تھا اور اس نے کچی گولیاں نہیں کھیلی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے اپنے فرار کا منصوبہ بھی مکمل طور پر سوچ لیا تھا ۔ جونہی شاہی دستہ اسے گرفتار کر کے قصرِ سلطانی کی طرف لے جانے لگتا ، ینی چری کے غدار سپاہیوں کا ایک خونخوار دستہ اچانک کسی جانب سے شاہی سپاہیوں پر حملہ کردیتا اور ابوجعفر کو چھڑا لیتا۔ اس نے قاسم بن ہشام کو ختم کرنے کے لیے بھی اپنے خفیہ آدمی لگا رکھے تھے جو ہر وقت قاسم پر نظر رکھے ہوئے تھے اور موقع پاتے ہی اسے قتل کردینا چاہتے تھے

یوں ابوجعفر ، سلطان کی واپسی کے ساتھ ہی اپنی سازش کے آخری مرحلے پر عمل کرنے کے لیے تیار بیٹھا تھا ۔اب صرف اس کے لیے ایک کام کی منصوبہ بندی باقی رہ گئی تھی اور وہ تھا مارتھا کی بیٹی مارسی کو اس کے گھر سے اغوا کرنا اور صحیح سلامت البانیہ کے بادشاہ سکندر بیگ تک پہنچانا ۔ یہی وجہ تھی کہ وہ مارسی کو قاسم کے گھر آتا جاتا دیکھتا تو سانپ کی طرح بل کھا کر رہ جاتا۔

سکندر بیگ جب سے ادرنہ چھوڑ کر گیا تھا ، ابوجعفر اس کے ساتھ رابطے میں تھا ۔ اور چند دن قبل ہی سکندر نے ابوجعفر کو پیغا م بھیجا تھا کہ وہ اس کی امانت یعنی مارسی کو اس تک پہنچادے۔ اور اب ابوجعفر یہ چاہتا تھا کہ سلطان کی آمد سے پہلے پہلے وہ اس قضیے کو بھی نمٹا دے۔ چنانچہ ایک دن اس نے مارسی کو اغوا کرنے کی منصوبہ بندی مکمل کر لی

یہ ایک سرد رات تھی۔ ستاروں کا کارواں مشرق سے مغرب کی جانب محو سفر تھا ۔ ادرنہ کے لوگ بند کمرے میں خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے تھے اور ویران گلیوں میں آوارہ کتے اجارہ داری کررہے تھے ۔ اتنے میں قصرِ سلطانی کے عقبی محلہ میں چار گھڑ سوار نمودار ہوئے۔ ابو جعفر سب سے آگے تھا ۔ یہ چاروں گھڑ سوار نقاب پوش تھے۔ ابوجعفر اپنے نقاب پوش ساتھیوں کو لے کر مارتھا کے درواذے پر آیا...وہ گھوڑے سے اترا اور اپنے خنجر کے دستے سے گھر کے درواذے پر دستک دی۔ اس دوران اس کے ساتھی نقاب پوش بھی اپنے گھوڑوں سے اتر چکے تھے۔ دو نقاب پوشوں نے اپنے گھوڑوں کی لگامیں تیسرے نقاب پوش کو کو تھما دیں۔اسی تیسرے نقاب پوش نے ابوجعفر کے گھوڑے کی لگام بھی تھام لی اور چاروں گھوڑوں کو لے کر ایک جانب اوٹ میں کھڑا ہوگیا ۔ ابوجعفر کے ساتھ موجود دونوں نقاب پوش مکان کی ایک دیوار کے ساتھ چپک کر کھڑے ہوگئے تاکہ درواذہ کھلنے پر دکھائی نہ دیں۔ ابوجعفر کی تلوار نیام میں تھی اور اس نے درواذہ کھٹکھٹانے سے پہلے اپنے چہرے سے نقاب ہٹالیا تھا ۔ جونہی درواذے کی پرلی جانب سے مارتھا کے بوڑھے خادم نے سوال کیا ...کون ہے..تو ابوجعفر نے کہا۔

’’یہ میں ہوں ، ابوجعفر ! دروازہ کھولواور اپنی مالکن مارتھا کو میرے آنے کی اطلاع کرو۔

