عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا۔۔--۔قسط نمبر32.


یہ خبر قاسم کو لرزا دینے کے لیے کافی تھی۔ اس نے کل سے اب تک سوسے زیادہ غدار اور باغی گرفتار کرلیے تھے۔ لیکن اصل مجرم اس کے ہاتھ سے نکل گیا تھا ۔ اسے حیرت تھی کہ ابوجعفر کو شمالی قلعے میں منتقل کرتے وقت بہت احتیاط کی گئی تھی۔ اور بہت خاص خاص لوگوں کو علم تھا ۔ یہ بات کہ .’’ابوجعفر کو شمالی قلعے میں رکھا جائے گا‘‘..انتہائی خفیہ طریقے سے پہلے ہی طے کرلی گئی تھی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ یقیناًابھی تک ابوجعفر کا کوئی خاص مہرہ پکڑے جانے سے رہ گیا تھا ۔ جس نے نہ صرف شمالی قلعے کا پتہ چلالیا ۔ بلکہ پہلی رات ہی ابوجعفر کو چھڑاکر لے گیا 

ادھر ..ابوجعفر اس وقت مارسی اور اپنے چھ ساتھیوں کے ہمراہ ایک پہاڑی درے سے گزر رہا تھا۔ اس کی منزل تھی البانیہ کا محل ۔ مارسی ایک رتھ میں سوار تھی ۔ جس میں تین گھوڑے جتے ہوئے تھے۔ روانگی سے قبل طبیب سلیم پاشا نے مارسی کو نیند کی دوا پلادی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ مارسی ابھی تک سو رہی تھی۔ شہر میں ناکہ بندی کے باوجود وہ کامیابی کے ساتھ اس لیے نکل آئے تھے کہ ابوجعفر کو چھڑانے والے حملہ آور ابوجعفر کے ہمراہ فصیلِ شہر کو پھاند کر دوسری جانب اترے تھے۔ اور مارسی کو سلیم پاشا نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے شہر سے باہر لالہ شاہین کی یادگار تک پہنچایا ۔ مارسی کو سرِ شام ہی شہر سے نکال لیا گیا تھا ۔ قاسم بن ہشام نے ابوجعفر کی بیس سالہ محنت کو ایک ہی دن میں سبوتاژ کردیا تھا ۔ اس نے بغاوت کے سارے بخیے ادھیڑکر رکھ دیے تھے۔ ابوجعفر کو اس بات کا بے حد قلق تھا۔ لیکن وہ یہ سوچ سوچ کر اپنے غصے کو ٹھنڈا کر رہا تھا کہ اس نے قاسم کی محبت یعنی مارسی کو اس سے چھین لیا تھا۔
اسی دن سلطان کے قاصد شاہِ ہنگری لارڈ سلاس کا پیغام لے کر پہنچے ۔ شاہِ ہنگری نے مطالبہ کیا کہ ’’ سلطان مراد خان ثانی اپنے بہنوئی محمد چلپی کی رہائی کے عوض سربیا کی آزادی کو تسلیم کرے اور اس ملک سے اپنے حقوقِ شہنشاہی اٹھالے۔ ’’والیشیا‘‘ کا صوبہ ہنگری کو دے دیا جائے اور سلطان زرِ فدیہ میں ساٹھ ہزار ڈاکٹ ادا کرے
سلطان کے لیے یہ بہت مشکل شرائط تھیں۔ اس کا مطلب تو یہ تھا کہ سلطان اپنے ایک شخص کے بدلے شاہِ ہنگری کو اپنی آدھی یورپی سلطنت دے دے۔ سلطان نے لارڈ سلاس کے جواب کا بہت برامنایا۔ اور اسے یہ دھمکی دینا چاہی کے وہ بزورِ شمشیر اپنے قیدی کو آزاد کرائے گا۔ لیکن اس مرتبہ بھی سلطان کی بہن اور بھانجے آڑے آئے۔ اور سلطان کو مجبور کیا کہ وہ شاہِ ہنگری کے مطالبات کا اس قدر سخت جواب نہ دیں۔ چنانچہ سلطان نے شاہِ ہنگری کو لکھا کہ وہ اپنی شرائط کو کچھ نرم کرے۔ کیونکہ کسی قیدی کو اس قدر مہنگا فروخت کرنا بادشاہوں کو زیب نہیں دیتا

