ابھی وہ کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ اسے عقب میں دروازہ کھلنے کی آواز سنائی دی۔ یہ طاہر تھا ۔ ا سکا بھائی۔ جو بہرام خان کی گونجدار آواز سن کر باہر نکلا تھا ۔ طاہر نے کسی ممکنہ خطرے کے پیشِ نظر نکلتے وقت برہنہ شمشیر بھی اٹھالی تھی۔ جونہی وہ دروازے سے باہر نکلا۔ اس کی نظر تیغ بکف بہرام خان پر پڑی۔ ابھی وہ کچھ سمجھ ہی نہ پایا تھا کہ بہرام خان نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا:۔
’’اس شخص کو غیر مسلح کرکے گرفتار کرلو۔‘‘
سپاہی آگے بڑھے ۔ لیکن طاہر ذرا بھی نہ جھجھکا ۔ وہ وادیء حجاز کا مانا ہوا شمشیر زن تھا ۔ اور سلطنتِ عثمانیہ کی سب سے بڑی تربیت گاہ میں تیغ زنی کا استاد بھی تھا ۔ اس نے سپاہیوں کو آڑے ہاتھوں لیا۔ حالانکہ وہ بہرام خان کو ذاتی طور پر جانتا تھا ، چاہیے تو یہ تھا کہ وہ خفیہ محکمے کے سربراہ بہرام خان سے حقیقتِ حال معلوم کرتا ۔ لیکن وہ بہرام خان کے تیور دیکھ چکاتھا ۔ اسے توقع نہ تھی کہ بہرام خان سیدھی طرح سے کوئی بات سنے گا۔ چنانچہ اس نے بیک وقت خفیہ محکمے کے سپاہیوں پر حملہ کردیا ۔ طاہر کی تلوار سے تلواریں ٹکرائیں اور جنگی دھن بجنے لگی۔ یہ چھن چھن کی چھنکار تھی۔ طاہر نے چاروں سپاہیوں کو اپنی ایک تلوار کے زور پر تگنی کا ناچ نچا دیا۔ اب چاروں سپاہی محسوس کر نے لگے کہ وہ اس نوجوان سے شمشیر زنی میں کبھی بھی نہیں جیت سکتے ..........بہرام قاسم کو اپنی تلوار کی زد میں لیے کھڑا تھا ۔ اس کی آنکھوں میں حیرت بھی تھی اور غصہ بھی۔ اس کے چاروں بہادر سپاہی طاہر بن ہشام کے سامنے کٹھ پتلی کی طرح ناچ رہے تھے۔ بالآخر اس نے گرج کر کہا
طاہر بن ہشام ! میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ تلوار پھینک دو ۔ تمہارے بھائی کی گرفتاری کا حکم براہ راست شہزادہ علاؤالدین نے جاری کیا ہے۔ تم نے اگر تلوارنہ پھینکی تو میں شاہی کام میں مداخلت کے جرم میں تمہیں قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کروں گا۔‘‘
طاہر بن ہشام کی تلوار جادو کی چھڑی کی طرح رقص کر ہی تھی۔ وہ خود آندھی اور طوفان بن کر چاروں سپاہیوں کو بھگا بھگا کر چور چور کر چکاتھا ۔ اس نے تلوار چلاتے ہوئے کسی سرفروش کی طرح مسکرا کر کہا
بہرام خان! تم اگر چاہتے ہو کہ میں تلوار پھینک دوں تو تم خود پہلے میرے بھائی کے سر سے تلوار ہٹاؤ۔ ورنہ میں تمہارے ان ہرکاروں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ دوں گا۔‘‘
