عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا۔۔.......۔ قسط نمبر 20.

آدھی رات کے قریب خفیہ محکمے کے تربیت یافتہ سپاہیوں کا دستہ بہرام خان اور قاسم کی سرکردگی میں ابو جعفر کی رہائش گاہ کے گرد گھیرا ڈالے کھڑا تھا ۔ چند ہی لمحوں میں کارروائی شروع ہونے والی تھی۔ سب لوگ اپنے اپنے مقام پر کھڑے ہو گئے تو بہرام اور قاسم نے آگے بڑھ کر مکان کے دروازے پر دستک دی۔ یہ ایک بڑا مکان تھا ۔ دستک کی آواز رات کے سناٹے میں دور تک گونجتی چلی گئی۔ بہرام خان کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ بہرام خان یہ ماننے کے لیے تیار نہیں تھا کہ ابوجعفر قیصر کا جاسوس ہے۔

یہ دراصل وسطی کمرہ تھا ۔ اس کے عقب میں یقیناًمکان کا باقی حصہ ہوسکتا تھا۔ کیونکہ کمرے کے اندر کی دیوار میں موجود دروازہ اسی جانب کھلتا تھا .یہ دروازہ کھلا ہواتھا ۔ غالباً چوکیدار ابھی ابھی اسی راستے سے گزرا تھا ۔ قاسم نے کسی قدر احتیاط کے سا تھ اس درواذے کو پار کرنا چاہا۔ لیکن دوسری طرف آہٹ پاکر ٹھٹک گیا ۔ پرلی طرف سے شاید کوئی آرہاتھا ۔ قاسم ایک دم پیچھے ہٹا اور اپنے عقب میں موجود سپاہیوں کو دیوار کیسا تھ لگ کر کھڑا ہونے کا اشارہ کیا۔ وہ خود بھی دروازے کے قریب ہی دیوار کے ساتھ چپک گیا تھا ۔ کچھ دیر بعد چلتے ہوئے قدموں کی آواز سنائی دی اور پھر کسی نے دروازے کو پرلی طرف سے دھکیلا۔ قاسم کا ہاتھ اپنی تلوار کے دستے پر مضبوطی سے جما ہواتھا 
بہرام اور اس کے سپاہی سانس روکے کھڑے تھے۔ اس کمرے میں صرف چار سپاہی ساتھ آئے تھے۔ باقی دستہ باہر ہی اپنے اپنے مقام پر متعین تھا ۔ جونہی دروازہ کھلا سب سے پہلے ابوجعفر کمرے میں داخل ہوا۔ اس نے رات کا لباس پہن رکھا تھا اور اس کی آنکھیں نیند سے لبریز تھیں۔ اس نے کمرے میں قدم رکھا اور ا گلے لمحے اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا ۔ کمرے میں چھ عدد مسلح افراد کو دیکھ کر اس کی گھگی بندھ گئی۔ لیکن آخر وہ ابوجعفر تھا ، اس نے سنبھلنے میں مطلق دیر نہ لگائی اور آن کی آن میں چہرے پر غضبناکی کو طاری کرلیا اور بے حد آتش ناک لہجے میں بہرام خان سے مخاطب ہوا

ابوجعفر بہرام خان کے خفیہ محکمے میں آنے سے پہلے بھی یہیں مقیم تھا ۔ پھر آج یکا یک وہ قیصر کا جاسوس کیسے بن گیا ۔ وہ دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ سلطان نے قاسم کو شاہی سراغ رساں بنا کر غلطی کی ہے۔ وہ خود خفیہ محکمے کا سربراہ تھا اور اپنے سے بڑا سراغ رساں کسی کو نہ سمجھتا تھا ۔ وہ قاسم کو ایک اناڑی اور جذباتی نوجوان تصور کرتا تھا ۔ یہی باتیں سوچ سوچ کر اس کے دل کی دھڑکن تیز ہورہی تھی۔ اتنے میں مکان کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔ بہرام نے چونک کر دروازے کی جانب دیکھا۔ دروازہ غالباً ابو جعفر کے غلام چوکیدار نے کھولا تھا ۔ اس نے دروازہ کھولتے ہیں کرخت لہجے میں پوچھا

’کون ہے؟...جانتے نہیں کہ آدھی رات کا وقت ہے۔ کس غرض سے آئے ہو؟

دستے کے باقی سپاہی اطراف میں تھے۔ سامنے صرف بہرام اور قاسم ہی تھے۔ قاسم نے آگے بڑھ کر چوکیدار سے بات کی۔

