ایک مرتبہ کسی یہودی کے مکان کے قریب حضرت مالک دینارؒ نے مکان کرایہ پر لے لیا اور آپ کے اس مکان کا حجرہ یہودی کے دروازہ سے متصل تھا۔چنانچہ یہودی نے دشمنی میں ایک ایسا نالہ بنوایا جس کے ذریعے پوری غلاظت آپ کے مکان میں ڈالتا رہتا اور آپ کی نماز کی جگہ نجس ہو جایا کرتی۔یہودی بہت عرصہ تک یہ عمل کرتا رہا لیکن آ پ نے کبھی اس سے شکایت نہیں کی۔ایک دن اس یہودی نے خود ہی آپ سے عرض کیا’’ میرے پر نالے کی وجہ سے آپ کو تو کوئی تکلیف نہیں‘
آپ نے فرمایا ’’ پر نالہ سے جو غلاظت گرتی ہے اس کو جھاڑو سے روزانہ دھو ڈالتا ہوں اس لیے مجھ کو کوئی تکلیف نہیں
یہودی نے عرض کیا ’’ آپ کو اتنی اذیت برداشت کرنے کے بعد بھی کبھی غصہ نہیں آیا
آپ نے فرمایا ’’ جو لوگ غصے پر قابو پا لیتے ہیں ،نہ صرف ان کے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں بلکہ انہیں ثواب بھی حاصل ہوتا ہے‘‘
یہ سن کر یہودی نے عرض کیا ’’ یقیناً آپ کا مذہب بہت عمدہ ہے کیوں کہ اس میں دشمنوں کی اذیتوں پر صبر کرنے کو اچھا کیا گیا ہے۔اس لیے آج سے میں سچے دل سے اسلام قبول کرتا ہوں
حضرت عبدالقادر جیلانی ؒ کے بارے میں منقول ہے کہ آپؒ عہد رضاعت میں رمضان کے دنوں میں ماں کا دودھ پینا ترک کر دیتے تھے۔لوگوں میں مشہور ہو گیا کہ شرفا کے یہاں ایک لڑکا پیدا ہوا ہے جو ماہ رمضان میں دودھ نہیں پیتا۔
ایک مرتبہ حضرت سے لوگوں نے پوچھا ’’ آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ آپ ولی اﷲ ہیں‘‘آپ نے ارشاد فرمایا’’ میں دس برس کا تھا کہ گھر سے مکتب کو جایا تھا۔راستے میں دیکھتا کہ میرے اردگرد فرشتے چلے جا رہے ہیں۔جب میں مکتب پہنچتا تو وہ بچوں سے کہتے ’’ولی اﷲ کیلئے جگہ دو
اس دوران میں ایک دن مجھے ایک شخص نظر آیا۔جس کو میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔اس نے ایک فرشتے سے پوچھا ’’ یہ لڑکا کون ہے۔جس کی اتنی تعظیم کرتے ہو‘‘فرشتوں نے جواب دیا۔’’اولیااﷲمیں سے ایک ولی ہے جو عظیم الشان رتبے کا مالک ہوگا۔طریقت میں یہ ایک ایسی ہستی ہے جس کو بے روک ٹوک نعمتیں عطا کی جاتی ہیں۔جس کو بغیر کسی حجاب کے روحانی مراتب دئے جاتے ہیں۔اور جس کو بلا جیل و حجت تقرب حاصل ہے۔
چالیس سال کے بعد مجھے معلوم ہو کہ وہ سائل اپنے زمانے کے ابدال میں سے تھے
ایک دفعہ حضرت محمد واسع ؒ قتیتبہ بن مسلم کے ہاں ادنیٰ لباس میں تشریف لے گئے اور جب انہوں نے پوچھا ’’ آپؒ نے ادنیٰ کپڑا کیوں پہنا ہے ؟‘‘ پہلی مرتبہ آپؒ نے کوئی جواب نہ دیا۔پھر دوسری مرتبہ سوال کرنے پر فرمایا ’’ میں زہد کا مفہوم بتانا چاہتا ہوں لیکن اس لیے خاموش ہوں کہ کہیں اس میں اپنی تعریف اور حال فقر کے بیان کرنے سے کہیں اﷲ تعالیٰ سے شکو ے کا پہلو نکل آئے
حضرت حبیب عجمیؒ ابتدائی دور میں بہت امیر تھے اور اہل بصرہ کو سود پر قرض دیا کرتے تھے او جب کبھی مقروض پرتقاضا کرنے جاتے تو اس وقت تک واپس نہ ہوتے جب تک قرض وصول نہ ہو جاتا اور اگر کسی مجبوری سے قرض وصول نہ ہوتا تو اپنے وقت کے ضائع ہونے کا مقروض سے جرمانہ وصول کرتے اور اس رقم سے زندگی بسر کرتے
ایک دن آپ ؒ کسی کے ہاں وصولی کیلئے پہنچے تو اسے گھر پر نہ پایا۔اس کی بیوی نے کہا ’’ نہ تو میرا شوہر گھر پر موجود ہے اور نہ میرے پاس تمہارے دینے کیلئے کوئی چیز ہے البتہ میں نے آج ایک بھیڑ ذبح کی تھی جس کا تمام گوشت تو ختم ہوچکا ہے البتہ سری باقی رہ گئی ہے۔اگر تم چاہو تو میں تم کو وہ دے سکتی ہوں‘‘
چنانچہ آپ سری لے کر گھر پہنچے اور بیوی سے کہا ’’ یہ سری سود میں لی ہے۔اس کو پکاؤ
بیوی نے کہا ’’ گھر میں نہ لکڑی ہے اور نہ آٹا بھلا میں کھانا کس طرح تیار کروں
آپؒ نے کہا ’’ میں ان دونوں چیزوں کا بھی انتظام مقروض لوگوں سے سود لے کر کرتا ہوں‘‘ پھر سود ہی سے یہ دونوں چیزیں خرید لائے لیکن جب کھانا تیار ہو گیا تو ایک سائل نے آکر کھانے کا سوال کیا۔
آپؒ نے کہا’’ تیرے دیئے کیلئے ہمارے پاس کچھ نہیں ہے کیوں کہ اگر تجھے کچھ دے بھی دیں تو اس سے تو دولت مند نہ ہو جائے گا لیکن ہم مفلس ہو جائیں گے
سائل جب مایوس ہو کر واپس چلا گیا تو بیوی نے سالن نکالنا چاہا لیکن ہانڈی سالن کے بجائے خون سے لبریز تھی۔ اس نے شوہر کو آواز دے کرقصہ بتایا۔ یہ دیکھ کرعبرت حاصل ہوئی اور بیوی کو شاہد بنا کر کہا’’آج میں ہر برے کام سے تائب ہوتا ہوں اور یہ کہہ کر مقروض لوگوں سے اصل رقم لینے اور سود ختم کرنے کیلئے نکل کھڑے ہوئے‘
No comments:
Post a Comment