بہرام خان کو یہ توقع نہ تھی کہ طاہر شہزادے کا نام سن کر بھی لڑنے سے باز نہیں آئے گا۔ اس نے تھوڑی دیر کے لیے کچھ سوچا اور پھر قاسم کے سر سے تلوار ہٹا لی۔ قاسم کے لیے یہ بہترین موقع تھا ۔ وہ کسی چھلاوے کی طرح اپنی جگہ سے اچھلا اور بجلی کی تیزی سے ایک جانب دوڑتا چلا گیا۔ بہرام کے لیے یہ انتہائی غیر متوقع صورتحال تھی۔ اس نے قاسم کو ہاتھ سے نکلتے دیکھا تو سب کچھ بھول کر اس کے پیچھے لپکا۔ چاروں سپاہی جو طاہر کے ساتھ مصروفِ پیکار تھے۔ بہرام کے بھاگتے ہی فوراً پیچھے ہٹ گئے۔ وہ تو پہلے ہی دعائیں کر رہے تھے کہ کسی طرح اس مصیبت سے چھٹکارا مل جائے۔ طاہر کی شمشیر ان پر عذاب الہٰی کی طرح برس رہی تھی۔ انہیں جیسے ہی اس عذاب سے بچنے کا موقع ملا وہ پیچھے ہٹے اور دم دبا کر بھاگ کھڑے ہوئے ۔ اب بظاہر بہرام اور چاروں سپاہی قاسم کا تعاقب کر رہے تھے ۔ لیکن در حقیقت وہ قاسم کو کھوچکے تھے
عاہدۂ زیجیڈین‘‘
قاسم بہرام خان اور اس کے ساتھیوں کے سامنے ایسے غائب ہوا ۔ جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ لیکن در حقیقت وہ صرف پہلی بغلی گلی میں مڑتے ہی پاس کے ایک مکان کی ڈیوڑھی میں داخل ہوچکا تھا ۔جبکہ بہرام اور اس کے ساتھی یہ سمجھے تھے کہ وہ دور نکل چکا ہے۔چنانچہ وہ ایک جانب منہ اٹھائے بھاگتے چلے گئے۔جونہی قاسم نے بہرام اور اس کے ساتھیوں کو آنکھ سے اوجھل ہوتے دیکھا۔ وہ بجلی کی تیزی سے واپس لپکا اور چند لمحے بعد وہ اپنے گھر کے سامنے تھا ۔ یہاں اس کا بھائی ابھی تک شمشیر بکف ، حیران و پریشان کھڑا تھا ۔ قاسم نے انتہائی تیز لہجے میں طاہر سے کہا
’بھائی جان ! غزالہ کو اغواء کر لیا گیا ہے۔ اس کی ماں اور ان کے دو ملازم جن میں ایک اکبر تھا قتل کر دئیے گئے ہیں۔ جبکہ بہرام نے اس واردات کا سارا شک مجھ پر ظاہر کرکے شہزادہ علاؤالدین سے ایک بار پھر میری گرفتاری کا اجازت نامہ حاصل کرلیا ہے۔میں فی الفور غزالہ کو بازیاب کرنا چاہتا ہوں ۔ جبکہ شہزادہ اور بہرام مجھے ایسا نہیں کرنے دیں گے۔ چنانچہ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں ابھی اور اسی وقت ازخود البانیا کے راستے پر غزالہ کی بازیابی کے لیے جاؤں گا ۔ کیونکہ مجھے یقین ہے کہ غزالہ کو ابوجعفر کے آدمیوں نے سکندر بیگ کے لیے اغواء کیا ہے۔ واردات نصف شب کی ہے ۔ اور اغواء کنندگان ابھی زیادہ دو رنہیں گئے ہوں گے
قاسم نے اپنی بات شروع کی تھی ۔ تو اس وقت وہ گھر کے دروازے سے باہر گلی میں تھا ۔ لیکن جب اس نے بات ختم کی تو اس وقت وہ انتہائی عجلت سے چلتا ہوا گھر کے اصطبل تک پہنچ چکا تھا ۔ طاہر اس کی بات سنتا اور اس کے ساتھ چلتا ہوا اصطبل تک چلا آیا ۔ اس نے قاسم کو گھوڑے کی زین درست کرتے ہوئے دیکھا تو کہا:۔
میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گا۔‘‘
’’نہیں ! آپ میرے ساتھ نہیں چلیں گے۔ ادرنہ میں ہر لمحہ بغاوت کا خطرہ ہے۔ آپ ابھی اور اسی وقت شہزادہ محمد اور ملکہ سروین سے مل کر ابو جعفر کی گرفتاری کا حکم نامہ حاصل کیجیے۔ مجھے سو فیصد یقین ہے کہ مارتھا کو ابوجعفر کے آدمیوں نے قتل کیا ہے