’’ہمیں خطیب مغرب سے ملنا ہے .ہم قونیا سے سلطان کا خاص پیغام لے کر آئے ہیں۔ ابوجعفر سے کہو سپہ سالار ریاض بیگ قونیا سے سلطان کا خصوصی پیغام لایا ہے

قاسم کی بات سن کر چوکیدار کے چھکے چھوٹ گئے۔ وہ اگلے لمحے الٹے پاؤں بھاگا۔ وہ شاید ابوجعفر کو اطلاع دینے گیا تھا ۔ قاسم نے اس مہلت سے فائدہ اٹھایا اور سپاہیوں کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کرتے ہوئے مکان میں داخل ہوگیا ۔ اب ننگی تلوار اس کے ہاتھ میں تھی۔ وہ آندھی اور طوفان کی طرح مکان کی اندرونی عمارت کی جانب بڑھ رہا تھا ۔ اس نے چوکیدار کو دیکھ لیا تھا کہ وہ کس طرف گیا ہے۔ قاسم ، بہرام خان اور دیگر سپاہیوں کے ہمراہ عمارت کی پہلی راہداری میں داخل ہوا اور راہداری کے آخری کونے میں بنے کمرے کی طرف لپکا۔ قاسم سے پہلے چوکیدار اسی کمرے میں داخل ہواتھا ۔ قاسم کمرے کے قریب پہنچا تو رک گیا ۔ اندر کسی قسم کی کوئی آہٹ سنائی نہ دے رہی تھی۔ قاسم نے کمرے کے دروازے کو تھوڑا سا دھکیلا تو اسے ایک دیوار کے ساتھ جلتی ہوئی مشعل لٹکتی ہوئی نظر آئی۔ کمرہ خالی تھا۔ وہ دبے قدموں اندر داخل ہوا اور حیرت سے چاروں جانب دیکھنے لگا

بہرام خان!...یہ کیا بدتمیزی ہے؟ تمہیں میرے گھر میں بغیر اجازت داخل ہونے کی جرات کیسے ہوئی؟‘‘

ابوجعفر کی بات سے بہرام کی ٹانگیں کانپ گئیں۔ اس نے منمناتے ہوئے لہجے میں کچھ کہنا چاہا، لیکن قاسم نے آگے بڑھ کر اپنی برہنہ شمشیر ابوجعفر کے سینے پر رکھ دی اور سانپ کی طرح پھنکارتے ہوئے کہا:۔

’’نیلی آنکھوں والے نقلی عرب اور قیصرِ قسطنطنیہ کے خطرناک جاسوس کو مسلمان سپاہیوں پر آنکھیں نکالنے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔

یہ قاسم کا ایک نفسیاتی حربہ تھا ۔ جس میں اسے بہت کم کامیابی ہوئی۔ ابوجعفر ایک منجھا ہوا جاسوس تھا ، اس کی آنکھوں میں قاسم کی بات سے صرف ایک لمحے کے لیے خوف کی جھلک نظر آئی اور پھر اگلے لمحے اس نے پوری طرح اپنے آپ پر قابو پالیااور انتہائی غصے سے کہا

’یہ کیا بکواس ہے؟ تم کس قسم کی اوٹ پٹانگ باتیں کر رہے ہو، کیا چاہتے ہوتم؟

بہرام جو خود کو ایک ماہر سراغ رساں سمجھتا تھا ، ابوجعفر کے چہرے کو غور سے دیکھ رہا تھا ۔ اس نے دل ہی دل میں کہا..قاسم بن ہشان نے ابوجعفر پر ہاتھ ڈال کر غلطی کی ہے ۔ یہ شخص وہ نہیں جو قاسم سمجھ رہاہے...قاسم کو بھی ابوجعفر کے جواب سے مایوسی ہوئی۔ لیکن اس نے کوئی پرواہ کیے بغیر اپنے ساتھ آئے سپاہیوں کو حکم دیا:۔

’’گرفتار کرلو اسے ۔اور لے جاکر خفیہ محکمے کے تہہ خانے میں پھینک دو۔‘‘

قاسم کے الفاظ مکمل ہونے کی دیر تھی کہ سپاہیوں نے آگے بڑھ کر ابوجعفر کو تلواروں کے نرغے میں لے لیا۔ ابوجعفر بظاہر خوفزدہ نہ ہونے کی اداکاری کررہا تھا ۔ لیکن درحقیقت وہ اندر سے لرز گیا تھا۔ سپاہیوں نے اس کے ہاتھ پیچھے کی طرف کرکے زنجیر پہنادی ۔ بہرام کے چہرے پر خوف کی جھلک تھی۔ جسے قاسم محسوس کیے بغیر نہ رہ سکااور اس نے بہرام کے شانے پر ہاتھ رکھ کر کہا:۔

