اس کے ذہن میں یہ بات آسانی سے نہ اتر رہی تھی کہ مارسی اس کے بھائی کی محبت ہوسکتی ہے۔ لیکن وہ جب جب یہ سوچتا تھا کہ مارسی اس کے لاڈلے بھائی کا پیا رہے تو اس کے سینے میں خوشی کی گھنٹیاں بجنے لگتیں۔سکینہ نے اسے سوچوں میں گم دیکھاتو کہا۔
’’صرف میں ہی نہیں آپ کے والد محترم اور والدہ حضور بھی مارسی کی ملاقات سے بہت خوش ہوئے ہیں یہ لڑکی کافی دیر سے یہاں موجود ہے اور ہم نے اسے اس لیے روک لیا تھا کہ آپ قصرِ سلطانی سے قاسم کے متعلق خبر لے کر لوٹیں گے تو مارسی کو بھی قاسم کی خبر مل جائے گی
طاہر نے ایک دم سوچا کہ اگر یہ لڑکی ابوجعفر کی جاسوسہ ہے تو اس سے قونیا روانگی کی بات چھپا نا بہت ضروری ہے۔ البتہ قاسم کی قید سے متعلق چونکہ ابو جعفر خود بھی واقف ہے اس لیے قاسم کی اسیری کا ذکر اپنے اہل خانہ سمیت اس لڑکی کے سامنے کردینا بھی غلط نہ ہوگا بلکہ ایک لحاظ سے بہتر ہی ہوگا۔ کیونکہ ابوجعفر کو جب یہ معلوم ہوگا کہ قاسم بن ہشام کا بھائی طاہر بن ہشام شاہی زندان میں قید اپنے بھائی تک پہنچ چکا ہے تو وہ محتاط ہوجائے گا اور ادرنہ میں کسی سازش کا خیال وقتی طور پر ترک کردے گا۔ یہی سوچ کر طاہر نے فیصلہ کیا کہ وہ اس مہمان لڑکی مارسی کے سامنے قاسم کی قید کا ذکر کر دے گا۔ چنانچہ اس نے اپنی بیوی سکینہ سے کہا
اچھا ٹھیک ہے۔ تم اس لڑکی کو یہاں بلاؤ۔ میں اس کو ایک نظر دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘
سکینہ نے خوشی سے چونک کر اپنے شوہر کی جانب دیکھا اور پھر اگلے لمحے وہ تیزی کے ساتھ کمرے سے نکل گئی۔ بچے پہلے ہی کمرے سے جاچکے تھے۔ وہ معمول کے مطابق صحن کے اندر کھیلنے میں مصروف تھے۔ کچھ دیرگزری تو طاہر کو مہمان لڑکی کا چہرہ دکھائی دیا۔ اس کی نظریں مارسی پر پڑیں تو مبہوت ہو کررہ گیا ۔ کیا ا س قدر حسین چہرے بھی ہوسکتے ہیں؟ یہ بڑی بڑی آنکھیں جن پر لمبی لمبی پلکیں یوں حرکت کررہی تھیں جیسے دوعدد سیاہ کبوتر پھڑ پھڑا رہے ہوں۔طاہر نے دیکھا سڈول جسم کی مالک اس لڑکی کا گورا بدن نیشا پور کے سنگ سفید کی طرح شفاف تھا ۔ مارسی جھجکتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئی اور طاہر کے سامنے ایک لکڑی کی چوکی پر بیٹھ گئی۔ طاہر کی بیوی اور ماں بھی مارسی کے پیچھے کمرے میں داخل ہوئیں اور مارسی کے دائیں بائیں چوکیوں پر بیٹھ گئیں۔ ابھی طاہر کچھ بات نہ کر پایا تھا کہ طاہر کے والد بھی کمزور قدموں سے چلتے ہوئے کمرے میں آئے اور طاہر کے پہلو میں چارپائی پر بیٹھ گئے۔ طاہر ابھی تک مارسی کا جائزہ لے رہاتھا ۔ اسے اس لڑکی کے چہرے پر حوروں جیسی معصومیت دکھائی دی۔یوں لگتا تھا جیسے ان گلابی ہونٹوں نے کبھی جھوٹ نہ بولا ہو۔ طاہر کوئی سراغ رساں یا جاسوس نہ تھا ۔ درحقیقت وہ سیدھا سادا شمشیر زن استاد تھا چنانچہ بہت جلد اس کے ذہن سے نکلنے لگا کہ مارسی کسی غلط ارادے سے اس کے گھر آئی ہوگی۔ ایک دم اس نے مارسی کی جانب سے اپنی نظریں ہٹائیں اور اپنی بزرگ والدہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا
امی حضور ! قاسم کا پتہ چل گیا ہے۔‘‘
اس کے اتنا کہنے کی دیر تھی کہ کمرے میں موجود ہر شخص حیرت سے اچھلا ۔ مارسی کی حالت دیدنی تھی۔ ا س نے تجسس ، جوش ، محبت اور تڑپ کے ملے جلے جذبات سے ہر ایک کو نظر بھر کر دیکھااور سب سے پہلے بولی۔
’’کک کیا آپ سچ کہتے ہیں؟‘‘ اس کے لہجے میں شرم و حیاء کو ٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ اس کے فوراً بعد قاسم کی ماں جیسے تڑپ کر بول اٹھی۔
’’کہاں ہے میرا بچہ..تم نے تو کہاتھا کہ میں اسے ساتھ لاؤں گا
طاہر کی بیوی نے بھی اسی قسم کی بات کی اور کہا۔’’ اس کا مطلب ہے کہ ہماری بہو مارسی کا پیر ہمارے گھر میں خوش بختی کی علامت ہے۔ آج ہی مارسی ہمارے گھر آئی اور آج ہی قاسم کی اطلاع مل گئی۔‘‘
سب سے آخر میں قاسم کے والد نے سنجیدگی سے پوچھا ۔ ’’کیسے پتہ چلا ہے؟...کہاں ہے قاسم؟ کیا سلطان نے اسے کسی مہم پر بھیجا ہے؟‘‘ یہ ہشام کی آواز تھی۔ اپنے دور کا مایہ ناز پہلوان ہشام بن عدی.
طاہر سب کی بات سننے کے بعد کسی قدر ڈھیلے انداز میں کہنے لگا۔’’نہیں اباحضور!سلطان نے تو قاسم کو بہت اہم مہم سونپی تھی لیکن سلطان کے بڑے بیٹے شہزادہ علاؤالدین نے قاسم کو خطیب مغرب کے کہنے پر پچھلے تین ہفتوں سے نظر بند کر رکھا ہے
طاہر کی بات سن کر مارسی اپنی جگہ پر ہل کر رہ گئی۔ تو گویا ابوجعفر نے اپنا کام کر دکھایا تھا۔مارسی کو تسلیم کرنا پڑا کہ ابوجعفر ایک منجھا ہوا اور جہاں دیدہ شخص ہے۔ اس نے مارتھا سے کہا تھا کہ وہ بہت جلد قاسم کو اپنے راستے سے ہٹا دے گا۔ مارسی یہی سوچ رہی تھی کہ ابوجعفر نے اپنا قول پورا کر دکھایا ۔ ادھر طاہر اپنے والدہ کو واقعہ کی تفصیل بتارہا تھا ۔اچانک طاہر کے ذہن میں کچھ خیال آیا اور قاسم کا واقعہ ادھورا چھوڑکر مارسی کی جانب متوجہ ہوا۔
’’محترمہ !.......آپ کے بارے میں میری بیوی سکینہ نے مجھے جو کچھ بتایا ہے وہ میرے لیے ناکافی ہے۔ اگر آپ برا نہ مانیں تو ازراہِ مہربانی اپنا اور اپنے خاندان کا تفصیلی تعارف کروادیں تو میرے ذہن سے کبیدگی دور ہوجائے گی
مارسی کے لیے یہ کوئی غیر متوقع سوال نہ تھا ۔ لیکن اس کا ذہن چونکہ قاسم کی طرف لگا ہوا تھا چنانچہ وہ طاہر کے سوال سے چونک سی گئی اور پھر تھوڑی دیر سرجھکا کر خاموش رہنے کے بعد کہا:۔
’’میں آپ سے کچھ نہیں چھپاؤں گی۔ اس دنیا میں آپ سب لوگ ہی میرے اپنے ہیں۔میں آپ کو اپنی زندگی کا ایک ایک ورق کھول کر دکھادوں گی۔‘‘