قاسم گھوڑا تیار کرچکا تھا ۔ اور گھر میں کسی سے ملے بغیر باہر نکل آیا تھا ۔ طاہر اب بھی اس کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا باہر گلی میں آچکا تھا ۔ طاہر نے اچانک چونک کر قاسم کی زین سے بندھے اسلحہ کو دیکھا اور کہا:۔
’’ارے ! تمہارے ترکش میں تو بہت کم تیر ہیں..........ٹھہرو ! میں ترکش بھر دیتا ہوں۔‘‘
’’نہیں ! اب میں مزید وقت ضائع نہیں کرسکتا ۔ بہرام ابھی چند لمحوں میں پھر واپس آنے والا ہے۔ آپ کوشش کیجیے ! کہ اس کے الٹے سیدھے سوالات کا جواب دینے کی بجائے جلد سے جلد قصرِ سلطانی کی جانب چل پڑیے۔‘‘
طاہر نے وقت کی نزاکت کا احساس کیا اور زور زور سے اثبات میں سر ہلانے لگا۔
اگلے لمحے قاسم اپنے گھوڑے کو ایڑھ لگا چکا تھا ۔اس نے اپنے چہرے کو عمامے کے پلو سے چھپا لیا تھا ۔ اور اس کا گھوڑا ہوا سے باتیں کرتا ہوا شہر سے باہر کی جانب سرپٹ دوڑتا چلا جارہا تھا ۔
اسے بہت تیزی کے ساتھ بہت زیادہ سفر کرنا تھا ۔ اس کے اندازے کے مطابق مارسی کے اغواء کنندگان ادرنہ سے صبح کاذب کے وقت روانہ ہوئے تھے ۔ وہ جلد سے جلد پچاس کوس سے زیادہ سفر طے کرنا چاہتا تھا ۔ وہ یہ سوچ رہا تھا کہ اغواء کنندگان کم و بیش پچاس کو س سفر طے کر نے کے بعد تھک کر سست ہوچکے ہوں گے ۔ اس کا طاقتور گھوڑا ادرنہ کے مضافات کی دھول اڑاتا ہوا البانیہ کی جانب اڑا چلا جارہا تھا۔
ادھر طاہر قصرِ سلطانی میں پہنچا ۔ اس نے شہزادہ محمد اور ملکہ سروین کو مارتھا کے قتل اور مارسی کے اغواء کے متعلق بتایا ۔ ملکہ کیلیے یہ ایک درد ناک خبر تھی۔ وہ مارسی کو بہت عزیز رکھتی اور مارتھا کے بارے میں بھی کسی حد تک جانتی تھی۔ جب طاہر نے ملکہ سے ابوجعفر کی فوری گرفتاری .........کی بات کی ۔ تو ملکہ بری طرح چونک اٹھی۔ اور اس نے فی الفور کہا۔
’’بے شک اس شخص کو ابھی اور اسی وقت گرفتار کرلیا جائے۔‘‘
لیکن شہزادہ محمد نے اسے بتایا .........کہ ابوجعفر شہزادہ علاؤالدین کا منظورِ نظر ہے اور شہزادہ علاؤ الدین ابوجعفر کی بجائے قاسم بن ہشام کی گرفتاری کا حکم دے چکا ہے۔ شہزادہ محمد نے اسے یہ بھی بتایا کہ قاسم مارسی کی بازیابی کے لیے بہرام خان کے چنگل سے جان چھڑا کر البانیہ کے راستے پر روانہ ہوچکا ہے...........اب صورتحال کی نزاکت ملکہ کی سمجھ میں آئی اور اس نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا:۔
’’ٹھیک ہے!..........تو پھر ہمیں شہزادہ علاؤ الدین سے بات کر نی ہوگی........چلیے آپ دونوں بھی میرے ہمراہ چلیے .........میں ابھی شہزادہ سے بات کرتی ہوں۔‘‘
طاہر اور شہزادہ محمد ملکہ کے ہمراہ شہزادہ علاؤالدین کے کمرۂ خاص میں آئے۔ ملکہ سب سے آگے آگے چل رہی تھی۔ اس کی دو خادمائیں اس کے دائیں بائیں تھیں۔ اور طاہر شہزادہ محمد کے ہمراہ ملکہ کے عقب میں چل رہا تھا ۔ جونہی ملکہ علاؤالدین کے کمرۂ خاص میں داخل ہوئی۔ یہ دیکھ کر چونک اٹھی کہ شہزادہ صاحبِ فراش تھا ۔ وہ بستر پر لیٹا ہوا تھا ۔ اور اس کے نزدیک شہر کا مشہور طبیب سلیم پاشا موجود تھا ۔ شہزادے نے ملکہ کو دیکھا تو اپنے باپ کی اس سربیائی بیوی کے استقبال کے لیے اٹھنے کی کوشش کی۔ اس نے کہنی بستر پر ٹکائی اور اٹھ کر بیٹھ گیا ۔ لیکن اگلے لمحے اسے شدید کھانسی ہونے لگی۔ اب شہزادہ محمد اور ملکہ دونوں پریشان ہوگئے۔ انہیں تو معلوم ہی نہ تھا کہ علاؤ الدین اس قدر بیمار ہے۔ شہزادہ محمد چند دن قبل اپنے بھائی کی عیادت کے لیے آیا تھا ۔ لیکن اس وقت تو علاؤ الدین اچھا خاصا چلتا پھرتا تھا ۔ اور اسے صرف بخار کی تکلیف تھی۔ لیکن آج بھائی کو یوں صاحبِ فراش دیکھ کر محمد کا کلیجہ کانپ گیا ۔ شہزادہ علاؤالدین سلطنت کا ولی عہد تھا ۔ سلطان مراد خان ثانی کا بڑا بیٹا ہونے کے ناطے سلطان کا لاڈلا اور منظورِ نظر تھا ۔ شہزادہ علاؤالدین سے سلطان کو بے حد محبت تھی۔ محمد نے سوچا کہ اگر اس کے باپ کو اپنے لاڈلے بیٹے کی اس قدر شدید بیماری کا پتہ چلے تو وہ دیوانہ ہوجائے۔
’’بھائی جان! آپ اس قدر بیماری ہیں...........اور آپ نے ایک پیغام تک نہیں بھیجا۔‘‘
محمد بھائی کا جواب سنے بغیر طبیب کی طرف مڑا اور بولا:۔
’’طبیب ! یہ آپ کی ذمہ داری تھی۔ بھائی جان تو علیل ہیں۔ آپ ہی ان کے معالج ہیں۔ آپ کو چاہیے تھا کہ آپ ہمیں اطلاع کرتے ۔‘‘
ملکہ اپنی شاہانہ شان و شوکت کو بھول کر شہزادہ علاؤالدین کے پاس تخت پوش پر بیٹھ گئی۔ اور شہزادے کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا:۔
’’علاؤالدین ! کیا آپ ہم سے ناراض ہیں۔ آپ اس قدر علیل ہیں ۔ اور آپ نے کسی کو بتایا تک نہیں۔‘‘
’’نہیں ملکہء معظمہ! ایسی بات نہیں۔ ہم کل تک بالکل ٹھیک تھے۔ بس ! آج صبح ہی اچانک صحت زیادہ گر گئی ہے۔ بخار اور کمزوری تو تھی ۔ لیکن آج صبح ایک بری خبر نے ہماری صحت پر بہت زیادہ منفی اثر ڈالا ہے۔‘‘
’’مزاجِ دشمناں ! .........خدا نہ کرے آپ کے نزدیک کوئی بری خبر آئے.......ایسی کون سی خبر ہے۔ جس نے آپ کو اس قدر مضمحل کردیا ۔‘‘
ملکہ نے انتہائی محبت سے علاؤ الدین کا ہاتھ دباتے ہوئے پوچھا ، تو علاؤالدین نے کہا:۔
’’ دراصل ہم سے چند دن پہلے یہ غلطی ہوئی کہ ہم نے آپ کے بہت زیادہ اصرارپر سلطنت کے ایک خطرناک دشمن کو آزاد کردیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم نے اسے بری خبر کا بہت زیادہ اثر لیا ہے۔ ہم نے آپ کے کہنے پر قاسم بن ہشام کو رہا تو کر دیا تھا ۔ لیکن اس نے گزشتہ شب ہماری سلطنت کی دیرینہ مہمان مارتھا بیگم کا قتل کر کے اس کی نوجوان بیٹی کو اغواء کر لیا ہے۔........اسی خبر نے ہمیں.....ہماری غلطی کا اس قدر شدید احساس دلایا کہ ہم صاحبِ فراش ہوگئے ۔ ہم نے بہرام خان کو قاسم بن ہشام کی زندہ یا مردہ گرفتاری کا حکم دے کر روانہ کردیا ہے۔ آپ فکر مت کیجیے۔ یہ نوجوان گرفتار ہوگیا تو ہماری صحت خود بخود ٹھیک ہوجائے گی۔‘‘