’’بہرام خان! تمہیں پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ تم میرے ساتھ چلو۔ میں تمہارے سامنے اس سے اگلواتا ہوں کہ اس کا اصل نام کیا ہے؟ تم یہ مت سوچو کہ یہ بیس سال سے یہاں مقیم ہے۔ کیا تمہیں قیصر کے سازشی کردار اور طویل منصوبہ بندی کا علم نہیں۔ چلو میرے ساتھ !‘‘

بہرام ، قاسم کا فیصلہ سن کر کانپ گیا ۔ قاسم شہر کے ایک مذہبی پیشوا کو خفیہ محکمے کے تہہ خانے میں اذیتیں دینا چاہتاتھا ۔ یہ بات بہرام کے لیے پریشان کن تھی۔ وہ ادرنہ کے لوگوں کا مزاج جانتا تھا ۔ وہ سوچ رہا تھا کہ قاسم نے اگر خطیب مغرب سے پوچھ گچھ کی تو شہر میں ہنگامہ کھڑا ہوجائے گا۔ اس نے دل ہی دل میں فیصلہ کیا کہ قاسم کو اذیت کے خیال سے باز رکھے گا۔ یہی سوچتا ہوا وہ قاسم کے ہمراہ ابوجعفر سمیت باہر آیا۔ معاً اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی اور باہر پہنچتے ہی سپاہیوں سے کہنے لگا:۔

’’تم فی الحال ابوجعفر کو کوتوالِ شہر کے زندان میں لے جاؤ۔ تفتیش کاکام صبح ہوگا۔ اس وقت ابو جعفر کو لے کر خفیہ محکمے کی جانب جانا مناسب نہیں۔‘‘

قاسم نے کچھ کہنے کے لیے ہونٹ کھولے تو بہرام خان نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روک دیا اور کہا :۔

’’کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ۔ میں اتنے اہم شخص کو بغیر سرکاری اندراجات کے خفیہ محکمے کے تہہ خانے میں نہیں رکھ سکتا ۔ کوتوالِ شہر کے زندان میں ایک مرتبہ اس کا اندراج ہو جائے تو تم اسے اپنی ذمہ داری پر تفتیش کے لیے لے جاسکتے ہو۔‘‘

گویا بہرام نے عین وقت پر کام خراب کردیا تھا ۔ ظاہر ہے دستے کے سپاہی بہرام خان کے ماتحت تھے۔ قاسم کو ایک لمحے کے لیے ایسے لگا جیسے ہاتھ آیا ہوا شکار ہاتھ سے نکل رہاہے۔

سپاہی ، ابوجعفر کو لے کر ایک طرف چل دیے۔ خفیہ محکمے کا پورا دستہ چلا گیا تو بہرام خان نے قاسم سے کہا۔

’’ تم نے بہت بڑی غلطی کی ہے۔ اب دعا کرو کہ ابوجعفر کی گرفتاری کی خبر شہر میں نہ پھیلے۔ پرسوں جمعۃ المبارک ہے اور جمعہ کے اجتماعات میں ابوجعفر کی گرفتاری پر ہنگاموں کا خدشہ ہے۔ ایسی صورت میں ہم دونوں کے لیے بہت مشکل پیدا ہوجائے گی۔ سلطان کے بیٹے ہم پر چڑھ دوڑیں گے۔‘‘

بہرام کے منہ سے سلطان کے بیٹے کا لفظ نکلا تو پہلی مرتبہ قاسم کی توجہ شہزادہ محمد کی جانب مبذول ہوگئی۔ اسے یاد آیا کہ شہزادہ محمد نے قاسم سے دوستی کا وعدہ لیا تھا ۔ اس کے ذہن میں خیال آیا کہ وہ صبح ہوتے ہیں ابوجعفر کے سلسلے میں شہزادہ محمد سے بات کرے گا۔ یہی سوچ کر اس نے اطمینان کی سانس لی اور اپنے گھوڑے کی طرف بڑھ گیا ۔ بہرام بھی اپنے گھوڑے پر سوار ہوچکاتھا ۔ وہ کچھ دیر تک ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ پھر قاسم نے بہرام سے اجازت لی اور گھوڑے کا رخ گھر کی طرف موڑ دیا۔

