عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا۔۔.......۔ قسط نمبر 21.

اب قاسم ادرنہ کے بچاؤ کے لیے کچھ نہ کرسکتا تھا ۔ حتیٰ کہ شاہی زندان میں اس کے پاس کوئی دوسرا قیدی بھی نہ تھا جس کے ساتھ وہ زراسی بات کرلیتا۔ اسے بے حد فکر تھی کہ کسی طرح ادرنہ کو پیش آمدہ بغاوت کے خطرے سے بچایا جاسکے۔

لیکن خوش قسمتی سے ابوجعفر نے خود ہی وقتی طور پر ینی چری میں بغاوت پیدا کرنے کا خیال ترک کردیاتھا ۔ وہ انتہائی شاطر اور چال باز شخص تھا ۔ چنانچہ اس نے سوچا کہ اس وقت جب اس کا حریف قاسم، شہزادہ علاؤ الدین کے سامنے یہ کہہ دے گا کہ عنقریب ینی چری میں بغاوت اٹھنے والی ہے..اس بغاوت کا اٹھنا مناسب نہیں۔ اس طرح شہزادے کو مجھ پر شک ہوسکتا ہے۔ اس نے اپنے مخصوص طریقوں سے اپنی سازش کے تمام مہروں کو خبر کردی کہ طے شدہ بغاوت مختصر وقت کے لیے مؤخر کی جاتی ہے....وہ نہیں چاہتا تھا کہ بہرام اور شہزادہ علاؤ الدین کے سامنے قاسم نے جن خدشات کا اظہار کیا ہے وہ متوقع وقت پر ظاہر ہوں۔ چنانچہ اس نے قاسم کو جھوٹا دکھانے کے لیے اپنے مصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں تاخیر کردی۔ ادھر قاسم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ بے چین ہوتا جارہاتھا 

ئی روز گزر گئے۔ مارسی اپنی جگہ بے چین اور پریشان تھی اور قاسم کے اہل خانہ اپنی جگہ تڑپ رہے تھے۔ قاسم کا کوئی سراغ نہ ملتاتھا ۔ اس کے بھائی طاہر نے شہر کا کونہ کونہ چھان مارا۔ اس نے کوتوالِ شہر کے سپاہیوں کے ہمراہ بہت سی جگہوں کی تلاشی لی لیکن قاسم نہ ملا۔ قاسم کیسے ملتا وہ تو قصرِ سلطانی کے شاہی زندان میں قید تھا 

مارسی ہر روز اکبر کو قاسم کی تلاش میں دوڑاتی ۔ لیکن وہ شام کو مایوس لوٹ آتا۔ وہ اسے کئی بار لالہ شاہین کی یادگار بھی بھیج چکی تھی۔ اور دوتین مرتبہ اکبر، قاسم کے گھر سے بھی ہو آیا تھا ۔

ایک روز مارسی کو خیال آیا کہ ابوجعفر کے بارے میں معلوم کیا جائے۔ کیونکہ آخری ملاقات میں قاسم نے ابوجعفر کو گرفتار کرنے کامنصوبہ بتایاتھا ۔ جبکہ اکبر اب تک مارسی کو اتنا بتاچکاتھا کہ ابوجعفر شہر میں صحیح سلامت موجود ہے۔ مارسی یہ سمجھی تھی کہ ابوجعفر کو بالکل گرفتار نہیں کیا گیا ۔ اسے اس بات پر بھی حیرت تھی کہ اس دوران ابوجعفر ایک مرتبہ بھی اس کی ماں کے پاس نہ آیا تھا ۔ البتہ اس کی ماں اس عرصے میں دو ایک مرتبہ گھر سے باہر کہیں گئی تھی۔ مارسی نے ماں کو بہت ٹٹولنے کی کوشش کی لیکن مارتھا پختہ کار اور چالاک تھی۔مارسی کے کسی دام میں نہ آئی

مارسی نے اکبر کو یہ ہدایات دے کر ابوجعفر کی جانب روانہ کیا کہ وہ اس کے خادموں سے مل کر کسی طرح اس رات کے بارے میں تفصیل معلوم کرنے کی کوشش کرے جس رات قاسم ابوجعفر کے گھر پر دھاوا بولنے والاتھا ........لیکن اکبر بھی کوئی خاص خبر نہ لاسکا۔ اسی طرح کئی روز گزر گئے لیکن قاسم کی کوئی خبر نہ ملی۔ قاسم کی خبر کیسے ملتی۔ وہ تو نادان شہزادے کی قید میں تھا ۔

