یہ مسجد تھی۔ یہاں ابوجعفر کا حفاظتی دستہ کہیں بھی موجود نہ تھا ۔ چنانچہ اس کی حکمتِ عملی اس کے کام نہ آئی۔ اور شاہی دستے کے سپاہیوں نے اس کے ہاتھ پیر باندھ کر اسے سرکاری رتھ میں ڈال دیا۔ قاسم بن ہشام ، طغرل بیگ اور شاہی دستے کے باقی سپاہی رتھ کے دائیں بائیں گھوڑوں پر سوار قلعہ ادرنہ کے زندان کی جانب چل دیے
ابوجعفر کا نظامِ جاسوسی دھرے کا دھرا رہ گیا ۔ اور اس کو چھڑوانے والے دستے کو جس وقت ابو جعفر کی گرفتاری کی خبر ملی اس وقت ابوجعفر شاہی قلعے کے تہہ خانے میں ہاتھوں پیروں سے بندھا بے بس پڑا تھا ۔ قاسم نے پوچھ گچھ کی غرض سے ابھی تک ابو جعفر کے ہاتھ پیر بندھے رہنے دیے۔ باقی سپاہی جاچکے تھے ۔ یہاں صرف چند قلعے کے محافظ اور تہہ خانے میں قاسم اور طغرل بیگ موجود تھے۔ قاسم نے اپنی پوچھ گچھ کا آغاز کیا ۔ تو ابوجعفر زیادہ دیر اپنی زبان بند نہ رکھ سکا۔ اس نے اذیت کے دوسرے مر حلے میں ہی اپنی سازش کے تقریباً تمام تانے بانے اگل دیے۔ لیکن پھر بھی وہ ابوجعفر تھا ۔ ایک تجربہ کار اور کایاں جاسوس۔ اس نے نہ تو اس دستے کے بارے میں قاسم کو کچھ بتایا جو ابوجعفر کی مدد کے لیے ہر دم تیار رہتا تھا اور نہ ہی طبیب سلیم پاشا کا کچھ ذکر کیا
اب قاسم کے لیے پوچھ گچھ کے سلسلے میں سب سے اہم سوال کی باری تھی۔ اس نے ابوجعفر کے بازوؤں کو پیچھے کی طرف کرکے باندھ رکھا تھا ۔ اور اس کی دونوں کہنیوں میں لکڑی کا ڈنڈا ڈال کر ڈنڈے کے دونوں سروں کو رسی کے ذریعے تہہ خانے کی چھت کے ساتھ لٹکادیا تھا ۔ابوجعفر کے پیروں تلے ایک عجیب و غریب میز رکھا تھا ۔ جس کے تختے ایک ہینڈل کے ذریعے اوپر اور نیچے ہونے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ قاسم چکر دار ہینڈل کو گھماتے ہوئے میز کے تختے نیچے کرتا تو ابوجعفر اپنی بغلوں کے بل پر فضا میں معلق ہوجاتا ۔ ابوجعفر کے پیروں میں موجود رسی میز کے تختوں کے ساتھ منسلک تھی۔ تختے جونہی نیچے کی طرف سفر کرتے اس کے پیروں کے ساتھ بندھی رسی بھی ا سے نیچے کھینچتی اور یوں وہ چھت اور فرش کے درمیان تن جاتا۔قاسم کا ہاتھ پہیہ نما ہینڈل پر تھا۔ وہ جونہی تختے نیچے کرنے کے لیے ذراسا ہینڈل گھماتا ابوجعفر کی فلک شگاف چیخیں نکلنے لگتیں
قاسم نے ابوجعفر کے سامنے ہینڈل پر ہاتھ رکھا اور اس سے کہا:۔’’ ابوجعفر ! ایک ہی بار بتادو کہ مارتھا بیگم کی بیٹی مارسی کہاں ہے؟‘‘
یہ سوال اگر قاسم کے لیے اہم تھا تو ابوجعفر کے لیے بھی کم اہم نہیں تھا ۔ وہ اگر مارسی کے بارے میں بتادیتا تو طبیب سلیم پاشا کا راز کھل جاتا اور اس کاراز کھلتے ہی شہزادہ علاؤالدین کے بچ نکلنے کی امید پیدا ہوجاتی۔ ابوجعفر نے پوری قوت سے دانت بھینچ لیے اور کوئی جواب نہ دیا۔ قاسم نے ہینڈل کو پورے زور کے ساتھ گھمادیا۔
