اللہ والوں کے قصّے..<>. قسط نمبر 16.

ایک دفعہ حضرت اما م احمد جنبلؒ نے اپنا طباق بنئیے کے یہاں گروی رکھوا دی اورجب آپ اُس طباق کو چھڑوانے پہنچے تو بنیئے نے دو طباق آپ کے سامنے رکھتے ہو ئے کہا۔’’ان میں سے جو طباق آپ کا ہو۔وہ لے جائیے۔کیونکہ میرے ذہن میں نہیں رہا۔کہ آپ کا طباق ان میں سے کون سا ہے‘‘۔

یہ سُن کر آپ خاموشی سے بغیر طباق لیے واپس آگئے اور یہ صرف تقویٰ کی وجہ تھی کہ بنئیے کو طباق کے بارے میں یاد کیوں نہیں رہا کہ ان میں سے کون سا میرا تھا۔

حضرت محمد بن اسلم طوسیؒ نے محض اس جُرم میں دو سال تک قید و مشقت کی مصیبتیں جھیلیں کہ آ پ نے قرآن پاک کو مخلوق ماننے سے انکار کر دیا تھا۔جس وقت آپؒ کو رہا کیا گیااس وقت عبداﷲ بن ظاہر حاکم نیشاپور وہیں مقیم تھا اور تمام لوگ سلامی کی غرض سے حاضر ہو رہے تھے اور جب اہل دربار سے حاکم نے پوچھا۔’’اب کوئی نامی گرامی شخصیت تو ایسی باقی نہیں رہی جو سلامی کیلئے نہ آئی ہو

اس پر لوگوں نے جواب دیا ۔’’دو ہستیاں احمد حربؒ اور محمد بن اسلمؒ حاضر دربار نہیں ہوئے کیونکہ یہ دونوں بڑے عالم و عابد ہیں اور بادشاہِ کے سلام کیلئے کبھی حاضر نہیں ہوتے۔‘‘

چنانچہ اس پر حاکم نے کہا۔’’ہم خود ان کو سلام کرنے جائیں گے‘‘۔

جب حاکم احمدبن اسلمؒ کی چوکھٹ پر پہنچا تو یوم جمعہ کی وجہ سے انہوں نے اسے اندر آنے کی اجازت نہ دی لیکن عبداﷲ بن ظاہر بھی نماز جمعہ کے وقت تک گھوڑے پر سوار آپ کا انتظار کرتا رہا اور جب آپ مکان سے برآمدہوئے تو گھوڑے سے اُتر کر اس نے قدمبوسی کرتے ہوئے عرض کیا

اے اﷲ!میں چونکہ بہت برا انسان ہوں،اس لیے تیرا محبوب مجھ سے دشمنی رکھتا ہے۔لیکن وہ چونکہ تیرا محبوب ہے اس لیے میں بھی اس کو محبوب رکھتا ہوں اور اس کے طفیل میں میری مغفرت فرما دے۔

حضرت ابو وراق ؒ حضرت خضرؑ کے شوق دیدار میں روزانہ جنگل میں پہنچ جاتے تھے اور آمد ورفت کے دوران تلاوت کرتے رہتے۔چنانچہ جب آپؒ ایک مرتبہ جنگل میں پہنچے تو ایک اور صاحب بھی آپؒ کے ہمراہ ہو لیے۔دونوں راستہ بھر گفتگو کرتے رہے لیکن واپسی کے بعد ان صاحب نے فرمایا کہ میں خضؑ رہوں۔جن سے ملا قات کیلئے تم بے چین تھے۔ لیکن آج تم نے میری معیّت کی وجہ سے تلاوت بھی ملتوی کر دی اور جب صحبت خضرؑ تمہیں خدا سے فراموش کر سکتی ہے تو دوسروں کی معیّت ذکر الہٰی سے کیو ں دور نہ کر دے گی۔لہذا سب سے بہتر شے گوشہ نشیبی ہے۔یہ کہہ کر وہ غائب ہو گئے

کم عمری ہی میں حضرت شیخ محمد علی حکیم ترمذیؒ نے دو طلباء کو اپنے ہمراہ غیر ملک میں حصول تعلیم کیلئے آمادہ کرلیا لیکن آپ کو والدہ کے بڑھاپے کی وجہ سے اپنا ارادہ منسوخ کرنا پڑا لیکن جن طلباء کو آپ نے آمادہ کیا تھا وہ بغرضِ تعلیم روانہ ہو گئے۔

آپ اس واقعہ سے اس حد تک غمگین ہو ئے کہ قبرستان میں جا کر گر یہ وزاری کرتے تھے اور کہتے تھے کہ حرب میرے دونوں ساتھی حصول علم کے بعد واپس آئیں گے تو مجھے ان کے سامنے ندامت ہُوا کرے گی۔

ایک دن حضرت خضر ؑ نے آکرفرمایا کہ روزانہ اس جگہ آکر مجھ سے تعلیم حاصل کر لیا کرو پھر ان شاء اﷲ کبھی کسی کے پیچھے نہ رہو گے

اس کے بعد آپؒ نے مسلسل تین سال تک تعلیم حاصل کرکے بہت بلند مقام حاصل کیا اور جس وقت آپؒ کو یہ معلوم ہُوا کہ میرے استاد حضرت خضرؑ ہیں تو آپ کو مکمل یقین ہو گیا کہ ایسا صاحبِ مرتبت اُستاد مجھے صرف والدہ کی خدمت کرنے کی وجہ سے ملا ہے


 

No comments:

Post a Comment