چند دن بعد مارسی البانیہ پہنچ چکی تھی۔ قاسم ابھی تک ادرنہ میں ہی تھا ۔ وہ شب و روز اسی تگ و دو میں تھا کہ کسی طرح اسے چند دن کی اجازت ملے۔ اور وہ سکند بیگ کے محل پر حملہ آور ہونے کے لیے البانیہ روانہ ہوسکے۔ اس دوران سلطان نے ابوجعفر کی سازش میں ملوث لوگوں کو قرار واقعی سزا دی۔ سنگین مجرموں کو جلاد کے حوالے کردیا ۔ اور معمولی مجرموں کو زندان میں ڈال دیا ۔

سلطان کی خط وکتاب شاہِ ہنگری کے ساتھ چل پڑی۔ یہ سلسلہ اس قدر طویل ہوا کہ بالآخر صلیبیوں اور مسلمانوں کے مابین ایک تاریخی صلح پر منتج ہوا۔ سلطان کو اس کی بہن اور دوسرے عزیزوں نے ہونیاڈے سے انتقام لینے کی بجائے صلح پر مجبور کر دیا ۔ خط و کتابت نے ایسی صورت اختیار کی کہ سلطان مراد خان اور شاہ ہنگری کو ایک معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے ’’زیجیڈین‘‘ کے مقام پر اکٹھا ہونا پڑا۔ پاپائے روم کا خاص نمائندہ ’’کارڈ نیل جولین‘‘ مسلمانوں کے ساتھ صلح کا سخت مخالف تھا ۔ اس نے ہونیاڈے اور لارڈ سلاس کو سلطان کے ساتھ صلح سے باز رکھنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا یا۔ لیکن اس مرتبہ لارڈ سلاس اور سلطان کے درمیان صلح ہونی تھی۔ چنانچہ 26ربیع الاول 848ھ بمطابق 12جولائی 1444ء کے روز دونوں فرمانرواؤں نے زیجیڈین کے مقام پر .........ایک صلح نامے پر دستخط کیے۔ جس کی رو سے سربیا کو سلطنتِ عثمانیہ سے آزاد کر دیا گیا ۔ ’’والیشیا‘‘ کا صوبہ شاہِ ہنگری کی سلطنت میں چلا گیا ۔ اور سلطان نے عثمانی جنرل محمد چلپی کو آزاد کر وانے کے لیے ساٹھ ہزار ڈاکٹ فدیہ میں دیے۔ یہ معاہدہ ہنگری اور ترکی دونوں زبانوں میں لکھا گیا ۔ اور دونوں بادشاہوں نے اس پر دستخط کرنے کے بعد قسمیں کھائیں کہ اس عہد نامہ کی پابندی کو مذہبی احکام کی طرح ضروری سمجھیں گے۔اس عہد نامہ کی رو سے ’’دریائے ڈینوب‘‘ کو سلطان کی عمل داری کی حد قرار دیا گیا ۔ یہ معاہدہ دس برس کے لیے تھا ۔ اور یوں دس برس کے لیے مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان صلح قرار پاگئی۔ لارڈ سلاس نے انجیل پر قسم کھائی اور سلطان مراد نے قرآن کو ہاتھ میں لے کر حلف دیا