مارتھا کے خادم نے ابوجعفر کی آواز پہچان لی اور کھٹاک کی آواز کے ساتھ دروازہ کھول دیا۔ اگلے لمحے بوڑھے خادم کا سر دھڑ سے جدا ہوکر ڈیوڑھی میں لڑھک رہاتھا ..ابوجعفر نے تلوار نکالنے اور خادم کا سر کاٹنے میں بہت پھرتی دکھائی دی۔ اس کام سے فارغ ہوکر ابوجعفر نے اپنے دونوں ساتھیوں کو اندر آنے کا اشارہ کیا اور وہ تینوں مارتھا کے مکان میں گھستے چلے گئے۔یہاں کل پانچ افراد مقیم تھے۔ ایک مارتھا ، ایک مارسی، ایک مارسی کا کوچوان اکبر، ایک مارتھا کی خادمہ اور ایک ان کا یہ بوڑھا خادم جو ابھی ابھی ابوجعفر کے ہاتھوں موت کا ذائقہ چکھ چکا تھا ۔ابوجعفر کو کسی مزاحمت کا اندیشہ نہ تھا چنانچہ وہ بے دھڑک مارتھا اور اس کی بیٹی کے کمرے تک پہنچ گیا ۔ اب اسے یہ کوشش کرنی تھی کہ مارتھا کسی قسم کی مزاحمت کیے بغیر اپنی بیٹی کو ان کے حوالے کردے۔ وہ جانتا تھا کہ مارتھا اپنی بیٹی کے ساتھ دیوانہ وار محبت کرتی ہے۔ جبکہ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ مارتھا خود مارسی کو سکندر بیگ کی ملکہ بنانا چاہتی ہے۔ وہ یہ بھی کرسکتا تھا کہ سیدھے طریقے سے مارتھا سے کہتا کہ وہ مارسی کو اس کے آدمیوں کے ہمراہ سکندر بیگ کی جانب روانہ کردے۔ لیکن اسے یقین تھا کہ مارسی کبھی ان کے ساتھ چلنے کے لیے تیار نہ ہوگی۔ چنانچہ اس نے مارسی کو اغواء کرنے کا فیصلہ کیا اور سوچا کہ اس طرح وہ ایک تیر سے دوشکار بھی کرسکتاتھا ۔ لیکن یہاں آکر نتیجہ اس کی توقع کے برعکس نکلا۔ مارسی اس کے لیے تر نوالہ ثابت نہ ہوئی۔ بلکہ حلق میں چبھتا ہوا کانٹا بن گئی۔ اس نے جونہی مارتھا کو اپنے آواز کا دھوکہ دے کر دروازہ کھلوایا اور اندر داخل ہوا تو مارسی کو شمشیر بکف دیکھ کر اس کے ماتھے پر پسینہ آگیا۔

مارسی کے ہاتھ میں تلوار تھی اور وہ مرنے مارنے کے لیے پوری طرح تیارتھی۔ ابوجعفر نے اپنی تلوار نیام میں ڈالتے ہوئے انتہائی مکاری سے کہا:۔

’’مارتھا دیکھو! میں تمہاری بیٹی کو لینے آیا ہوں۔ اسے دعا دو۔ یہ سکندر بیگ کی ملکہ بننے جارہی ہے.......‘‘

ابو جعفر کی بات ابھی مکمل نہ ہوئی تھی کہ مارسی خونخوار لہجے میں بول اٹھی ۔ ’’خبر دار! اگر ایک قدم بھی میری جانب بڑھایا تو ٹکڑے ٹکڑے کردوں گی۔‘‘

مارتھا کے لیے یہ منظر بالکل غیر متوقع تھا ۔ وہ اپنی بیٹی کو ملکہ تو بنانا چاہتی تھی لیکن اغواء ہوکر نہیں۔ اسے مارسی سے بے حد محبت تھی۔ اس نے ابوجعفر کو اس طرح آدھی رات کے وقت ننگی تلوار لیے اپنے گھر میں داخل ہوتے دیکھا تو دہل گئی۔ اب وہ یہ بھول چکی تھی کہ مارسی کے لیے سکندر بیگ سے اچھا کوئی رشتہ نہیں۔ اسے محسوس ہوا کہ اس کی بیٹی ان لٹیرو ں کے ہمراہ محفوظ نہیں ہوگی ۔ چنانچہ اس نے پوری ہمت سے کہا:۔

