حضرت حبیب عجمی ؒ تائب ہونے کے بعد جب گھر سے نکلے تو راستے میں لڑکے کھیل رہے تھے۔انہیں دیکھ کر بچوں نے آواز یں کسنے شروع کر دیئے کہ ایک طرف ہو جاؤ،حبیب سودخورآرہا ہے۔کہیں اس کے قدموں کی خاک ہم پر نہ پڑ جائے اور ہم اس جیسے بد بخت بن جائیں۔ یہ سن کر آپ بہت رنجیدہ ہوئے اور حضرت بصریؒ کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔انہوں نے آپ کو ایسی نصیحت فرمائی کہ بے چین ہو کر دوبارہ توبہ فرمائی اور جب واپسی پر ایک مقروض شخص آپ کو دیکھ کر بھاگنے لگا تو آپ نے اس سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ تم مجھ سے مت بھاگو۔اب تو مجھ کو تم سے بھاگنا چاہئیے تا کہ ایک عاصی کا سایہ تم پر نہ پڑ جائے
ھر جب آپ آگے بڑھے تو انہیں لڑکوں نے کہنا شروع کیا ’’ راستہ دے دو۔اب حبیب تائب ہو کر آرہا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے پیروں کی گرد اس پر پڑ جائے اور اﷲ تعالیٰ ہمارا نام گنہ گاروں میں درج کرلے‘‘
آپ نے بچوں کا یہ قول سن کر اﷲ تعالیٰ سے عرض کیا ’’تیری قدرت بھی عجیب ہے کہ آج ہی میں نے توبہ کی اور آج ہی تو نے لوگوں کی زبان سے میری نیک نامی کا اعلان کروادیا‘‘
حضرت حبیب عجمیؒ نے تائب ہونے کے بعدمنا دی کرادی کہ جو شخص میرا مقروض ہے۔وہ اپنی تحریر اور مال واپس لے جائے
اس کے علاوہ آپ نے اپنی تمام دولت راہ مولا میں لٹا دی اور جب کچھ باقی نہ رہا تو آخر میں ایک سائل کے سوال پر اپنا کرُتہ تک اتار کر دے دیا اور دوسرے سائل کے سوال پرآپ نے اپنی بیوی کی چادر بھی دے دی۔اس کے بعد دونوں میاں بیوی نیم برہنہ رہ گئے۔
پھر ساحل فرات پر ایک عبادت خانہ تعمیر کرکے عبادت میں مشغول ہو گئے اور معمول بنا لیا تھا کہ دن میں تحصیل علم کیلئے حسن بصریؒ کی خدمت میں پہنچ جاتے اور رات بھر مشغول عبادت رہتے۔
چونکہ قرآن کریم کا تلفظ اپنے صیحح مخرج کے ساتھ ادا نہیں کرسکتے تھے اس لیے آپ کو عجمی کا خطاب دے دیا گیا
حضرت فضیل بن عیاضؒ ایک مرتبہ اپنے بچے کو گود میں لیے ہوئے پیار کر رہے تھے کہ بچے نے سوال کیا’’ آپ مجھے اپنا محبوب تصور کرتے ہیں‘‘آپؒ نے فرمایا۔’’بے شک‘‘۔
پھر بچے نے پوچھا ’’ اﷲ تعالیٰ کو بھی محبوب سمجھتے ہیں پھر ایک قلب میں دو چیزوں کی محبوبیت کیسے جمع ہو سکتی ہے‘‘یہ سنتے ہی بچے کو آغوش سے اتار کر مصروف عبادت ہو گئے
ایک کنیز بیس سال سے حضرت حبیب عجمیؒ کے ہاں رہ رہی تھی لیکن آپؒ نے اس کے چہرے کی جانب کبھی نہیں دیکھا تھا۔ایک دن اسی کنیز سے آپ نے فرمایا۔
’ذرا میری کنیز کو آواز دے دو
اُس نے عرض کیا۔’’حضور!میں ہی تو آپ کی کنیز ہوں۔‘‘
آپ نے فرمایا۔’’تیس برس میں میرا خیال سوائے اﷲ تعالیٰ کے کسی اور طرف نہیں گیا ۔یہی وجہ ہے کہ میں تم کو شناخت نہیں کرسکا
کسی قاری نے بہت خوش الحانی کے ساتھ حضرت فضیل بن عیاضؒ کے سامنے آیت تلاوت کی۔آپؒ نے فرمایا۔’’میرے بچے کے نزدیک جا کر تلاوت کرو لیکن سورہ القارعہ ہر گز مت پڑھنا کیونکہ خشیت الہی کی وجہ سے وہ ذکر قیامت سننے کی استطاعت نہیں رکھتا
مگر قاری نے آ پ کے بچے کے سامنے جاکر یہی سورہ قرأت کی اور آپ کے صاحبزادے ایک جیخ مار کر دنیا سے رخصت ہو گئے۔
No comments:
Post a Comment