ابوجعفر کو ایسے لگا جیسے اس کا جسم ٹوٹ کر دوحصوں میں تقسیم ہوجائے گا۔ اس نے چیخ چیخ کر کہنا شروع کیا
مارسی یہاں نہیں ہے..مارسی یہاں نہیں ہے...مارسی یہاں نہیں ہے ۔ خدا را! مجھے چھوڑ دو...‘‘۔
ابوجعفر شدید تکلیف میں مبتلا تھا ۔ قاسم نے ہینڈل واپس گھمائے بغیر پوچھا:۔ ’’مارسی یہاں نہیں ہے تو کہاں ہے۔‘‘
’’وہ ..وہ....اونہہ ..البانیہ جاچکی ہے۔‘‘
قاسم کے لیے یہ خبر ناقابلِ یقین تھی۔ وہ خود البانیہ کے راستے پر سفر کر چکا تھا ۔ چنانچہ اس نے انتہائی کرخت لہجے میں ابوجعفر سے کہا
تم جھوٹ بکتے ہو....مارسی یہیں ہے، ادرنہ میں ..میں نے البانیہ کا سارا راستہ چھان مارا ہے۔ کیا وہ ہوا میں اڑ کر البانیہ گئی ہے۔‘‘
’’نن .........نہیں .......اونہہ .....مم........مجھے چھوڑ دو۔ اسے پہلے ایشیائے کوچک کے راستے پر سوکوس روانہ کیا گیا۔ پھر وہ سمندری راستے سے درِ دانیال کو عبور کرتی ہوئی البانیہ پہنچی ‘‘۔
قاسم کے لیے یہ خبر روح فرسا تھی۔ اس کا منہ لٹک گیا ۔ اسے یقین ہونے لگا کہ ابوجعفر اس سے زیادہ شاطر ہے۔ ابوجعفر نے مارسی کو روانہ کرنے کے لیے کیسی چال کھیلی تھی۔ اب تو بظاہر قاسم اس کی گرد کو بھی نہ پاسکتا تھا ۔قاسم ابوجعفر سے اپنی محبت اور ہونے والی بیوی کو تو حاصل نہ کر سکا ۔ لیکن ابھی قاسم سمجھ رہا تھا کہ ابوجعفر نے اس کی توقع سے بڑھ کر معلومات اگل دی ہیں۔ چنانچہ وہ شام تک ابوجعفر کے سر پر سوار رہنے کے بعد ، بعداز نمازِ مغرب پوری طرح مطمئن ہوکر اور ابوجعفر سے اگلوائی گئی معلومات کو کئی کاغذوں پر تفصیل کے ساتھ لکھنے کے بعد قلعہ ادرنہ سے واپسی پر آمادہ ہوا۔ اس نے ابوجعفر کے ہاتھ پاؤں کھلوادیے۔ اور اسے تہہ خانے میں قید کرنے کے بعد قلعے کی بیرونی عمارت میں نکل آیا۔ یہاں آکر اس نے قلعہ دارسے پوچھا کہ
اس قلعے کی حفاظت پر کتنے آدمی مامور ہیں؟‘‘
’’مجھ سمیت دس۔‘‘
قاسم نے اطمینان سے سر ہلایا۔ اسے قطعاً توقع نہ تھی کہ اس چھوٹے سے قلعے پر ابو جعفر کو چھڑوانے کے لیے کوئی حملہ ہوسکتا ہے۔ یہ درحقیقت ایک بہت چھوٹا سا جنگی قلعہ تھا ۔ جو شہر کی فصیل میں شمال مغربی کونے پر واقع تھا ۔ یہ صرف ان دنوں استعمال میں آتا جب کبھی ادرنہ شہر محاصرے کی زد میں آجاتا ۔ اس قلعے کے دو ہی برج تھے ۔ اور دونوں برج شہر پناہ سے خاصے بلند ہونے کی وجہ سے شہر سے باہر دور تک نگرانی کرنے اور حملہ کرنے کے کام آتے تھے
قاسم نے قلعہ دار کو ابوجعفر کے طعام و لباس کے بارے میں ہدایات جاری کیں اور مزید یہ کہہ کر کہ یہاں ابوجعفر کی اسیری انتہائی خفیہ سرکاری راز ہے.