اور پھر ایک روز یہ خبر ملی کہ شہاب الدین پاشا کی سرکردگی میں جانے والا ترکوں کا لشکر ’’نیش‘‘ کے مقام پر ’’ہونیاڈے‘‘ کی افواج سے بری طرح شکست کھاچکاہے

واقعہ یوں تھا کہ سلطان مراد خان ثانی ایشیائے کوچک کے شہر قونیا میں ’’امیر کرمانیا‘‘ کے ساتھ برسرپیکار تھا ۔ جبکہ ادھر عثمانی لشکر شہاب الدین پاشااور محمد چلپی کی زیر قیادت ہونیاڈے کی کثیر افواج کے تیروں کی زد میں تھا ۔ عیسائی لشکر’’ دریائے ڈینوب‘‘ عبور کر کے ’’نیش‘‘ کے مقام پر عثمانی فوج کے سامنے خیمہ زن ہوا تھا ۔ ہونیاڈے کے جھنڈے تلے پوری عیسائی دنیا کے نامور سپاہی تھے۔ جبکہ شہاب الدین پاشا کے ہمراہ اسی ہزار کی تجربہ کار سپاہ تھی۔ علی الصبح دونوں لشکروں کے درمیان معرکہ کا آغاز ہوا۔ یہ 1443ء کا سال تھا ۔دوپہر تک ’’نیش‘‘ کی زمین پر گھمسان کا رن پڑا۔ محمد چلپی کی پیدل سپاہ مردانہ وار لڑرہی تھی۔ جبکہ محمد چلپی خود گھوڑے پر سوار اپنے پیادوں کو رہنمائی دے رہاتھا

دوپہر کے قریب جب رزم گاہ میں ہر طرف سر اچھل رہے تھے اور لاشیں گر رہی تھیں، اچانک اس وقت مسلمانوں کا پلہ بھاری ہونے لگاجب سالار امیر خان اپنے پانچ ہزارکے محفوظ دستے کو اچانک قریبی پہاڑی سے لے کر اترا اور اللہ اکبر کی صدائیں بلند کرتا ہوا دشمن کے میسرہ کو چیرتا چلا گیا ۔ امیر خان میسرہ کی جانب سے یلغار کرتا ہوا دشمن کے قلب تک جاپہنچا۔ اس نے پہلے ہی سو چ رکھا تھا کہ وہ دشمن کے سپہ سالار ہونیاڈے پر حملہ کرے گا۔ وہ پوری قوت سے لڑتا ہوا اور دشمن کے بہادروں کو گاجر مولی کی طرح کاٹتا ہوا ہونیاڈے کی بہت نزدیک پہنچ گیا ۔ یکلخت اس نے اپنے دائیں بائیں دیکھا تو اسے احساس ہو ا کہ وہ دشمن کی تلواروں کے درمیان بری طرح گھر چکا ہے۔ لیکن امیر خان نے گھبرانے کی بجائے اپنے بازو کی حرکت کو مزید تیز کر دیا ار ہونیاڈے کے محافظ دستہ کو چیر نے لگا۔ اچانک اس نے محسوس کیا کہ اس کا بازو شل ہوچکا ہے۔ امیر خان کو ایسا لگا کہ اس کا وقت شہادت آپہنچا ہے۔ اسی لمحے اس کے ذہن میں ایک عجیب خیال آیا اور اس نے نشانہ تاک کر پوری قوت سے اپنی تلوار نیزے کے سے انداز میں ہونیاڈے کی جانب پھینکی ۔ تلوار تیر کی طرح ہوا کو چیرتی چلی گئی اور سیدھی ہونیاڈے کی پشت میں جاکر پیوست ہوگئی۔ ہونیاڈے فوراً اپنے گھوڑے پر سے گرپڑا۔ امیر خان جونہی غیر مسلح ہوا ان گنت تلواریں ایک ساتھ اس کی جانب لپکیں اور اس کے جسم کو کئی ٹکڑوں میں کاٹ دیا ...........ادھر ہونیاڈے گھوڑے سے گر تو پڑا تھا لیکن فوراً اٹھ کر کھڑا ہوگیا تھا ۔ تلوار پھینکتے وقت امیر خان کے بازو میں زیادہ طاقت نہ تھی۔ چنانچہ تلوار کی محض نوک ہونیاڈے کی مضبوط چربی میں اتری اور جونہی ہونیاڈے نیچے گرا، تلوار خود بخود باہر نکل کر گر پڑی۔ گو کہ ہونیاڈے زخمی ہوچکا تھا ۔ لیکن وہ بڑی بہادری سے دوبارہ گھوڑے پر سوار ہونے میں کامیاب ہوگیا



 

No comments:

Post a Comment