اب سلطان مطمئن تھا ۔ محمد چلپی رہا ہوکر ادرنہ واپس آچکا تھا ۔ ایشیائے کوچک میں امن پہلے ہی قائم ہوچکا تھا ۔ اس صلح نامہ سے یورپ کی جنگ کا بھی بظاہر خاتمہ ہوگیا ۔ اور مراد خان ثانی کو پہلی بار سکون کا سانس نصیب ہوا۔ بیس بائیس سال کی مسلسل لڑائیوں نے اس کو امورِ سلطنت سے دلبراشتہ کر دیا تھا۔ اور وہ چاہتا تھا کہ بقیہ زندگی آرام اور سکون کے ساتھ یادِ الہٰی میں گزارے۔چنانچہ صلح نامہ سے فارغ ہونے کے بعد وہ تبدیلی آب و ہوا کے غرض سے ایشیائے کوچک کے بعض پر فضا مقامات کی جانب چلا گیا ۔

شہزادہ علاؤالدین جو گزشتہ دنوں بتدریج بیمار ہوتا چلا جارہا تھا ، سلطان کی واپسی کے بعد سلطان کے شاہی طبیبوں کی خصوصی توجہ سے چند دن قبل صحت یاب ہونے لگا تھا ۔ وہ بسترِ علالت سے اٹھ کر چل پھر لیتا تھا ۔ حتیٰ کہ محل کے اندر ہی گھڑ سواری اور بعض دوسرے کھیلوں میں بھی شریک ہونے لگا تھا ۔ لیکن ایک روز اچانک شہزادہ بہت زیادہ بیمار ہوگیا ۔ اور چند گھنٹے شدید علیل رہنے کے بعد انتہائی غیر متوقع طو ر پر اس دارِ فانی سے کوچ کر گیا 

شہزادہ علاؤالدین سلطان کو بہت عزیز تھا ۔جونہی شہزادے کی وفات کی خبر سلطان کو ملی۔ سلطان کو بہت زیادہ صدمہ پہنچا ۔ اس نے تو سوچا تک نہیں تھا کہ بیمار شہزادہ یوں اس سے جدا ہوجائے گا۔ جوان بیٹے کی ناگہانی موت سلطان کے جگر پر ایساچر کہ لگا گئی کہ اس کے لیے سنبھلنا مشکل ہوگیا ۔ وہ بیٹے کی تدفین کے لیے انتہائی سرعت کے ساتھ ادرنہ آیا ۔ بیٹے کی آخری رسومات ادا کرتے وقت یوں لگتا تھا جیسے سلطان یک لخت بوڑھا ہو گیا ہو۔ اس کے چہرے پر کچھ ایسے تأثرات تھے جیسے ا س ملاح کے چہرے پر ثبت ہوتے ہیں۔ جو اپنا سفینہ غرق ہوتے دیکھتا ہے۔ لیکن خود بچ جاتا ہے۔شہزادہ سلطان کا لاڈلا ہی نہ تھا ، سلطنت کا ولی عہد بھی تھا ۔ اس کی موت نے سلطان کو ادھیڑ کر رکھ دیا ۔ اب سلطان کو امورِ سلطنت،حکمرانی ، لشکر کشی اور دربارِ حکومت سے کوئی دلچسپی نہ رہی تھی۔ چنانچہ سلطان نے علاؤالدین کی وفات کے تیسرے روز سلطنت سے مستقل طورپر کنارہ کش ہوجانے کا فیصلہ کیا ۔ اگرچہ سلطان کے اس فیصلے سے مخلص عمائدینِ سلطنت اور وفادار سپہ سالاروں کو بے حد رنج اور قلق ہوا۔ انہوں نے سلطانی فیصلے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سلطان کو بے حد مجبو ر کرنے کی کوشش کی کہ وہ سلطنتِ عثمانیہ کو اس طرح بے یارومددگار چھوڑ کر کہیں نہ جائے۔

سلطان نے کسی کی ایک نہ سنی اور اپنی علیحدگی کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ تختِ سلطنت پر شہزادہ علاؤالدین کے بعد شہزادہ محمد کا ہی حق تھا۔ چنانچہ سلطان نے شہزادہ محمد کو نوعمری میں ہی تاجِ عثمانی پہنا دیا۔ اس وقت شہزادہ محمد کی عمر صرف چودہ سال تھی۔ اور بعض لوگوں کا یہ خیال تھا کہ نوعمر شہزادہ امورِ سلطنت کو احسن طریقے سے نہ نبھا سکے گا۔ چنانچہ سلطان نے اپنے بہترین تجربہ کار اور بہادر وزیروں اور سپہ سالاروں کو نوعمر شہزادے کا دستِ راست مقرر کیا ۔ خصوصاً قاسم بن ہشام کو سلطان نے تخلیے میں بلوا کر حکم دیا:۔