اور اس کے بعد مارسی نے تفصیل کے ساتھ اپنے بارے میں قاسم کے اہل خانہ کو بتانا شروع کردیا۔ اس نے البانوی محل سے لے کر قصرِ سلطانی تک اور پھر قصرِ سلطانی سے قاسم کی ملاقات تک سب کچھ بتادیا۔ اس کی کہانی میں سکندر بیگ کا بھی تفصیل کے ساتھ ذکر آیا اور ابو جعفر کا بھی ۔ اس نے قاسم کی ملاقاتوں کی تفصیل بھی بتائی اور مارتھا کی ریشہ دوانیوں کا ذکر بھی کیا۔ مارسی کی کہانی مکمل ہوئی تو طاہر کی ماں اور بیوی کی آنکھوں میں آنسو بہہ رہے تھے۔ طاہر اور اس کا باپ اپنی جگہ پیار بھری نظروں سے مارسی کو دیکھ رہے تھے۔ طاہر کی ماں اپنی جگہ سے اٹھی اور آگے بڑھ کر مارسی کو سینے سے لگالیا۔ مارسی کی موٹی موٹی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گر رہے تھے۔سکینہ نے بھی آگے بڑھ کر مارسی کو پیار دیا اور کہا:۔
’’میں تو کہتی ہوں تم اب یہیں رہو۔ کیونکہ تم اپنے گھر میں اپنی ماں مارتھا کے پاس بھی محفوظ نہیں ہو۔ خدانخواستہ تمہیں اگر کچھ ہوگیا تو ہم قاسم کو کیا منہ دکھائیں گے۔؟‘‘
سکینہ کی بات ابھی پوری نہ ہوئی تھی کہ ہشام بول اٹھا۔ ’’دیکھو بیٹی!تم نے سب کچھ سچ سچ بتاکر ہمارے دل میں اپنے لیے بہت زیادہ جگہ پیدا کرلی ہے۔ یہ جان کر تو مجھے اور بھی خوشی ہوئی کہ تم اسلام بھی قبول کرچکی ہو۔ میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم اپنا نام بھی مسلمانوں والا رکھ لو۔‘‘
مارسی نے چونک کر قاسم کے والد کی بات سنی اور پھر شرمیلے سے لہجے میں کہا۔
’’تو پھر آپ ہی میرے لیے کوئی اچھا سا نام تجویز کردیجیے۔ آپ جو نام تجویز کریں گے، میں وہی اپنا لوں گی۔‘‘
اب ہشام اپنی ہونے والی بہو کے لیے نام سوچ رہا تھا ۔ کچھ دیر بعد ہشام نے کہا۔
’’ٹھیک ہے بیٹی! ہم نے تمہارے لیے ایک نام تجویز کر لیاہے۔‘‘
سب نے چونک کر ہشام کی جانب دیکھا تو اس نے مسکراکر مارسی کا نیا نام پکارا:۔
.غزالہ.
ہشام کے منہ سے مارسی کا نیا نام سن کر مارسی سمیت سب لوگ بہت خوش ہوئے یہ بالکل صحیح نام تھا ۔ مارسی کی غزال جیسی خوبصورت آنکھوں کے لیے یہی نام مناسب تھا ۔ جب سکینہ نے مارسی کو غزالہ کا مطلب بتایا تو شرم سے اس کا چہرہ سرخ ہوگیا ۔ وہ محسوس کر رہی تھی کہ عرب نوجوان قاسم بن ہشام کتنے پیار سے اس کا یہ نام پکارے گا۔
قاسم کے گھر میں مارسی کئی گھنٹے تک رہی ۔ شروع شروع میں اس کا رازدار کوچوان اکبر مکان سے باہر موجود رہا ۔لیکن بعدازاں مارسی نے اسے یہ کہہ کر روانہ کردیا کہ وہ سہ پہر کے بعد آکر اسے لے جائے ۔ اب وہ مارسی نہیں تھی بلکہ ایک مسلمان دوشیزہ غزالہ تھی۔ لیکن ابھی اسے اپنا یہ نام اپنی ماں اور ابو جعفر سے چھپانا تھا ۔
سہ پہر کے بعد اکبر ، مارسی کو لینے کے لیے آگیا ۔ اور مارسی قاسم کے تمام اہل خانہ کے ساتھ پیار اور محبت کی بے تکلفی میں بہت سا وقت گزارنے کے بعد اپنے گھر لوٹ گئی۔
اگلی صبح طاہر قونیا کے لیے روانہ ہوچکاتھا ۔ اس نے صرف اپنی بیوی کو اتنا بتایا تھا کہ وہ ایشیائے کوچک سلطان سے ملنے کے لیے جارہا ہے تاکہ قاسم کی رہائی کے لیے کچھ کر سکے۔ اس نے ساتھ ہی اپنی بیوی کو ہدایت کی کہ فی الحال اس کی روانگی سب سے پوشیدہ رکھی جائے۔ سکینہ نے اسے نمازِ فجر کے بعد پوری تیاری کے ساتھ راوانہ کیا۔
