اللہ والوں کے قصّے...>< قسط نمبر 21.


حضرت با یزید بسطامی ؒ کا ایک پڑوسی یہودی تھا۔وہ کہیں باہر چلا گیا تو بیوی غربت کی وجہ سے اپنے گھر میں چراغ بھی روشن نہ کر سکی۔ اند ھیر ے کی وجہ سے اس کا بچہ تمام رات روتا رہتا تھا۔آپؒ کو پتہ چلا تو آپ ہرر ات اس کے ہاں چراغ رکھ آتے جب یہودی واپس آیا تو اس کی بیوی نے اسے تمام واقعہ سنایا جسے سن کر یہودی بولا۔
’’کس قدر افسوس ناک ہے یہ بات کہ اتنا عظیم بزرگ ہمارا پڑوسی ہواور ہم گمراہی میں زندگی بسر کریں۔‘‘چنانچہ میاں بیوی دونوں آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سچے دل سے آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا
عبدالواحد بن زیدؒ فرماتے ہیں کہ میں نے اﷲ تعالیٰ کے حضور تین رات یہ سوال کیا کہ ’’اے اﷲ!مجھے اس شخص کو دکھا دیجئے جو جنت میں میرا رفیق ہوگا۔‘‘
میرے اس سوال پر ارشاد ہوا کہ’’اے عبدالواحد!جنت میں تیرا رفیق میمونہ سودا ہے۔‘‘
میں نے عرض کیا’’وہ کہاں ہے؟‘‘ارشاد ہوا کہ وہ کوفہ میں فلاں قبیلہ میں ہے
میں کوفہ میں اس پتہ پر گیا اور لوگوں سے پوچھا ’’ اس نام کی عورت کہاں ہے؟‘‘
لوگوں نے جواب دیا۔’’وہ تو ایک دیوانی ہے، بکریاں چرایا کرتی ہے۔‘‘
میں نے کہا’’میں اس کو دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘
ایک شخص نے جواب دیا۔’’فلاں جنگل میں چلے جاؤ وہ مل جائے گی۔‘‘
میں اس مقام پر گیا ،دیکھا تو وہ کھڑی ہوئی نماز پڑھ رہی ہے اور اس کے سامنے ایک عصا پڑا ہے۔وہ ایک اون کا کپڑا پہنے ہوئے ہے اور اس کپڑے پریہ لکھا ہوا ہے
یہ نہ تو بیچی جا سکتی ہے اور نہ خریدی۔‘‘
اس کے علاوہ ایک عجیب واقعہ یہ بھی دیکھا کہ بکریاں اور بھیڑئیے ایک جگہ چر رہے ہیں ۔نہ تو بھیڑئیے بکریوں کو کھاتے ہیں اور نہ بکریاں بھیڑیوں سے ڈرتی ہیں جب اس نے مجھے دیکھاتو تماز کو مختصر کیا اور سلام پھیر کر کہا۔
’’اے ابن زید!اس وقت جاؤ،یہ وقت وعدے کا نہیں ہے۔کل آنا۔‘‘
میں نے پوچھا۔’’تجھے کس نے بتایا ہے کہ میں ابن زید ہوں۔‘‘
وہ بولی۔’’یہ خبرنہیں،مگر حدیث میں ہے کہ روحیں ایک جگہ رہتی ہیں، جن روحوں میں وہاں تعارف ہو گیا وہ یہاں بھی آپس میں ایک دوسری الفت کرتی ہیں اور جو وہاں ایک دوسرے سے ناواقف اور انجان رہیں، ان کا یہاں بھی اختلاف رہتا ہے
پھر میں نے اسے کچھ اور نصیحت کرنے کو کہا۔
وہ کہنے لگی۔’’جس بندے کو دنیا کی کوئی چیز حق تعالیٰ نے دی اور پھر وہ اسی کی طلب میں رہا۔اﷲ تعالیٰ اس سے اپنی خلوت کی محبت سلب فرمالیتا ہے اور قُرب کو بُعد سے بدل دیتا ہے اور اس کی بجائے وہ جنت اس کے دل میں بٹھا دیتا ہے۔‘‘پھر میمونہ نے چند عبرتناک اشعار پڑھے۔
پھر میں نے پوچھا۔’’بھیڑیے بکریوں کے ساتھ کس طرح رہ رہے ہیں؟‘‘
اس نے جواب دیا۔’’جاؤ،یہ باتیں مت کرو۔میں نے اپنے مولا سے صلح کر لی ہے اس لیے اس نے بھیڑیے اور بکریوں میں بھی محبت پیدا کردی ہے
ایک مرتبہ کوئی جماعت کسی خطرناک راستہ پر سفر کرنا چاہتی تھی۔چلنے سے پہلے لوگوں نے حضرت ابوالحسن خرقانی ؒ سے عرض کیا ’’ہمیں کوئی ایسی دعا بتا دیجئے جس کی بدولت ہم راستے کے مصائب سے محفوظ رہ سکیں۔‘‘
آپؒ نے فرمایا۔’’جب تمہیں کو ئی مصیبت آئے تو مجھ کو یاد کرلینا۔
لوگ سفر پر روانہ ہوگئے۔دوران سفر آپ کی بات بھول گئے۔راستے میں ان لوگوں کو ڈاکوؤں نے گھیر لیا ۔ایک شخص جس کے پاس مال و اسباب بہت زیادہ تھا جب ڈاکو اس کی جانب متوجہ ہوئے تواس نے سچے دل سے آپ کو یاد کیا جس کے نتیجہ میں وہ شخص اپنے مال و اسباب سمیت تمام لوگوں کی نظروں سے غائب ہو گیا۔ڈاکوؤں کو اس شخص کے غائب ہوجانے پر بڑا تعجب ہوا۔مگر جن لوگوں نے حضرت ابوالحسنؒ کو یاد نہیں کیا تھا وہ سب ڈاکوؤں کے ہاتھوں لٹ گئے
پھر ڈاکوؤں کی واپسی کے بعد وہ شخص اپنے ساتھیوں کی نظروں کے سامنے آگیا۔لوگوں نے حیران ہوتے ہوئے اس سے پوچھا  تو کہاں غائب ہو گیا تھا۔
اس واقعہ کے بعدجب وہ جماعت خرقان واپس لوٹی تو لوگوں نے حضرت ابوالحسن خرقانی ؒ سے عرض کیا۔’’ہم صدق دل کے ساتھ خدا کو یاد کرتے رہے ہیں لیکن اس کے باوجود ہمارا مال لوٹ لیا گیا لیکن جس شخص نے آپ کو یادکیا وہ بچ گیا۔اس کی کیا وجہ ہے؟
آپؒ نے فرمایا۔’’تم صرف زبانی طور پر خدا کو یاد کرنے والے ہو مگر ابوالحسن خلوص قلب سے خدا کو یاد کرتا ہے ۔لہذا تمہیں یاد رکھنا چاہئیے کہ ابوالحسن تمہارے لیے خدا کو یاد کرتا ہے اور خدا کو صرف زبانی یاد کرنا بے سو دہوتاہے۔

No comments:

Post a Comment