آج قاسم بری طرح تھک چکا تھا ۔ اسے سارا دن اور ساری رات بہ یک وقت ذہنی ، جسمانی اور اعصابی جنگ لڑنی پڑی ۔ وہ بستر پر لیٹا تو اسے احساس ہو ا کہ اس کا بدن پھوڑے کی طرح دکھ رہا ہے۔ اس نے اپنے جسم پر کمبل تانا اور چند لمحوں بعد وہ نیند کی وادی میں اتر چکاتھا ۔

وہ دیر تک سوتا رہا۔ اس کی بھابھی اور بھائی یہ سوچ کر کہ وہ تھکا ہوا تھا ، اسے ناشتے کے وقت بھی نہ جگایا ۔ اس کا بھائی اور بھتیجے اپنے اپنے مکتب کی جانب چلے گئے اور دن پوری طرح چڑھ آیا۔

دن چڑھے اس کی آنکھ دستک پر کھلی۔ طاہر کے مکان کا بیرونی دروازہ زور زور کی دستک سے بج رہا تھا ۔ وہ آنکھیں ملتا ہوا اٹھا اور یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وقت بہت زیادہ گزر چکاہے۔ وہ بستر سے نکلا اور پیروں میں جوتے ڈال کر سیدھا بیرونی دروازے کی جانب بڑھا۔ دروازہ کھولتے ہی اس کے چودہ طبق روشن ہوگئے

سامنے ابوجعفر کھڑا تھا ۔ اس کے چہرے پر زہریلی مسکراہٹ تھی۔ اور اس کے ہمراہ چار سپاہی اور دو سرکاری گماشتے تھے۔ ابوجعفر کو دیکھتے ہی قاسم کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔

’’تم ؟؟‘‘ اس کی آنکھیں حیرت سے پھٹی جارہی تھیں۔ اسے یقین نہ آرہا تھا کہ جس ابوجعفر کو اس نے چند گھنٹے قبل کوتوالِ شہر کے زندان میں بھجوایا تھا ، و دن دہاڑے اس قدر آزادی کے ساتھ قاسم کے سامنے موجود تھا ۔ ابوجعفر نے قاسم کو ہکا بکا دیکھا اور اپنی سانپ جیسی آنکھوں کو چمکاتے ہوئے زہر خند لہجے میں بولا ۔

’’قاسم بن ہشام ! میں بیس سال سے ادرنہ میں انتہائی عزت کے ساتھ رہ رہا ہوں۔جبکہ تمہیں ابھی یہاں آئے گنتی کے چند دن گزرے ہیں........تم نے میرے ساتھ جو کچھ کیا اس کا حساب دینے کا وقت بہت جلد آنیو الا ہے۔ اس وقت میرے ہمراہ موجود سرکاری گماشتے تمہیں شہزادہ علاؤلدین کے حضور پیش کرنے کے لیے آئے ہیں۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ شہزادہ علاؤالدین کے خصوصی حکم سے مجھے رہا کیا گیا ہے۔‘‘

ابو جعفر کی بات سے قاسم کے تن بدن میں غصے کی آگ دوڑ گئی۔ اس نے ابوجعفر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آتش ناک لہجے میں کہا:۔

’’ابوجعفر ! تم میر گرفت سے بچ نہیں سکتے ۔ تمہارا ہر کھیل میری نظروں کے سامنے ہے۔ میں شہزادہ علاؤالدین کے سامنے تمہارے چہرے کا نقاب اتاردوں گا۔ اور یاد رکھنا ! اب جب میں تمہیں گرفتار کروں گا تو تمہیں میرے غضب سے بچانے والا کوئی نہ ہوگا۔‘‘

ابوجعفر ، قاسم کی بات پر قہقہہ مارکر ہنس دیا۔ اس کے چہرے پر شیطنیت صاف دکھائی دیتی تھی۔ ابوجعفر نے زہریلے لہجے میں کہا:۔

’’اب تم مجھے گرفتار نہیں کرسکتے ۔ تمہارے پاس کوئی ثبوت نہیں جسے شاہی دربار میں پیش کرسکو۔ میں نے تمہارے بارے میں شہزادے کو سب کچھ بتادیا ہے۔ اب تم ینی چری کے ایک جانباز کماندار اسلم خان کے قتل کے کیس میں خود جیل جاؤ گے۔‘‘