ادھر مارسی قاسم سے ملنے کے لیے بے چین تھی۔ آج صبح ہی اس نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ قصرِ سلطانی جاکر کسی نہ کسی طرح قاسم سے ملنے کی کوشش کرے۔ قصرِ سلطانی میں مارسی کا آناجانا کوئی نئی بات نہ تھی۔ وہ البانوی کنیز مارتھا کی بیٹی تھی اور سکندر کی پسند ..لیکن آج صبح وہ گھر سے روانہ ہونے لگی تو اس کی ماں نے اسے روک لیا۔
’’اے لڑکی!.یہ توپھر کہاں چل دی، پوچھے بتائے بغیر؟‘‘
مارسی کو ماں کا روکنا بہت برالگا۔ اس نے مڑ کر مان سے کہا۔’’یہیں نزدیک ہی جارہی ہوں، قصرِ سلطانی تک۔‘‘
مارسی نے غالباً محل میں موجود اپنی کسی سہیلی کا ذکر بھی کیا ۔ لیکن آج مارتھا کے تیور ہی کچھ اور تھے ۔ وہ انتہائی سخت لہجے میں بولی۔
’’خبردار ! تو کہیں نہیں جائے گی۔ تجھے معلوم ہے کہ تو البانیہ کی ہونے والی ملکہ ہے۔ کل تو سکندر کے ساتھ البانیہ کے تخت پر بیٹھے گی۔ کچھ اپنی حیثیت کا خیال کر ۔ یہ تو کہاں گھومتی رہتی ہے دن بھر؟میں نے آج صبح ہی اکبر کو ایک دو دن کی چھٹی پر بھیج دیا ہے۔‘‘
مارسی اپنی ماں کے جملے سے ٹھٹک کر رک گئی اور کسی انجانے خوف سے اس کا دل دھڑکنے لگا۔ اسے ایسے لگا جیسے یہ باتیں اس کی ماں نے نہ کی ہوں بلکہ اس کی ماں کی زبان میں ابوجعفر بول رہاتھا ۔ اس نے سوچا کہ اس کی ماں ایسے تو نہ تھی۔ اس کی ماں نے اسے بہت لاڈ پیار اور نازو نعم سے پالا تھا ۔ ایک دم اس کے دل میں غصے کی کیفیت پیدا ہونے لگی۔ اسے ابوجعفر پر غصہ آرہا تھا ۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ قصرِ سلطانی ضرور جائے گی۔ چنانچہ اس نے کہا:۔
’’ماں! اب ایسا بھی کیا اندھیرا ہے.میں محل تک ہی تو جارہی ہوں...پیدل بھی جا سکتی ہوں۔ مجھے ملکہ سروین سے بھی ملنا ہے اورسر بیائی کنیزوں سے بھی۔ بہت دن سے ادھر جانا ہی نہیں ہوا۔‘‘
مارسی نے ماں کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا۔ سربیائی شہزادی سروین اور اس کی کنیزیں مارتھا کے لیے بہت اہم تھیں۔ خصوصاً ملکہ سروین کی کنیزیں عیسائی ہونے کے ناطے مارتھا کو بہت عزیز تھیں۔ مارتھا نے مارسی کی زبانی ان کا ذکر سنا تو خاموش ہوگئی اور مارسی کو جانے کی اجازت دے دی۔
مارسی گھر سے نکلی اور پیدل ہی قصرِ سلطانی کی جانب چل دی۔ وہ راستے میں سوچ رہی تھی کہ ملکہ سروین سے ملنا بھی قاسم کی رہائی کے سلسلے میں مفید ہوسکتا ہے۔ حالانکہ پہلے اس کے ذہن میں یہ خیال تھا کہ وہ اپنی سہیلیوں کی وساطت سے براہِ راست شہزادہ علاؤ الدین کے ساتھ بات کرے گی۔ لیکن اب وہ سوچ رہی تھی کہ سربیائی شہزادی سروین جواب سلطان مراد خان ثانی کی ملکہ تھی ، قاسم کی رہائی کے سلسلے میں زیادہ بہتر کردار ادا کر سکتی ہے۔ کیونکہ وہ جانتی تھی کہ دونوں شہزادے یعنی شہزادہ علاؤ الدین اور شہزادہ محمد ملکہ سروین کی ایک ماں کی طرح عزت کیا کرتے تھے۔
جاری ہے
No comments:
Post a Comment