کمرے میں موجود تمام افراد شہزادہ علاؤالدین کی بات سے اپنی اپنی جگہ چونک کر رہ گئے۔ طبیب سلیم پاشا کے بدن میں سنسنی کی لہر دوڑ گئی ۔ شہزادہ محمد اور ملکہ اس لیے چونکے کہ وہ جس بات کے لیے آئے تھے ۔ یہاں اس کا ذکر کرنے کی بھی گنجائش نہ تھی۔ اور طاہر شہزادے کے ارادے جان کر کانپ گیا ۔ ملکہ سوچنے لگی کہ اب کیا کیا جائے۔ بیمار شہزادہ جو سلطنت کا وارث تھا ۔ قاسم کے حق میں کوئی بات سننے کے لیے تیار نہ ہوگا۔ ایسے عالم میں ابوجعفر کی گرفتاری کا پروانہ حاصل کرنا کیونکہ ممکن ہوسکتا تھا ۔ وہ دل ہی دل میں دعا کرنے لگی کہ کاش! آج اچانک سلطان یا اس کا کوئی پیغام ہی آجائے۔ شہزادہ بیمار تھا ۔ اور ملکہ اس کو پریشان نہ کرنا چاہتی تھی۔ یہی حال محمد کا تھا ۔ لیکن طاہر اپنی جگہ کھڑا یہ سوچ سوچ کر کانپ رہا تھا کہ اس کا بھائی شہزادے کے عتاب کا شکار ہونے والا ہے۔ وہ اس دن کو کوس رہا تھا ۔ جب سلطان نے قاسم کو شاہی سراغ رساں مقرر کر کے ایک خطرناک کام پر لگادیا تھا ۔ سب لوگ اپنی اپنی جگہ یہی کچھ سوچ رہے تھے کہ دربان نے کمرۂ خاص میں داخل ہونے کی اجازت چاہی۔ شہزادہ علاؤالدین نے پرتجسس نظروں سے دربان کو دیکھا اور اسے اندر بلا لیا۔
دربان نے بتایا کہ خفیہ محکمے کا سربراہ بہرام خان ملاقات کی اجازت چاہتا ہے۔شہزادہ بہرام کا نام سنتے ہی ایک جھٹکے سے اٹھ کر بیٹھ گیا ۔ اور اس نے بہرام خان کو فوراً حاضر ہونے کی اجازت دے دی۔ بہرام خان کمرے میں داخل ہوا تو سب لوگ اس کی حالت دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے۔ بہرام خان کے بال گردو غبارسے اٹے ہوئے تھے۔ اور اس کے چہرے پر حد سے زیادہ یتیمی برس رہی تھی۔ شہزادے نے کسی قدر کرخت لہجے میں پوچھا :۔
’’بہرام خان ! معلوم ہوتا ہے تم سلطنت کے غدار کو نہیں لاسکے۔‘‘
لیکن بہرام شہزادے کو کوئی جواب دینے کی بجائے یک لخت پھٹی پھٹی آنکھوں کے ساتھ طاہر کو دیکھنے لگا۔ اور پھر کسی بچے کی طرح آدابِ شاہی کی پرواہ کیے بغیر چیخ کرکہنے لگا:۔
’’یہی ہے..........یہی ہے شہزادہ حضور ! یہی وہ شخص جس نے قاسم بن ہشام کو فرار ہونے کا موقع دیا۔مجھے اس کو گرفتار کرنے کا حکم دیجیے شہزادہ حضور! اس شخص نے عین اس وقت جب میں قاسم بن ہشام کے ہاتھ میں زنجیر ڈالنے والا تھا ۔ میرے سپاہیوں پر حملہ کر کے ساری بساط کو الٹ دیا ۔شہزادہ حضور ! یہ قاسم بن ہشام کا بھائی ہے۔ اور انتہائی خطرناک تلوار باز ہے۔ یقیناً یہ بھی اپنے بھائی کی سازش میں شریک ہوگا۔‘‘
طاہر تو کیا یہ صورتحال شہزادہ محمد اور ملکہ حتیٰ کہ سلیم پاشا کے لیے بھی غیر متوقع تھی۔ ملکہ اور شہزادہ محمد کی امیدوں پر اوس پڑنے لگی۔ طاہر بری طرح سٹپٹا گیا تھا ۔ اس نے ایک لمحے کے لیے بھی نہ سوچا تھا کہ یک دم ایسے حالات کا سامنا بھی ہوسکتا ہے۔ جبکہ شہزادہ علاؤالدین اپنی بڑی بڑی کمزور آنکھیں پوری طرح کھول کر طاہر کو گھور رہا تھا
No comments:
Post a Comment