ابو جعفر کا مکروہ قہقہہ پھر فضا میں گونجا۔ قاسم کے لیے ابوجعفر کا اندزِ گفتگو برداشت سے باہر ہورہا تھا ۔ لیکن اس نے دماغ کو ٹھنڈا رکھنے کی کوشش کی اور ایک سرکاری گماشتے کی طرف متوجہ ہوا۔

’’جی فرمائیے! آپ لوگ کس مقصد سے آئے ہیں؟‘‘ قاسم کے لہجہ میں ہلکا سا طنز بھی تھا ۔سرکاری گماشتہ جو ایک خوش شکل نوجوان تھا کسی قدر سخت لہجے میں بولا۔

’’ہم آپ کو اپنے ہمراہ لے جانے کے لیے آئے ہیں.....ہم شاہی محافظ دستے کے سپاہی ہیں اور ہمیں شہزادہ علاؤالدین بن سلطان مراد خانی ثانی نے بھیجا ہے۔‘‘

قاسم ان صورتحال کے لیے تیار تھا ۔ اس نے نوجوان سے چند لمحوں کے لیے گھر تک جانے کی اجازت لی اورا ندر چلا گیا ۔ اس کی بھابھی ، ماں اور بوڑھے باپ کو کچھ خبر نہ تھی کہ باہر کیا ہورہاہے۔ قاسم کچھ بتائے بغیر گھر میں ضروری معالات سے فارغ ہوا،ا ور اپنی بھابھی کو یہ بتاکر کہ وہ قصرِ سلطانی کی طرف جارہا ہے، باہر آگیا۔

شہزادہ علاؤ الدین کے ساتھ یہ قاسم کی پہلی ملاقات تھی۔ وہ کسی قدر بے پرواہی سے شہزادے کے سامنے جاکر کھڑا ہوا تو شہزادے نے انتہائی غصے سے قاسم کو مخاطب کیا۔

’’سنا ہے تم کو سلطانِ معظم نے شاہی سراغ رساں مقرر کیا ہے ۔ لگتا ہے سلطانِ معظم بوڑھے ہوگئے ہیں۔ ادرنہ میں کون سی قیامت آنے والی تھی کہ شاہی سراغ رساں مقرر کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ تم نے ہمارے معزز مشیرِ سلطنت کو حراست میں لینے کی کوشش کرکے ہماری توہین کی ہے۔ ہم سلطانِ معظم سے تمہاری گستاخی کی شکایت کریں گے۔ جب تک سلطانِ معظم قونیا سے واپس لوٹتے ہیں تب تک ہم تمہیں نظر بند کرتے ہیں۔تمہاری بے باکی اور بیوقوفی کی سزا سلطانِ معظم خود آکر تمہیں دیں گے۔‘‘

شہزادے کی بات سن کر قاسم کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ ابوجعفر نے سچ کہا تھا ۔ کھیل کی بساط با لکل الٹ چکی تھی۔ شہزادے کا لب و لہجہ بتارہاتھا کہ وہ قاسم کی کوئی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ لیکن پھر بھی قاسم نے جرأت کرکے کہا۔

’’شہزادہ حضور ! آپ مجھے نظر بند کرنے میں جلدی نہ کریں...پہلے..

شہزادے نے قاسم کی بات درمیان میں کاٹ دی۔

’’خاموش! کچھ بولنے کی ضرورت نہیں ۔ تمہیں اگر سلطانِ معظم نے عزت نہ بخشی ہوتی تو ہم ابھی اور اسی وقت تمہارا سر قلم کروادیتے۔‘‘

اب قاسم کے لیے بولنے کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ شہزادے کے دربان ننگی تلواریں لیے حکم کے منتظر کھڑے تھے۔ قاسم نے مایوسی سے شہزادے کی جانب دیکھا ور بے بسی سے سر جھکا لیا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ ابوجعفر کی چال کامیاب رہی اور قاسم ، ادرنہ کو قیصر کے جاسوسوں سے نہ بچا سکا۔ شہزادے کے حکم پر دربانوں نے قاسم کو حراست میں لے لیااور شاہی محل میں موجود خصوصی زندان میں قاسم کو لے جاکر بند کر دیا۔ یہاں سلاخوں والازندان نہیں تھا ۔ یہ محض ایک وسیع کمرہ تھا جس میں دونوں طرف چار چار کھڑکیاں تھیں۔ ہر کھڑکی میں باریک لیکن مضبوط سلاخیں لگی تھیں اور باہر مسلح پہرے دار موجود تھے

 

No comments:

Post a Comment