’’قاسم ! ہمیں تم پر بے حد اعتماد ہے۔ تم نے ابوجعفر کی سازش کو بے نقاب کر کے سلطنتِ عثمانیہ پر بہت احسان کیا ہے۔ اس کا اجر ہم نہیں دے سکتے ۔ ہم نے تمہاری صلاحیتوں اور اخلاص کو دیکھ کر یہ فیصلہ کیا ہے کہ تمہیں جانے سے پہلے شہزادہ محمد کا مشیرِ خاص مقرر کرجائیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ تم اس ذمہ داری کو بہ حسن و خوبی نبھاؤ گے۔ تم پر پہلے بھی بہت ذمہ داریاں ہیں۔ چنانچہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ تمہیں سراغ رسانی کے محکمے سے آزاد کر دیا جائے۔ ویسے بھی ہم نے تمہیں شاہی سراغ رساں ادرنہ میں قیصر کی سازش کا کھوج لگانے کے لیے مقرر کیا تھا ...........اب چونکہ سازش اور بغاوت کا خطرہ نہیں رہا ۔ چنانچہ ہم تمہیں اس ذمہ داری سے آزاد کرکے شہزادہ محمد کی دیکھ بھال کا فریضہ سونپتے ہیں اب وہ شہزادہ محمد نہیں بلکہ ’’سلطان محمد خان‘‘ ہے۔

قاسم پہلے ہی تمام حالات سے واقف تھا ۔ اور اسے یہی توقع تھی کہ سلطان اسے شہزادے کے بابت ہی کچھ کہے گا۔ لیکن اسے یہ توقع نہ تھی کہ اے شاہی سراغ رسانی کے عہدے سے الگ کر دیا جائے گا۔ اس نے کسی قدر استعجاب سے پوچھا:۔

’’لیکن سلطانِ معظم ! ابوجعفر کے چند ایک جاسوس ابھی تک ہماری گرفت میں نہیں آسکے۔ میں پوری تگ دو کر رہا ہوں کہ انہیں گرفتار کروں۔‘‘

’’اس کام کے لیے بہرام خان ہی کافی ہے۔ ویسے بھی ہم نے تمہیں عارضی طور پر شاہی سراغ رساں مقرر کیا تھا ۔ تم در حقیقت محاذِ جنگ کے آدمی ہو۔ ہم تمہیں انتظامی امور میں ضائع نہیں کرسکتے ۔‘‘

قاسم کو شاہی سراغ رسانی کے عہدے سے ہٹادیا گیا تھا ۔ اب وہ نو عمر شہزادے کا مشیر خاص مقرر کیا گیا تھا 




All-new Echo Dot (4th Gen, 2020 release) | Smart speaker with Alexa | Charcoal
  • Meet the all-new Echo Dot - Our most popular smart speaker with Alexa. The sleek, compact design delivers crisp vocals and balanced bass for full sound.
  • Voice control your entertainment - Stream songs from Amazon Music, Apple Music, Spotify, SiriusXM, and others. Play music, audiobooks, and podcasts throughout your home with multi-room music.
  • Ready to help - Ask Alexa to tell a joke, play music, answer questions, play the news, check the weather, set alarms, and more.
  • Control your smart home - Use your voice to turn on lights, adjust thermostats, and lock doors with compatible devices.
  • Connect with others - Call almost anyone hands-free. Instantly drop in on other rooms or announce to the whole house that dinner's ready.
  • Designed to protect your privacy – Amazon is not in the business of selling your personal information to others. Built with multiple layers of privacy controls including a mic off button.









 

No comments:

Post a Comment