حضرت محمّد رازیؒ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت حاتم اصمؒ کو کبھی غضب ناک ہوتے نہیں دیکھا۔البتہ ایک بار آپ بازار جا رہے تھے تو آپؒ کے کسی شاگرد سے دکاندار اپنا قرض طلب کر رہا تھا۔اس وقت آپؒ نے غضب ناک ہو کر اپنی چادر زمین پر پھینک دی اور پورے بازار میں سونا ہی سونا پھیل گیا۔پھر آپؒ نے غصہ میں دکاندار سے فرمایا’’ اپنے قرض کے مطابق سونا اٹھا لے لیکن اگر ایک حبّہ بھی زیادہ اٹھایا تو تیرے ہاتھ شل ہو جائیں گے ‘‘لیکن اس نے آپ کی بات پر عمل نہ کیا اور لالچ میں کچھ زیادہ سونا اٹھا لیا۔چنانچہ اسی وقت اس کے دونوں ہاتھ شل ہوگئے
منصور بن عمارؒ فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ تفریحاً گلی کُوچہ میں پھر رہا تھا۔اچانک ایک مکان سے رونے چلانے کی آواز سنائی دی۔کوئی شخص جناب الٰہی میں گڑ گڑاتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
’’اے مولا! اے میرے آقا!میں ہر چند گناہوں سے اپنی جان بچاتا ہوں مگر نفسانی خواہشات ہر وقت مجھ کو گھیر کر دنیا کی لذتوں میں پھنساتی ہیں اور دوزخ کے عذاب اورقیامت کی آفت کو دل سے بھلاتی ہیں۔اس حال میں تیرے فضل و کرم کے سوا کون میرا حمایتی اور مدد گارہے
یہ سن کر میں نے باہر سے آیہ کریمیہ ۲۸پارہ کی تلاوت کیا۔
)ترجمہ(’’اے ایمان والو!بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو عذاب دوزخ سے۔‘‘ اس نے یہ سنتے ہی چیخ ماری اور گر یہ وزاری شروع کر دی۔ میں آگے بڑھ گیا پھر جب صبح کو اس طرف سے نکلا تو دیکھا لوگ جمع ہیں او ر ایک جنازہ رکھا ہے اور کفن دفن کا سامان ہو رہا ہے۔
میں نے پوچھا۔’’یہ جنازہ کس کا ہے؟‘‘
لوگوں نے بتایا ۔’’رات عجیب معاملہ گذرا۔کہ یہ جوان رات بھر خوف الٰہی سے روتا چلّاتا رہا۔اور صبح کو مرگیا
ایک دفعہ حضرت حاتم اصمؒ نے تین شرائط پر ایک شخص کی دعوت قبول کی۔
اوّل یہ کہ جس جگہ چاہوں بیٹھوں۔
دوم جو چاہوں کھاؤں گا۔
سوم میرے کہنے پر تجھے عمل کرنا ہوگا۔
اس شخص نے شخص نے شرائط قبول کر لیں۔
چنانچہ آپ اس کے ہاں پہنچ کر جوتوں میں بیٹھ گئے اور اپنے ہی پاس سے دوروٹیاں نکال کر کھا لیں۔پھر میزبان سے فرمایا۔’’ایک توا گرم کرکے لے آؤ اور جب تو آگیاتو آپ نے جلتے توے پر کھڑے ہو کر فرمایا’’میں نے دو روٹیاں کھائی ہیں۔‘‘
اتنا کہنے کے بعد توے پر سے اُترے۔پھر اہل مجلس سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔’’اگر تمہارا یہ عقیدہ ہے کہ قیامت میں ہر شے کا محاسبہ ہوگا تو اس جلتے توے پر کھڑے ہو جاؤ
لوگوں نے عرض کیا۔’’یا حضرت!یہ ہمارے بس کی بات نہیں ہے۔‘‘
پھر آپؒ نے فرمایا۔’’جب تم اس عمل سے اس وقت کا حساب نہیں دے سکتے تو آگ سے بنی ہوئی محشر کی زمین پر کھڑے ہو کر تمام عمر کا حساب کیسے دے سکو گے۔‘‘
پھر آپؒ نے اس آیت کی تشریح فرمائی۔)ترجمہ(’’قیامت کے دن تم سے تمام نعمتوں کی باز پُرس ہو گی۔‘‘آپؒ کی تشریح کا انداز بیان کچھ ایسا تھا کہ تمام حاضرین مجلس بے چین ہو کر گریہ وراری کرنے لگے۔
کسی مُرید نے حضرت ابوالعباس نہاوندیؒ سے پوچھا۔’’زکوٰۃ کس کو دوں
یہ سن کر جب وہ مرید رخصت ہوا تو راستہ میں ایک بہت ہی شکسہ حال فقیر نظر پڑا چنانچہ اس نے بطور زکوٰۃ کے ایک اشرفی اس کو دے دی لیکن دوسرے دن دیکھا۔کہ وہی نا بینا فقیرایک شخص سے کہا تھا کہ کل ایک شخص نے مجھ کو ایک اشرفی دی تھی جس کی میں نے فلاں مغنیہ کے ساتھ بیٹھ کر شراب پی۔اس واقعہ کاذکر جب مُرید نے آپ کے سامنے کرنے کا قصد کیا تو اس کے کچھ کہنے سے پہلے ہی آپؒ نے فرمایا کہ جاؤ میرا یہ ایک درہم بھی اس شخص کو دے دو جو تم کو سب سے پہلے مل جائے
چنانچہ جب وہ مرید باہر نکلا تو اسے ایک سیّد نظر آیا۔اس نے وہ درہم اس کو پیش کر دیا اور خود بھی اس کے پیچھے چل پڑا لیکن وہ سیّد آبادی میں جانے کی بجائے جنگل میں جا پہنچا اور اپنے دامن میں سے ایک مردہ تیتر نکال کر پھینک دیا اور جب مرید نے سیّد صاحب سے یہ واقعہ پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ آج سات یوم سے میرے بیوی بچے فاقے سے ہیں اور میں سوال کرنے کی ذلّت سے بچنے کیلئے جب رزق کی تلاش میں نکلا تو جنگل میں یہُ مردہ تیتر مل گیا اور میں نے اہل و عیال کے کھانے کیلئے اسے اٹھا لیا لیکن تمہارے ایک درہم دے دینے کے بعد میں اس کو پھینکنے یہاں چلا آیا۔
یہ واقعہ جب مُرید نے شیخ سے بیان کرنے کا ارادہ کیا تو آپؒ نے فرمایا۔
’’مجھ سے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ حرام کی کمائی کا مال شراب خانے کی نذر ہو جاتا ہے اور جائز کمائی ایک سید کو مردار کھانے سے بچالیتی ہے۔جاری ہے
No comments:
Post a Comment