وہاں سے نکل آیا۔ طغر ل بیگ اس کے ہمراہ تھا ۔ آج قاسم نے ایک بہت بڑی مہم سر کی تھی۔ کیونکہ اس نے اپنے سب سے بڑے شکار ابوجعفر کی گردن دبوچ لی تھی۔ اور اس سے اس کی پوری سازش کا تمام تر منصوبہ اگلوالیا تھا ۔ اب ادرنہ کو داخلی طور پر کوئی خطرہ درپیش نہ تھا۔ قاسم نے سلطان کو ابو جعفر سے اگلوائی گئی معلومات پر مشتمل دستاویزات دکھائیں۔ اور سلطان سے ان تمام اشخاص کی گرفتاری کا حکم حاصل کر لیا جو اس سازش میں ملوث تھے۔ ان میں بعض بڑے بڑے افراد بھی تھے۔ ینی چری کے بعض سالار اور سپاہی بھی تھے۔ اور شہر میں مختلف حلیوں میں رہائش پذیر قیصر کے دوچار اہم جاسوس بھی تھے ان میں اگر نہیں تھا تو سلیم پاشا کا نام نہیں تھا ۔ اور اگرنہیں تھا تو ابوجعفر کے اس خصوصی دستے کا ذکر نہیں تھا ۔ جو آج رات ہی ابوجعفر کو شمالی قلعہ کی قید سے چھڑوانے والا تھا ۔
سلطان نے ان تمام افراد کو ایک ہی رات میں گرفتار کرنے کے لیے شاہی دستے کے سپہ سالار طغرل بیگ کو مقرر کیا ۔ شاہی دستے کو کئی حصوں میں تقسیم کیا گیا ۔ اور مختلف مقامات پر چھاپے مارنے کے لیے دس دس اور پندرہ پندرہ سپاہیوں پر مشتمل مختلف ٹولیاں تجویز کی گئیں۔
آج دن بھر ادرنہ شہر میں ابوجعفر کی گرفتاری سے متعلق چہ مہ گوئیاں رہی تھیں۔ ایک دوجگہ بعض شر پسندوں نے جو یقیناًابوجعفر کے ساتھی رہے ہونگے بلوے بھی کیے تھے ۔ لیکن آج دن بھر سلطان کی وفادار فوج ینی چر ی کا ایک بڑا حصہ شہر کی ہر سڑک اور ہر گلی میں گشت کرتا رہا تھا ۔ آج صبح سے ہی شہر کی ناکہ بندی کر دی گئی تھی۔ اور فصیل میں موجود ہر درواذہ مکمل طور پر بند کر دیا گیا تھا ۔ تاکہ ابوجعفر کا کوئی ساتھی اس کی ممکنہ گرفتاری کے بعد فرار ہونے نہ پائے ۔ آج کا دن ادرنہ کی تاریخ میں اہمیت کا حامل تھا ۔ اور سلطان خود براہِ راست تمام حالات کی کمان کر رہا تھا ۔