’’ابو جعفر ! مجھے تم سے یہ امید نہ تھی..آج تم نے ثابت کردیا کہ تم ایک اچھے عیسائی نہیں بلکہ ایک بد فطرت انسان ہ...تم مارسی کو اغواء کرکے ہی کیوں لے جانا چاہتے ہو جب میں نے تم سے وعدہ کیا ہے کہ میں مارسی کو سکندر بیگ کے ساتھ شادی کرنے پر آمادہ کر لوں گی۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ میں صلیب کے لیے اب تک تمہارا بہت زیادہ ساتھ دیتی آئی ہوں۔لیکن یاد رکھو ! کہ میں اپنی بیٹی کو اپنی آنکھوں کے سامنے اغواء ہوتا نہیں دیکھ سکتی۔

مارتھا کی بات مکمل ہوئی ہی تھی کہ یکلخت کمرہ ابوجعفر کے قہقہے سے گونج اٹھا۔ اس کے چہرے پر دنیا جہان کی تمام تر شیطنیت رقص کر رہی تھی۔ اس نے صرف ایک قہقہہ نہ لگا یا بلکہ وہ اپنی انتہائی مکروہ آواز میں ہنستا ہی چلا گیا ۔ اور پھر بڑی مشکل سے اپنی ہنسی کو روکتے ہوئے کہنے لگا۔

’’واہ مارتھا بیگم ! تم کیا سمجھتی ہو کہ میں تمہاری نک چڑھی بیٹی کو پالکی میں بٹھا کر لے جاؤں گایا اس کے راستوں میں پھول بچھاؤں گا۔ مارتھا بیگم ! تم سوچ بھی نہیں سکتیں کہ ابوجعفر کا دماغ کہا ں تک کام کرتا ہے۔ اب سنو! میں تمہاری بیٹی کو رات کی اس تاریکی میں اغواء کرنے کے لیے کیوں آیا ہوں؟۔

مارتھا ! تم قاسم بن ہشام اور بہت سے دیگر لوگوں کی نظروں میں آچکی ہو ۔ اور یوں تم میرے لیے ایک کمزوری بن چکی ہو۔ میں جانتا ہوں کہ تم ایک کمزور عورت ہو۔ قاسم بن ہشام کی نشاندہی پر سلطان نے تمہیں گرفتار کروایا تو تم خفیہ محکمے کے جلادوں کا تشدد برداشت نہیں کرپاؤ گی۔ مجھے یقین ہے کہ البانوی شہزادوں کے قتل سے لے کر اب تک کی تمام داستان اگل دو گی۔ تم جانتی ہو کہ میں اپنے خلاف کوئی ثبوت نہیں چھوڑتا ..اب وقت آگیا ہے کہ تمہیں تمہاری خدمات کا صلہ دے دیا جائے۔‘‘

ابوجعفر کی بات نے یکلخت مارتھا کا خون نچوڑ لیا۔ اب وہ سمجھ چکی تھی کہ آدھی رات کے وقت ابوجعفر اس کے گھر کیوں داخل ہواتھا ۔ ابوجعفر بات مکمل کرکے ایک بار پھر اپنے مکروہ انداز میں ہنسا ۔ اس کی تلوار نیام میں تھی اور وہ قہقہہ ابھی اس کے حلق میں تھا کہ انتہائی غیر متوقع طور پر مارسی نے اپنی تلوار سے اس پر حملہ کردیا۔ ابوجعفر اگر یک دم جھکائی کھاکر ایک طرف نہ ہٹ گیا ہوتا تو مارسی کی تلوار اس کے کندھے کو چیرتی ہوئی اس کے دل میں اتر جاتی ۔ لیکن اب نہ صرف اس نے خود کو بچالیاتھا بلکہ بیک وقت اپنی تلوار بھی بے نیام کرلی تھی اور اپنے دونوں ساتھیوں کو بھی آواز دے کر اندر بلالیا تھا ۔جاری ہے


 

No comments:

Post a Comment