لیکن قاسم یہ سب کچھ کرنے کے باوجود بھی اداس تھا ۔ اسے توقع تھی کہ وہ ابوجعفر سے پوچھ گچھ کرنے کے بعد مارسی کو بھی برآمد کرلے گا۔ لیکن اس کی توقع پوری نہ ہوسکی۔ وہ مارسی کو جس قدر نزدیک محسوس کررہا تھا ۔ مارسی اس سے اتنی ہی دور ہوتی جارہی تھی۔ سلطان نے ابوجعفر کی گرفتاری سے پہلے ادرنہ میں باقاعدہ منادی بھی کرائی تھی کہ ’’بعض شرپسندوں کو جو ادرنہ میں چھپ چکے ہیں ، گرفتار کرنے کے لیے شہر بھر میں ہنگامی حالات نافذ ہونے کا اعلان کیا جاتا ہے۔ کسی بھی شخص کو دو روز تک ادرنہ سے باہر جانے کی اجازت نہیں۔ کوئی بھی شخص کسی اجنبی کا مہمان نہ بنائے اور نہ ہی پناہ دے ۔ شہر میں موجود تمام غیر ملکیوں کو حکم دیا جاتا ہے کہ کوتوالِ شہر کے پاس اپنی موجودگی ظاہر کرنے کے لیے حاضری لگوائیں‘‘۔.........اس قدر اہتمام کے بعد ابوجعفر اور قیصر کے دیگر جاسوسوں پر ہاتھ ڈالنے کے کام آغازکیا گیا۔
قاسم دن بھر بے حد مصروف رہا ۔ شہر کے مختلف علاقوں میں یکے بعد دیگر چھاپے مارے گئے ۔ بہت سے اہم مقامات پر قاسم نے خود چھاپے مارے۔ رات گئے تک زیادہ تر سازشی کرداروں کو گرفتار کرلیا گیا ۔ کچھ اہم مجرم شہر کے اندرہی روپوش ہوگئے۔ جن کا سراغ لگانے کے لیے بہرام خان کا خفیہ محکمہ، کوتوالِ شہر کے سپاہی ، ینی چری کے وفادار دستے اور شاہی دستے کے سپاہی ابھی تک ان تھک محنت کررہے تھے۔ قاسم رات گئے اس وقت گھر لوٹا جب وہ تھک کر چور ہوچکا تھا ۔ لیکن اب بھی نیند اس کی آنکھوں سے دور تھی۔وہ بستر پردراز ہوکر چھت کو گھورنے لگا۔ اس کا دماغ تو یہیں تھا ۔ لیکن اس کا دل البانیہ میں تھا ۔ بہت دیر تک وہ جاگتا رہا ۔ لیکن پھر نہ جانے کس وقت اس کی آنکھ لگ گئی۔
اگلی صبح قاسم کی آنکھ کھلی تو اس کے لیے سب سے پہلی خبر انتہائی سنسنی خیز اور پریشان کن تھی۔ اسے صبح ہی صبح اس کے ایک اپنے آدمی نے اطلاع پہنچائی کہ ..گزشتہ شب شمالی قلعے پر کسی گروہ نے شب خون مارا ہے۔ اور حملہ آور قیصر کے خطرناک جاسوس ابوجعفر کو چھڑا کے لے گئے۔ واقعے کی تفصیل کچھ یوں تھی۔
نصف شب کے بعد شمالی قلعے پر کسی مسلح دستے نے اندھا دھند یلغار کرکے قلعہ دار اور اس کے تمام سپاہیوں کو تہہ تیغ کر دیا۔ اور تہہ خانے میں موجود ابوجعفر کو چھڑا کر لے گئے۔ شواہد سے معلوم ہواکہ حملہ آوروں کے کئی ساتھی بھی اس حملے میں مارے گئے ۔ لیکن حملہ آور جاتے وقت اپنے ساتھیوں کی لاشوں کو ساتھ لے گئے
No comments:
Post a Comment